تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-01-2016

ٹرک کی بتی

ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے یا بھاگنے کی باتیں اکثر سننے میں آتی ہیں، لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ انڈیا نے بھی پاکستان کو ایسے ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، جس کے عقب میں موٹے موٹے حروف میں گیس پائپ لائن لکھا ہوا ہے؟ بھارت آئی پی آئی (ایران، پاکستان، انڈیا) گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے بالکل شروع سے ہی سنجیدہ نہیں تھا کیونکہ وہ کیسے قبول کر سکتا ہے کہ اس تک پہنچنے والے توانائی کے ذرائع پر پاکستان کا اسی طرح کنٹرول ہو جیسے پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں کے پانیوں پراس کا کنٹرول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے پہلے آئی پی آئی سے امریکی دبائو اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی آڑ میں علیحدہ ہوا، پھر اس نے پاکستان کو امریکہ کے بچھائے ہوئے تاپی (TAPI یعنی ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا ) گیس پائپ لائن کے جال میں پھنسائے رکھا کہ آئی پی آئی کے بدلے میں اسے تاپی کے بیش بہا خزانوں سے نوازا جائے گا۔ پاکستان بھی اس خوش فہمی میں ایران سے دور رہنے لگا۔ جب ترکمانستان میں تاپی کے چاروں ممالک کے سربراہان اس معاہدے کے تحت گیس پائپ لائن کی تعمیر کے آغاز پر جشن منارہے تھے، میاں نواز شریف قوم کو خوش خبری دے رہے تھے کہ ''ہن موجاں ای موجاں‘‘، گویا 2018ء تک پاکستان میں ہر طرف سے گیس کے دریا بہنا شروع ہو جائیں گے۔ لیکن اسی وقت تاپی گیس پائپ لائن کا سب سے اہم کردار انڈیا، چپکے چپکے ایران کے اعلیٰ حکام سے 4.5 بلین ڈالر کی لاگت سے31.5 ملین کیوبک میٹرز روزانہ گیس کی سپلائی کے معاہدہ MEIDP( مڈل ایسٹ ٹو انڈیا ڈیپ واٹر پائپ لائن) پر متفق ہو چکا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران جو قدرتی گیس رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، قدرتی گیس عُمانی سمندر اور بحیرہ عرب کے راستے زیر آب پائپ لائنوں کے ذریعے بھارتی صوبے گجرات پہنچائے گا۔ 
2009ء میں ایران نے عُمان سے ایک ایم او یو پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ایک بلین ڈالر کی لاگت سے عُمان تک زیر سمندر200 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا آغاز ہوگیا جو 2017ء میں مکمل ہوگا۔ اس سے عُمان کو سالانہ دس بلین کیوبک میٹر گیس مہیا ہو گی۔ سلطنت مسقط و عُمان سے ہونے والے اس معاہدے میں یہ تحریر تھا کہ ایران سے آنے والی گیس کو عُمان اپنے خرچ پر ایل این جی میں کنورٹ کرنے کے بعد اسے مارکیٹ میں بیچ سکے گا۔ بھارت کی اس معاہدے پر نظر تھی۔ چنانچہ سبدھ کمار جین نے جو سائوتھ ایشیا گیس انٹرپرائز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، نریندر مودی کو اس کے متعلق بریف کیا کہ اگر عُمان سے گجرات تک 1300کلو میٹر زیر سمندر پائپ لائن گزاری جائے تو ایران سے ملنے والی قدرتی گیس اور ایل این جی بھارت کی توانائی کی ضروریات کے لیے انتہائی سستی اور فائدہ مند رہے گی۔ آگے چل کر اسی پائپ لائن کی وجہ سے بھارت کو ترکمانستان کی گیس تاپی کے بغیر بھی مل سکے گی۔ نریندر مودی کے سامنے 2015ء میں چین کا پاکستان کے ساتھ چھیالیس بلین ڈالرکا معاہدہ تھا جس کے مقابلے میں انہوں نے مڈل ایسٹ اور گلف کی ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کر نے شروع کر دیے۔ دبئی اور سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے دفاعی اور تجارتی معاہدے 
