تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-01-2016

اقوام متحدہ کے لئے زکوٰۃ

ایک بھارتی روزنامے نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس تجویز پر اظہار خیال کیا ہے‘ جس میں مسلمانوں کے ز کوٰۃ فنڈ سے ‘ اقوام متحدہ کی مالی مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔ 
''اقوام متحدہ کا قیام 1940ء کے عشرے میں دنیا میں امن و امان‘ اتحاد‘ بھائی چارے اور مساوات کے ایجنڈے کے ساتھ عمل میں آیا۔ لیکن اس پر دنیا کے پانچ ممالک کا قبضہ رہا بلکہ یہی اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور فی الوقت اقوام متحدہ کو انسانی بنیادوں پر امدادی کاموں کے لئے حاصل ہونے والی مجموعی رقوم کا دو تہائی حصہ‘ یہی پانچ ممالک فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود‘ اقوام متحدہ مالی مشکلات کا شکار ہے اور یہ عالمی ادارہ انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کو بخوبی انجام دینے کے لئے مالی وسائل کے حصول کے لئے نئے ذرائع کی تلاش میں ہے۔
آج عالمی سطح پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلے گا کہ ایک مخصوص مذہب اور اس کے ماننے والوں کو ‘ان کے علاقوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے خطوں میں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دہشت گردی کا تحفہ دیا جا رہا ہے۔ وہ اسلام اور اس کے ماننے والے مسلمان ہیں۔ لیکن کہتے ہیں تخریب میں سے بہتری کا پہلو نکلتا ہے اور یہی بات ہے کہ مالی مشکلات سے دوچار اقوام متحدہ کو پیش کردہ نئی تجاویز میں فٹ بال میچوں اور موسیقی کے پروگراموں پر رضاکارانہ ٹیکس کے علاوہ‘ زکوٰۃ جمع کرنا بھی شامل ہے جو کہ ایک خوش آئند بات کہی جا سکتی ہے کہ جس مذہب میں امن و مساوات کا پیغام دیا گیا‘ اس کے چند پیروکاروں کی نازیبا اور ناپسندیدہ حرکتوں کے سبب‘ اسلام اور سارے مسلمانوں کو شک و شبہ کے دائرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اس کے پانچ مستقل ارکان زکوٰۃ جیسے مالی نظام سے فنڈ کی حصولی کے حق میں ہوں تو یہ ایک اچھی پہل کہی جا سکتی ہے۔
حالیہ رپورٹوں کے مطابق‘ یہ تجاویز اقوام متحدہ کی جانب سے‘ انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کے لئے رقوم جمع کرنے کی خاطر ‘نئے ذرائع کی تلاش سے متعلق رپورٹ میں پیش کی گئی ہیں۔ ان میں زکوٰۃ کا حصول بھی شامل ہے۔ اس رپورٹ میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ مسلمان آبادی والے ممالک سے زکوٰۃ کے ذریعے رقم جمع کی جائے۔ یہ کم ہی لوگ جانتے ہیں یا پھر ان تک یہ پیغام نہیں پہنچایا گیا کہ اسلام کے مساوات اور معاشی نظام کے تحت ‘دنیا بھر میں مسلمان شہریوں کی جانب سے سالانہ 232 بلین ڈالر سے لے کر 560 بلین ڈالر تک زکوٰۃ جمع کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد کسی بھی فرقے کے غریبوں کو ‘خوشی میں شامل کیا جانا ہے۔ عالمی ادارے نے اگر اس پر اعتماد ظاہر کیا ہے توکیا ہمیں ازسرنو جائزہ نہیںلینا چاہیے ؟کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان رقوم کا صرف ایک فیصد بھی عالمی ادارے کی انسانی بنیادوں پر‘ امدادی سرگرمیوں کی خاطر مہیا کیا جائے‘ تو یہ اقوام متحدہ کی مالی مشکلات میں واضح کمی کا باعث بنے گا۔
واضح رہے کہ زکوٰۃ کے طریقے کے بارے میں سبھی کو احساس ہے اور وہ جانتے بھی ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں اسے نافذ کرنے کا فقدان ہے۔ بھارت کے سابق نائب صدر‘ بھیرون سنگھ شیخاوت نے ‘جب وہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ تھے‘ جے پور میں مسلمانوں کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے‘ اسلامی نظام زکوٰۃ کے بارے میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ''میں حیرت زدہ ہوں کہ زکوٰۃ کی شکل میں ایک بہترین معاشی نظام ہونے کے باوجود‘ ملک کے مسلمان غربت کا شکار کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اس نظام پر نیک نیتی اور خلوص سے عمل کیا جائے تو یہاں کے کروڑوں مسلمانوں کی ہی حالت نہیں بدلے گی بلکہ ہندوستان سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ جلسہ میں شریک ایک عالم دین نے شیخاوت جی کے سوال کا جواب دیا کہ'' مسلمانوں کے امراء‘ کس طرح زکوٰۃ دینے میں کوتاہی کرتے ہیں‘ سسٹم صحیح انداز میں نافذ نہیں کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے ٹھیک ڈھنگ سے حقداروں کو رقم نہیں مل پاتی ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور اس کا مثبت اور بہتر حل نکالیں۔‘‘
مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنے شاندار دینی نظام سے محض اس لئے استفادہ نہیں کر پا رہے کہ فرقہ بندی میں مختلف علمائے دین نے زکوٰۃ کے سلسلے میں اپنی اپنی تشریحات کر رکھی ہیں۔ مثلاً جب جنرل ضیاالحق نے بنکوں میں جمع رقوم سے زکوٰۃ کاٹنے کا سلسلہ شروع کیا‘ تو اہل تشیع نے اس سے شدید اختلاف کرتے ہوئے‘ اپنے مسلک کے لوگوں کی جمع شدہ رقوم سے‘ حکومت کے زکوٰۃ کاٹ لینے کا حق نہیں مانا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے‘ وہ بنکوں کو باضابطہ اپنے اہل تشیع ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد بنک‘ ان کی جمع شدہ رقوم سے زکوٰۃ نہیں کاٹتے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے‘ اہل تشیع اور سنی دونوں ‘ زکوٰۃ کی ایک ہی شرح رکھتے ہیں۔عمومی طور پر اہل تشیع اور اہلسنت و الجماعت کی زکوٰۃ میں خاص فرق نہیں لیکن موقع محل اورزکوٰۃ کے مصرف پر علیحدہ علیحدہ تعریفیں موجود ہیں۔چند ایک بیان کروں گا مثلاً زکوٰۃ کا ایک مصرف یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص مالدار ہو لیکن سفر میں تنگ دست ہو جائے‘ تو زکوٰۃسے اس کی مالی مدد کی جا سکے گی۔اس سے مراد وہ شخص ہے‘ جس کے وسائل و اسباب‘ گھر‘ ٹھکانہ اور مال سے دور ہونے کی بنا پر ‘اس کی دسترس میں نہ ہوں۔اس کوزکوٰۃ دی جا سکتی ہے اگر چہ وہ اپنے شہر میں امیر ہو۔بعض تفصیلات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن زیورات کی مالک عورت ہو‘ خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے لے کر اسے مالک بنا دیا ہو تو ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ‘یعنی عورت کو صرف پہننے کے لئے د یے گئے ہوں اور اسے مالک نہیں بنایا گیا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمے ہے ‘عورت پر نہیں۔
تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی‘ اگر اس سے سونے اور چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے۔اگر سونا چاندی نہ ہو‘ مالِ تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم ازکم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ‘ان سے ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی خریدی جا سکتی ہو تو وہ صاحب نصاب ہے۔ اس شخص کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ ‘ کل کا چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے۔
اگر شروع میں نصاب پورا تھا اور سال کے آخر میں بھی پورارہا۔ درمیان میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا‘ تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخص کو پورے مال کی زکوٰۃ دینا پڑے گی۔
روپے پیسوں کی زکوٰۃ میں‘ پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃکے نکلتے ہیں‘ اگر ان کا غلہ‘ کپڑا‘کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحق زکوٰۃ کو دے دیا جائے تو زکوٰۃادا ہو جائے گی۔
کرائے پر اٹھانے کے لئے‘ ویگنیں‘ موٹریں‘ بسیں ‘ دیگیں‘ دریاں‘ گدے‘ کرسیاں‘ میزیں‘ پلنگ‘ مسہریاں یا کرائے پر اٹھانے کے علاوہ مکانات اور دکانوں سے حاصل شدہ آمدنی اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے‘ تو زکوٰۃواجب ہو گی۔
میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃنہیں دے سکتے۔یونہی کوئی شخض اپنے والدین کو اوپر تک‘ اپنی اولاد کو نیچے تک زکوٰۃ‘ عشر‘ فطرانہ ‘ فدیہ اور کفارے کی رقم وغیرہ نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ غریب رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی اور ان کی اولاد‘ چچا‘ پھوپھی‘ ماموں‘ خالہ اور ان کی اولاد غریب و مستحق ہو تو ان کو زکوٰۃ‘ عشر ‘ فطرانہ اور فدیہ وغیرہ دینا دوگنا ثواب کا حقدار بنائے گا...اول فرض ادا کر کے‘ دوئم‘ صلہ رحمی اور رشتہ داری کا لحاظ کرنے کا۔ جب یہ تسلی ہو جائے کہ یہ شخص غریب اور مستحق ہے تو اس کو بقدرِ ضرورت دے دے۔ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہے بلکہ نہ بتانا بہتر ہے تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ زکوٰۃو صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے مستحق اقربا کو دے‘ پھر ان کی اولاد‘ پھر دوسرے رشتے داروں کو‘ پھر پڑوسیوں پھر اپنے پیشہ والوں کو‘ پھر اپنے گائوں اور شہر کے رہنے والوں کو دے سکتا ہے۔
میں نے محض چند ایک مثالیں دی ہیں ورنہ زکوٰۃ وعشر کی تعریف اور شرائط میں ان گنت صفحات بھرے پڑے ہیں۔اقوام متحدہ کے فلاحی اداروں کا انتخاب کر کے‘ زکوٰۃ کی رقم ان کے لئے وقف کی جا سکتی ہے۔غیر مسلموں اور مسلمانوں کو ‘بے سبب تشدد اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے والوں نے‘ مسلمانوں کوباقی دنیا کی نگاہوں میں نا پسندیدہ بنا رکھا ہے۔مسلمان افراد ‘ادارے اور ریاستیں اگر اپنے اپنے مسلک کے علما کرام کی ہدایت کی روشنی میں‘اقوام متحدہ کی مخصوص فلاحی شاخوں کے لئے زکوٰۃ دینے لگیں تو یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حق میں نیکی ہو گی۔ دہشت گردوں نے تمام اہل اسلام کو عالمی برادری کی نظر میں معتوب بنا رکھا ہے ‘ اس میں بڑی حد تک کمی ہو جائے گی۔اہل علم بتاتے ہیں کہ اگر مسلمان خود پر واجب زکوٰۃ‘ پوری ایمانداری سے ادا کرتے رہیں‘ تو نہ صرف مسلمانوں میں کوئی غریب بچے گا بلکہ اقوام متحدہ کے ذریعے‘ ان گنت ضرورت مندوں کی مدد بھی ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved