غضب خدا کا‘ نصف ارب روپے سے ایک پورے خطے میں زندگی سرسبز ہو سکتی ہے مگر بے حسی ہے کہ ہر طرف موت کے سائے دراز ہیں۔ الامان والحفیظ‘ الامان والحفیظ!
ایک دن صحرا میں بِتایا تھا، آج تک وہ دل میں ہمکتا ہے۔ اللہ اسے خوش رکھے، ایک فوجی افسر کے ساتھ ۔وہ نالاں تھے۔ گفتگو میں کچھ زیادہ اظہار نہ کیا‘ ناراضی مگر چہرے سے امڈی پڑتی تھی۔ تھر میں امدادی کاموں کے نگران تھے۔ ان سے درخواست کی اپنے ساتھ لے جائیں۔ کراچی سے مسافر ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوا تو بولے: چائے پیو گے یا کافی؟ معذرت کی۔ کہا: دوسری بار نہیں پوچھوں گا۔ ادب سے گزارش کی: یقین کیجیے، میں پیتا ہی نہیں ۔ کچھ نرم پڑے۔ ''جوس پی لیجیے‘‘۔ تیزی سے اٹھے اور ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھے۔ تاخیر پہ معذرت کرنی چاہیے تھی مگر الجھا ہوا مسافر خاموش رہا۔
اگلے پانچ چھ گھنٹے ریگ زار کی وسعتوں میں بیت گئے۔ ڈرتے ڈرتے التماس کی: کچھ تھوڑے سے روپے میرے پاس ہیں، اگر آپ قبول کریں اور ضرورت مندوں کو دے دیں۔ بولے: میری بیوی نے کچھ پیسے دیے تھے، پہلے وہ پہنچا دوں۔ شام کو جواب طلبی ہو گی۔ حیدر آباد پہنچ کر وہ روپے ان کے حوالے کیے تو دس منٹ میں رسید پہنچا دی۔ اتوار کا دن تھا، کمرے میں پڑا نوٹس مرتب کرتا رہا۔ آفتاب غروب ہوا تو ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا، معافی مانگی۔ سپاہی کا دل پگھل گیا۔ الٹا میری دلجوئی کرنے لگے۔ چہرے پر ایک تاثر یہ بھی تھا: کاش تم اخبار نویس کچھ ذمہ داری کے حامل ہوتے۔
سوچتا ہوں، صحرا سے الفت کا رشتہ کب اور کیسے قائم ہوا۔ لڑکپن اور جوانی میں رحیم یار خان میں بیتے آٹھ برس۔ ممکن ہے، بعض کو یقین نہ آئے، چاندنی ایسی ہوتی کہ کتاب پڑھی جا سکتی۔ گاہے یوں محسوس ہوتا کہ زمین پر نہیں، آدمی چاند پر ہے۔ دور سے، کہیں دور سے گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی ہے، اونٹوں کے گلے میں پڑی گھنٹیاں۔ ایسا سحر آلود سناٹا کہ بیان ہو نہیں سکتا، لاشعور میں ٹھہر جاتا ہے اور ہمیشہ آواز دیتا رہتا ہے۔ ظہیر کاشمیری کی ایک نظم ہے چولستان پر۔ تصویر کھینچ دی ہے۔ کچھ چیزیں شاعروں، مصوروں اور موسیقاروں ہی کو زیبا ہیں۔ بے پناہ سکوت میں بانسری کی صدا سنائی دیتی ہے تو روز ازل کے پیمان کی بازگشت جاگ اُٹھتی ہے ؎
خشک چوب و خشک تار و خشک پوست
از کجامی آید ایں آوازِ دوست؟
صحرا میں بھی انسان بستے ہیں۔ ہمارے ہی جیسے آدمی۔ وہی غم، وہی مسرتیں، وہی ملال، وہی انتظار اور وہی امیدیں۔ ہم انہیں فلموں اور ڈراموں میں دیکھ‘ حیرت کرتے‘ ان پر ترس کھاتے اور بھول جاتے ہیں۔ صحرا محض ریگستان نہیں ہوتا۔ اس میں نخلستان ہوتے ہیں اور کہیں تو چشمے بھی۔ پھول کھلتے ہیں اور کبھی تو اس قدر کہ ساری دھرتی گلستاں لگتی ہے ؎
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
خواجہ غلام فرید کی شاعری میں چولستان بجائے خود ایک جیتا جاگتا کردار ہے‘ فقط اس کے مکین ہی نہیں۔ صحرا سے صوفی کو ایسی محبت تھی کہ زندگی اس کے ساتھ بسر کر دی۔ ابدالآباد تک کے لیے اسے زندہ کر دیا۔ تھر اور چولستان ایک ہی ہیں۔ فقط یہ کہ تھر کے مکین بے رحم لوگوں کے ہاتھ میں ہیں‘ وگرنہ اس میں امکانات چولستان سے زیادہ ہیں۔ پنجاب کی حکومت بھی کچھ ایسی مہربان اور عوام دوست نہیں۔ باتیں بہت‘ عمل برائے نام۔ چولستان میں مگر اس نے پختہ تالاب بنوائے ہیں کہ بارش کا پانی تادیر باقی رہے۔ زندگی پانی کے ساتھ ہے ''وجَعَلنا مِن المائِ کُل شیئٍ حیی‘‘ (ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ہے)۔
غیر سرکاری اطلاعات یہ ہیں کہ سرما کی لہر کے ساتھ تھر میں 64 بچے زندگیاں ہار چکے۔ حکومت سندھ 20 اموات کی تصدیق کرتی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ موسم بگڑ جائے تو نمونیا‘ ہیضہ‘ تھلیسیمیا اور دل کی بیماریاں یلغار کر دیتی ہیں۔ گرما میں سورج آگ برساتاہے۔ بے احتیاط جان ہار دیتے ہیں۔ مِٹھّی کے بڑے ہسپتال میں‘ جس پر وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے اظہار فخر کیا تھا‘ سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بھرگری مسلسل بڑبڑاتے رہتے ہیں: اخبار نویس بِس کی گانٹھ ہیں۔ مسیحائوں کو وہ قاتلوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
جی نہیں‘ قصور معالجوں کا نہیں۔ سنجیدگی سے تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نسل در نسل افلاس نے مکینوں کو ایسا کردیا ہے کہ ان کے معدے پوری غذا قبول ہی نہیں کرتے۔ صوبائی حکومت بے حس ہے۔ اس کے وزراء کی بڑی تعداد بدعنوان ہے۔ سرکاری افسروں کا حال بھی یہی ہے۔ انگریزوں کے عہد سے چلے آتے نظام کے تحت گندم مختص کی جاتی ہے‘ بعض اوقات وہ گوداموں میں پڑی رہ جاتی ہے‘ حتیٰ کہ پانی کی عطیہ کردہ بوتلیں اور ادویات بھی۔ چند لاکھ مکین ہیں‘ ایک مرحلہ وار منصوبے کے تحت ان کا علاج ممکن ہے کہ دوسروں کی طرح رغبت سے کھانے پینے لگیں۔ میڈیکل سائنس ایسی بھی بے بس نہیں مگر احساس‘ مگر دردمندی۔ بازار میں تو بکتی نہیں۔ دل پتھر ہو جائیں تو آدمی‘ آدمی کہاں رہتا ہے۔
دو برس ہوتے ہیں‘ جب بھارتی سرحد تک پھیلے درجن بھر دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ آج تک ایک اذیت کے ساتھ ان دنوں کی یاد آتی ہے۔ وحشت زدہ چہرے‘ ستے ہوئے‘بجھی ہوئی آنکھیں،تقدیر پر شاکر ۔ وہ جو زندگی سے کوئی مطالبہ نہیں کرتے۔ کسی سے کوئی امید نہیں رکھتے۔ اکثریت ہندو مت کی پیرو کار ہے‘ خود کو حالات کے حوالے کر دینے والے۔ یوں مسلمانوں کا حال کون سا بہتر ہے۔ دو ہزار برس سے‘ جب موسمی تبدیلیوں نے پوٹھوہار ایسے سبزہ زار کو ویرانے میں بدل ڈالا تھا‘ وہ اسی طرح جی رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری حکومت آتی ہے اور وہی بے حسی۔ قدرے پڑھے لکھے ایک مکین سے سوال کیا: کیا کبھی کسی نے تمہارا حال پوچھا؟ کہا: جی ہاں بھٹو نے یا پھر پاکستانی فوج نے۔ حیدر آباد اور کراچی میں فوجی افسروں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا یہ تھا: زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس کروڑ روپے درکار ہیں کہ پانی ہر آبادی تک جا پہنچے۔ صحرا کے حاشیے پر ایک نہررواں ہے۔ بعض دیہات کو اس سے پانی پہنچایا گیا‘ زیر زمین پائپوں کے ذریعے۔ یہ کام مگر فوج نے انجام دیا۔ سول انتظامیہ کچھ دیر کے لیے جاگ اٹھتی ہے‘ جب ٹیلی ویژن اور اخبارات میں چیخ و پکار ہو‘ پھر لمبی تان کرسو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کھال موٹی ہوتی جا رہی ہے۔ شاعر نے کہا تھا ؎
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی
اگر احساس ہی مر جائے؟ پھر سرکارؐ یاد آتے ہیں: برائی سے جب روکا نہ جائے گا‘ بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے ۔ وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔ نکتہ واضح ہے، جدوجہد سے زندگی سنورتی ہے‘ باتوں سے نہیں۔
مٹھّی‘ میں قطار در قطار این جی اوز کے دفاتر ہیں۔ سب جانتے ہیں دردمند ان میں کم ہیں‘ استحصالی زیادہ‘ پچاس فیصد تک ان کا بجٹ انتظامی اخراجات کے لیے ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بھی بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔ بجا ارشاد مگر جو بلدیات کراچی‘ حیدر آباد‘ سکھر اور سندھ کے دوسرے شہروںمیں ہیں‘انہیں آپ اختیارات کیوں نہیں دیتے؟ سندھ کے وسائل دوسرے صوبوں سے نسبتاً زیادہ ہیں مگر دیہی بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ غربت دیہی سندھ میں ہے ‘ انسان جہاں سسک سسک کرجیتے ہیں ؎
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
عمران خان سے جس طرح مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے دعووں کا ثبوت وہ پختون خوا میں پیش کریں، بلاول بھٹو سے تقاضا کرنا چاہیے کہ بلند بانگ باتوں کی بجائے‘ وہ تھر کے مکینوں کو بچا لیں۔
غضب خدا کا‘ نصف ارب روپے سے ایک پورے خطے میں زندگی سرسبز ہو سکتی ہے مگر بے حسی ہے کہ ہر طرف موت کے سائے دراز ہیں۔ الامان والحفیظ‘ الامان والحفیظ!