ہمارے سامنے ہیں۔ بھارت کے وزیر پورٹ اینڈ شپنگ نے ایران کے وزیر شپنگ عباس احمد اخوندی کے ساتھ بھی ایک ایم او یو پر دستخط کیے جس کے تحت خلیج عُمان میں بندر گاہ کی ترقی کے لیے سرمایہ اور مدد ایران فراہم کرے گا اور اس کے لیے دو نئی اور جدید برتھوں(گودیوں) کی تعمیرکی جائے گی۔ اس کا مقصد بھارت کے نزدیک اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ افغانستان، سنٹرل ایشیا اور خلیج میں تجارت کے لیے اس کا پاکستان کی بند رگاہوں پر انحصار کم کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے ترکمانستان سے گیس کی سپلائی کے لیے چاہ بہار تک پائپ لائن کا آدھے سے زیا دہ کام مکمل کر لیا ہے اور اسی لیے بھارت نے افغانستان کے صوبے نیم روز سے چاہ بہار تک100 ملین ڈالر کی لاگت سے220 کلومیٹر طویل سڑک تعمیر کی ہے۔ حال ہی میں ہونے والے تاپی کے افتتاح سے بھی6 ماہ قبل اگست 2015ء میں چیئرمین کنفیڈریشن آف شمالی ریجن انڈین انڈسٹری شری کانت سومانی اور عمان چیمبر آف کامرس کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت بھارت اور اومانی حکومتیںایرانی گیس حاصل کرنے کے لیے عمان اور وہاں سے گجرات (انڈیا) تک سپلائی کے لیے پائپ لائنیں بچھانے پر رضامند ہوئے اور اس معاہدے کی ایک کاپی دونوں حکومتوں نے ایرانی حکومت کے حوالے کردی۔ نومبر میں نیشنل ایرانین گیس ایکسپورٹ کمپنی کے سربراہ علی رضا کمیلی نے نئی دہلی کو اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے اپنی حکومت کی جانب سے او کے سگنل دے دیا۔ اس پیغام کے دو ہفتے بعد ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بات چیت ہوئی اور اس منصوبے کی تفصیلات طے کی گئیں۔ پھر28 دسمبر کو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور ایران کے خزانہ اور اقتصادی امور کے وزراء کے درمیان ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے زیر سمندر عمان کی بندرگاہ راس الجفان اور وہاں سے پور بندرگجرات تک قدرتی گیس کی سپلائی کے 4.3 ارب ڈالر مالیت کے اس بہت بڑے پراجیکٹ کا با قاعدہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت انڈیا کو ایران سے روزانہ 31.5 ملین کیوبک میٹر گیس کی سپلائی ہوا کرے گی اور یہ پراجیکٹ دوسال کے عرصہ میں مکمل کیا جائے گا جو ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے ہوتا ہوا عمانی سمندری حدود میں واقع راس الجفان کی بندرگاہ سے گزرتے ہوئے بحیرہ عرب کے راستے بھارت کے صوبے گجرات کے جنوب میں واقع پور بندر تک پہنچایا 
جائے گا۔ ایران پر پابندیاں17جنوری سے ختم کی گئی ہیں۔ تاپی گیس منصوبے پر اگر ابھی سے مسلسل کام شروع کر دیا جائے تو معاہدے کی رو سے2019ء کے آخر میں یہ مکمل ہوگا لیکن اس کے لیے سب سے پہلے افغانستان میں امن لانا ہوگا اور یہ امن کس طرح ممکن ہو گا؟ اس کے متعلق ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ افغانستان کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال سب کو نظر آ رہی ہے۔ اب افغانستان پر قبضے کے لیے داعش اور طالبان کی ایک نئی جنگ بھی شروع ہو چکی ہے۔ اگر اس کے با وجود افغاستان میں امن ہو جاتا ہے تو یہ پائپ لائن ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور انڈیا تک پہنچائی جاسکے گی، لیکن اس معاہدے پر بھارت کے پالیسی ساز سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے یہ پائپ لائن جنوبی وزیرستان اور قبائلی علا قوں سے گزرتی ہوئی پاکستان آئے گی اور پھر یہاں سے بھارت پہنچے گی جس کی سپلائی پاکستان کے قبائلی علا قوں اور جنوبی وزیرستان میں کسی بھی وقت بند کی جا سکتی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ بھارت کسی بھی صورت میں پاکستان کا محتاج ہونے کا رسک نہیں لے گا۔ توانائی کے ذرائع کے حصول کے لیے بھارت کی کوششیں دیکھنے کے بعد سوچیے کہ دہشت گردی کے بعد پاکستان کو اگر کسی عفریت کا سامنا ہے تو وہ ہماری زندگی کے لیے درکار توانائی کا حصول ہے جس کے لیے ہم اس قدر مجبور اور بے بس ہو چکے ہیں کہ اپنی زندگی بچانے کے لیے ہمیں جان بچانے والی ادویات بھی اپنے ڈاکٹر کی مرضی سے نہیں بلکہ ہسپتال کے مالک کی اجازت سے استعمال کرنی ہوں گی جس میں ڈاکٹر کا کلینک ہے۔ یہی غلام قوموں کی نشانی اور اس کی نئی نسلوں کی بد قسمتی ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved