کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گرد و پیش میں کیا ہو رہا ہے ؟اگر آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں ۔ آپ کے کم تعلیم یافتہ ، کم ہنر مند دوست سفارش سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔ آپ کے ذہن میں نادر منصوبے موجو د ہیں لیکن سرمایہ تو دور کی بات، آپ کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہیں ، جس سے آپ انہیں عملی جامہ پہنا سکیں ۔آپ اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے مالک ہیں لیکن آپ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی ہے ، جہاں آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ۔ اس کے باوجود نہیں دیا گیا کہ آپ کے والد یہ خرچ اٹھا سکتے تھے لیکن ان کی ترجیحات کچھ اور تھیں ۔آپ اپنے دوستوں کو والدین کی بھرپور توجہ اور حوصلہ افزائی میں زندگی میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے اور کڑھتے رہتے ہیں ۔ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے ؟
ایک نئی نویلی دلہن ، جس نے اپنی سہیلیوں کو شوہروں کی بھرپور محبت پاتے دیکھا ہے ، شادی کے فوراً بعد اس پہ انکشاف ہوتاہے کہ خاوند موصوف تو کسی اورحسینہ کے اسیر ہیں ۔ موقع بے موقع اس کی تذلیل کی جاتی ہے ۔ اس کی بنیادی ضروریات بھی احسان جتلا کر پوری کی جاتی ہیں ۔ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور بھائی اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں ۔ ان سے وہ مالی تو کیا، اخلاقی مدد کی بھی امید نہیں رکھتی ۔ ''آخر میں ہی کیوں ؟میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ ‘‘ وہ سوال کرتی اور روتی رہتی ہے ۔
اسما ابھی بمشکل تیرہ برس کی تھی ، جب ا سے مستقل طور پر بازو اور ٹانگوں میں درد رہنے لگا۔ ڈاکٹر نے گنٹھیا تشخیص کیا۔ پندرہ برس تک وہ ادویات استعمال کرتی رہی مگر اس کا جسم سوکھتا چلا گیا۔ آخر اس نے ایک حکیم کی دوا استعمال کی۔ اس میں چاندی کے ورق ملے ہوئے تھے ۔ انہوں نے گردوں کو بری طرح متاثر کیا۔ اب تیس برس کی عمر میں نہ صرف اس کا پورا جسم سوجا ہواہے بلکہ گنٹھیا نے ہڈیوں کو پیس ڈالا ہے ۔ وہ اپنی سہیلیوں کو بھرپور شادی شدہ زندگی گزارتے ، اپنے بچّوں سے کھیلتے دیکھتی ہے ۔ شادی اس کے نزدیک ایک حسرت آمیز چیز ہرگز نہیں۔ اس کا پورا جسم پھوڑ ا بنا ہوا ہے ۔ وہ دولت کی آرزو مند بھی نہیں ۔ اس کے نزدیک صحت ایک ایسی نعمت ہے ، جو نصیب ہو جائے تو باقی تمام چیزوں سے دست بردار ہوا جا سکتاہے ۔ یہ صحت ا س کے نصیب میں نہیں ۔ بالآخر اس کے گردے جواب دے جاتے ہیں ۔ حیرت اور حسرت سے وہ سوچتی رہ جاتی ہے ''میں ہی کیوں؟‘‘
بخاری صاحب ایک ایماندار ، انتہائی قابل اور فرض شناس پولیس افسر ہیں ۔ ان کا سترہ سالہ دورِ ملازمت کارناموں سے بھرپور ہے ۔ سیاسی دبائو اور معطلی کی کبھی انہوں نے رتّی برابر پرواہ نہیں کی۔ اپنی تنخواہ میں گزارا کیا۔ رشوت درکنار ،کبھی کسی مشکوک شخص کا تحفہ تک قبول نہیں کیا۔ سترھویں برس ا ن کے ہاں ایک ایب نارمل بچّہ پیدا ہوتاہے ۔ یہ ان بچّوں میں سے ہے ، جنہیں ہر لمحہ سنبھالنا ہوتاہے اور جو ساری زندگی کبھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونا تو درکنار رفع حاجت بھی دوسروں کی مد د کے بغیر نہیں کر سکتے ۔ بخاری صاحب اس خیال کو جھٹکنا چاہتے ہیں مگر وہ پیرِ تسمہ پا کی طرح ان کے دماغ سے چمٹا ہوا ہے ''آخر میں نے ایسا کیا گنا ہ کیا ، جس کی مجھے یہ سزا ملی؟‘‘
سب سے بڑی مثال تو مشہورِ عالم طبیعیات دان اور ماہرِ فلکیات سٹیون ہاکنگ کی ہے ۔مغرب اس کے لیے "Master of universe"کا خطاب استعمال کرتا ہے ۔ اس ماسٹر کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ایک انگلی ہلانے پر بھی قادر نہیں ۔ایک لفظ بھی مشینی مدد کے بغیر وہ بول نہیں سکتا۔ ایک بار پھر وہی سوال ہمارے سامنے ہے ''آخر کیوں؟‘‘
اس ''کیوں‘‘ کا جواب تلاش کرنا آساں نہیں ۔ کم از کم جذباتی کیفیت میں تو ہرگز نہیں ۔ اس کا جواب علم و عقل میں پوشیدہ ہے ۔ وہ عقل، جس پہ خدا نے ناز کیا تھا۔ وہ علم، جس کے بارے میں خدا یہ کہتاہے کہ اس کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔ اگر آپ زندگی پر غور نہیں کرتے ، دنیا کو سمجھتے نہیں تو صبر ممکن نہیں ۔ایمان کی طرح صبر بھی علم کے ساتھ ہے ۔ اگر اپنی اولاد کا منفی رویہ آپ کو متواتر تکلیف پہنچا رہا ہے توآپ کو اس کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ ہر نفس میں خدا نے اپنی شدید ترین محبت پیدا کی ہے ۔ زندگی بچانے سے لے کر ہر قسم کی خودغرضی کی بنیاد یہی محبت ہے ۔ کچھ چیزوں میں خدا نے بہت لذت اور کشش پیدا کی ہے اور پھر انہیں ممنوع قرار دیا ہے ۔بہر صورت نفس نے یہ کشش محسوس کرنی اور اس پر ردّعمل ظاہر کرنا ہے ۔
انسانی و حیوانی جبلّتیں بڑی خوفناک ہیں ۔ یہ جو بیس ہزار ایٹم بم کرّئہ ارض پہ دھرے ہیں او رجو اسے مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، اس کی بنیاد یہی جبلّتیں ہیں ۔ انسان میںیہ زیادہ خوفناک نتائج کی حامل اس لیے ہیں کہ یہ عقل کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ خدا ایسا کیوں کرتاہے ؟ کیوں وہ کچھ چیزوں میں کشش رکھتا اور پھر ان سے روکتا ہے ۔ کیوں وہ آپ کی تمام تر نیکی اور صلاحیت کے باوجود آپ کو انتہائی نافرمان اولاد دیتا یا بے حس والدین کے ہاں پیدا کرتاہے ۔ جواب یہ ہے کہ یہ دنیا اس نے آزمائش کے لیے بنائی ہے ۔ اگر گیارہ ملین بے عقل مخلوقات کو دیکھیں تو ان میں ایسی آزمائش آپ کو نظر نہیں آئے گی ۔ جذبات بذاتِ خود ایک بہت بڑی آزمائش ہیں ۔ انسان ایک دوسرے کے اور اپنے جذبات سے جیسا اور جس قدر آزمایا جاتاہے ، شاید کسی دوسری چیز سے نہیں ۔ آزمائش وہیں نظر آتی ہے ، جہاں عقل ہے ۔ جانور آزمائے نہیں جاتے ۔ آزمائش عقل کے ساتھ ہے ۔ اس بارے میں ایک اصول خدا نے وضع کیا ہے او روہ قرآن کریم میں درج ہے ۔ ''اللہ کسی جان کو اس کی استطاعت سے زیادہ نہیں آزماتا‘‘ اکلوتی بیٹی کی وفات اور تینوں بیٹوں کے ایب نارمل ہونے کا صدمہ صرف گوجر خان کے جہانگیر صاحب ہی اٹھا سکتے اورایک نارمل زندگی گزار سکتے تھے ۔ دس برس تک اپنے باپ کو بدترین بیماریوں میں تڑپتے دیکھنا ، اسے سنبھالنا اور ساتھ ہی مالی معاملات دیکھنا حمزہ قاسم ہی کے بس کی بات تھی ۔
ہم میں سے ہر ایک آزمایا جارہا ہے ۔ اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق۔ زندگی کے اس سفر میں صرف دعا، علم اور عقل ہی آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔ دولت اس کشمکش میں آپ کو بچا نہیں سکتی۔حال ہی میں آپ نے عمران خان کو طلاق کی تکلیف سے گزرتے دیکھا ہے ۔ شریف خاندان ہو یا سیاسی و عسکری قیادت کا کوئی بھی طاقتور ترین فرد، جذباتی حادثات سے کوئی بھی مبرّا نہیں ۔