تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-01-2016

پھندا

باچا خان ‘عدم تشدد اور امن کے علمبردار تھے۔ ان کی برسی پر اہل وطن نے‘ جس طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا‘ اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ یقینا باچا خان کی روح تڑپی ہو گی۔ ان کے سیاسی عقیدت مندوں کے دلوں پر بھی زخم لگے ہوں گے اور جو ڈسپلن‘ وہ اپنی قوم کو زندگی بھر سکھاتے رہے‘ اسے باچا خان کے اہل وطن نے انہی کے‘ بیٹے بیٹیوں کے لہو میں ڈبو دیا۔ دہشت گردی ‘ پاکستان میں انوکھی چیز نہیں۔ ہماری انتظامیہ‘ ہماری پولیس اور ہماری فوج‘ ایک مدت سے دہشت گردی کی وارداتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسرے تمام اداروں کو دہشت گردی کے سامنے بے بس دیکھ کر‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے‘ یہ ذمہ داری فوج پر ڈالی اور دہشت گردوں کے سب سے بڑے مرکز میران شاہ میں‘ فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ یہ آپریشن نہایت تیزی کے ساتھ پھیلا اور ابتدائی ایام میں ہی دہشت گردوں کے تمام بڑے بڑے اڈے تباہ وبرباد کر کے‘ انہیں تتربتر کر دیا۔ آج قریباً ڈیڑھ سال کے بعد‘ آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے خاندان ‘واپس اپنے گھروں میں جانا شروع کرچکے ہیں۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد فوج نے آپریشن کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا دیا۔ دہشت گردوں کو وسائل‘ ٹیکنالوجی اور اسلحہ مہیا کرنے والے سب سے بڑے مرکز ‘کراچی تک کارروائی پھیل گئی۔ یہ ایک ہمہ جہتی آپریشن تھا۔ کوئی بھی دہشت گردی‘ خفیہ پناہ گاہوں‘ سرمائے کی فراہمی‘ اسلحہ کی دستیابی اور بااثر لوگوں کی پشت پناہی کے بغیر ‘زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ درست ہے کہ ابتدائی کارروائیوں میں فوج کو تیزرفتاری سے کامیابیاں حاصل ہوئیں اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ گیا۔ 
کچھ عرصے تک تو دشمن ‘فوج کے اچانک اور موثر حملوں کے سامنے منتشر ہو گیا‘لیکن پاکستانیوں کے روایتی مزاج کے مطابق‘ ہمارے تمام مسلح ادارے یا تو یہ سمجھ بیٹھے کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہونے کی پوزیشن میں نہیں یا وہ اپنے ٹھکانوں سے محروم ہو کرازسرنو کارروائیاں کرنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ بے شک یہ دونوں باتیں درست تھیں۔ لیکن ایک تیسری بات بھی تھی اور وہ یہ کہ اپنے مراکز اور ٹھکانوں سے محروم ہونے کے باوجود‘ ان کا نیٹ ورک برقرار رہا اور وہ مختلف کارروائیاں کر کے‘ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ اس کے برعکس ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جانے کے تصور میں‘ ہمہ وقت تیاری کی حالت سے نکل آئے اور جب بھی کسی جنگ میں‘ حصہ لینے والے‘ دشمن کی غفلت پر بھروسہ کر بیٹھیں‘ تو وہ پلٹ کر وار کرتا ہے اور یہی کچھ طالبان نے کیا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ پشاور میں اے پی ایس کا سانحہ یاد کر لیں‘ تو جو پہلا خیال ذہن میں آئے گا‘ وہ یہ ہو گا کہ پاکستان کے عام شہری ‘جب بھی کہیں زیادہ تعداد میں کسی تحفظ کے بغیر جمع ہوں‘ تو یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ان کی حفاظت کا موثر انتظام کیا جائے۔ باچا خان کی برسی معمولی واقعہ نہیں۔ دہشت گردوں اور باچا خان کے سیاسی پیروکاروں کے درمیان‘ اے این پی کی صوبائی حکومت کے دور میں جو کھلی دشمنی شروع ہوئی تھی‘ اسے فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اے این پی کی حکومت نے‘ دہشت گردوں کے خلاف کھل کر محاذآرائی کی تھی اور ان کی صوبائی حکومت کو جو وسائل بھی میسر تھے‘ ان کے ساتھ دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا۔ آج بھی پرانے دن یاد کر کے‘ نہتے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی بہادری پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے نہتے رہ کر‘ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں اورہمت اور حوصلے کے ساتھ دہشت گردوں کا سامنا کیا۔ وہ اپنی انتخابی مہمات چلاتے رہے۔ جلسے جلوسوں کا سیاسی عمل جاری رکھا۔ دہشت گردوں نے بزدلوں کی طرح چھپ کر ان پر حملے کئے۔ سابق صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے فرزند کو گولی کا نشانہ بنایا۔صوبائی حکومت کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور‘ کیسے دل گردے کے آدمی تھے کہ ہر قسم کی دھمکیاں ملنے کے باوجود معمول کے مطابق اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ دہشت گرد انہیں دھمکیاں دیتے رہے۔ بارہا ان پر قاتلانہ حملے ہوئے مگر اس خدا کے بندے نے ڈر کے نہیں دیا۔ بشیربلور کی اس دلیری اور بے خوفی نے‘ دہشت گردوں کے خوف اور دبدبے کو خاک میں ملا دیا تھا۔ ان کے لیڈر پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ یہ نہتے لوگ‘ پاکستان کی روایتی پولیس کے بل بوتے پر‘ ہم سے ٹکر لینے پر تلے رہتے ہیں۔ ہماری دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اپنی معمول کی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے‘ وہ عملی طور پر ہمیں للکارتے ہیں۔ آخر کار انہوں نے22دسمبر 2012ء کو چوروں کی طرح گھات لگا کر ‘ بشیر بلور کو نشانہ بنا لیا۔ ذرا وہ حالات تصور میں لایئے‘ جن میں ‘ امن اور عدم تشدد پر یقین رکھنے والے ‘خونخوار دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود‘ نہتے رہ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے۔ دھمکیوں کے باوجود وہ کسی سے تحفظ نہ مانگتے اور جہاں تک مجھے یاد ہے‘ دہشت گردوں نے‘ بشیر بلور کو دھمکی بھی دے رکھی تھی۔ وہ پھر بھی ایک عام سے گھر میں اپنے کارکنوں کی میٹنگ میں شرکت کے لئے چلے گئے۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ باہر نکلے ‘تو خودکش بمبار ان کے انتظار میں تھا۔ اس نے قریب جا کر دھماکا کر دیا۔ وہ شدید زخمی ہوئے۔ ہسپتال جا کردنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان یادوں کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ پولیس ہو یا فوج یا پھر سلامتی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ادارے‘ جیسے حالات کے پی کے میں برسوں سے پائے جاتے ہیں اور خصوصاً دہشت گردی کے جو المناک واقعات خیبرپختونخوا میں ہوئے ہیں‘ سکیورٹی کے نظام سے وابستہ کوئی بھی عام فہم آدمی‘ عدم تشدد پر یقین رکھنے والوں کے اجتماع کو حفاظتی انتظامات کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا اور وہ بھی ایسے حالات میں جب کہ دہشت گرد دوبارہ سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چند ہی روز پہلے انہوں نے کراچی میں رینجرز کے جوانوں کو شہید کیاتھا اور چند گھنٹے پہلے‘ دہشت گردوں نے کے پی کے میں ہی‘ خاصہ دار فورس کی چوکی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا‘ جس کے نتیجے میں 12جوان شہید ہو گئے اور اگلے ہی دن دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر کے‘ اساتذہ اور طالب علموں پر اندھادھند گولیاں چلائیں۔ میں یہ سطور سہ پہر تین بجے لکھ رہا ہوں۔ ابھی تک شہید ہونے والوں کی تعداد 20 بتائی جا رہی ہے جبکہ ایک برطانوی اخبار کے مطابق یہ تعداد 30تک ہو سکتی ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا‘ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے سکیورٹی کے نظام سے وابستہ کوئی بھی شخص‘ باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے اجتماع کو نظرانداز کر سکتا تھا؟ 
جہاں تک مجھے انتظامی امور کا اندازہ ہے‘ اے پی ایس کے‘ اندوہناک سانحے کے بعد کسی بھی سکول اور کالج میں ‘ہر قسم کے اجتماع کی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات ہونے چاہئیں اور باچا خان کی یاد میں ہونے والے مشاعرے کو تو‘ حفاظتی انتظامات کے بغیر چھوڑا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ انتظامیہ کا عام طریقہ یہ ہے کہ جب حالات مخدوش ہوں اورتشدد کا ہدف بننے والی جماعت یا کمیونٹی کا اجتماع ہو رہا ہو‘ تو اس کے حفاظتی انتظامات خصوصی طور پر کئے جاتے ہیں۔ اے این پی تو ایسی جماعت ہے‘ جسے دہشت گردوں نے بطور خاص نشانہ بنا رکھا ہے اور وہ باقاعدہ چیلنج دے کر اس کے لیڈروں کو شہید کرتے رہے ہیں۔ اس بات کا تو بطور خاص خیال رکھا جانا چاہیے کہ جہاں بھی باچا خان یا ان کی سیاسی وراثت کو سنبھالنے والی اے این پی کا اجتماع ہو یا پاک فوج کے اہل خاندان یا فوج کے اپنے کسی بھی طرح کے ادبی‘ تہذیبی یا سماجی اجتماعات ہوں‘ اس موقع کو تو غنیمت سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ فوج اور پولیس کے تجربہ کار اور سکیورٹی ماہرین کو تقریب یا اجتماع کا محل وقوع بتا کر‘ انہیں خفیہ نگرانی پر مامور کر دیا جائے اور اجتماع کے اندر سادہ لباس میں انتہائی ماہر نشانے باز ‘ مناسب مقامات پر متعین کر دیئے جائیں اور داخلے کے تمام راستوں پر‘ بہترین کمانڈوز سادہ لباس میں کھڑے ہوں‘ جو ہر مشکوک آدمی کو عقابی نظروں سے دیکھ کر‘ اس کا ایکسرے کر لیں‘ تو ایسے اجتماعات کو دہشت گردوں کے لئے بطور پھندا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ دہشت گردوں کے واضح اہداف دیکھ کر بھی‘ جوابی کارروائی کی تیاری نہیں کرتے۔ جب آپ دہشت گردوں جیسے گروہوں کے خلاف برسرِ جنگ ہوں‘ تو ایسی جنگ میں کوئی وقفہ محفوظ نہیں ہوتا۔ ہر وقت نہ صرف تیاری رکھنا پڑتی ہے بلکہ جہاں کہیں دہشت گردوں کے حملے کا شک ہو‘ وہاں ان کے لئے پہلے سے پھندا تیار کر کے رکھنا چاہیے۔ اتنی آسانی سے دہشت گردوں کے اہداف کو‘ ان کے رحم و کرم پر چھوڑنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved