تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-01-2016

مٹ جائے گی مخلو ق تو انصاف کرو گے ؟

بخدا ہم سب قصور وار ہیں ۔ حکومت بے نیاز ہے اور ہم جلنے کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کرتے ۔ اٹھو ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے 
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے 
مسئلہ تجزیے کا نہیں ، عمل کا ہے ۔ اس یکسوئی کا، جس کے بغیر چیلنج سے نمٹا نہیں جا سکتا ۔ وزیرِ اعظم اوروزیرِ داخلہ پر ، وزرا ئے اعلیٰ اور متعلقہ افسروں پر معاملے کے سنگین پہلو پہلے بھی آشکار ہوں گے ۔ مجھ سا عامی بھی اگر دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہے تو شاید ادراک کر سکتاہے ۔ احساس یہ ہوتاہے کہ ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے 
اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی 
امتحا ن جب درپیش ہو تو ردّعمل کئی طرح کے ہو سکتے ہیں ۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کا ہنر یا پھر پورے عزم کے ساتھ مقابلہ کرنے کا۔ زندگی آزمائش کے سوا کیا ہے ۔ آدمی کو امتحان کے لیے پیدا کیاگیا۔ پھر ایک بنیادی اصول یہ ہے ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے 
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
اقوام کی نجات وعظ و نصیحت او رتوبہ و استغفار میں نہیں بلکہ جدوجہد میں ہوتی ہے ۔ ایک قوم کی حیثیت سے اس قدر گناہوں کا ہم نے ارتکاب کیا ہے کہ تلافی کے بغیر نجات کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ انگریزی میں کہتے ہیں''Face It‘‘اٹھو اور مقابلہ کرو۔ 
ابھی کل تک بحث یہ تھی کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں یا جنگ۔ کن کن لوگوں نے قوم کو خلط مبحث میں مبتلا کرنے کی کوشش کی؟ بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے قوم کو الجھائے رکھا۔ عمران خان اور وزیرِ اعظم بھی ژولیدہ فکری کے جنگل میں بھٹکتے رہے تاآنکہ آرمی پبلک سکول کا واقعہ پیش آیا۔
بڑھتی پھیلتی آگ سے انکار کیا گیااور جب آپ ایسے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں توقدرت المناک حادثات برپا کرتی ہے ۔ ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں ۔ ہم نے تو انہیں اپنے بچّوں کے لہو سے تر کر کے کھولا ۔ مارکیٹیں ،مزار، مساجد اور امام بارگاہیں مقتل ہو گئیں ۔ پانچ ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہوئے اور ساٹھ ہزار شہری نذر ہوئے ، تب ہماری آنکھیں کھلیں... اور اب بھی پوری کہاں کھلی ہیں ۔ 
دہشت گردی کے اس طوفان کا مقابلہ ، جس کے پیچھے مکاتب اور مدارسِ فکرہیں ، جس میں سرحد پار سے حالات کا فائدہ اٹھانے والے ہمسایہ ممالک شریک ہیں ، کیا اس بے دلی کے ساتھ کیا جاسکتاہے ؟ بھارت اعلان کرتاہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری نہ بننے دے گا۔ چند ہفتے بعد صدر اوباما ارشاد کرتے ہیں کہ پاکستان آئندہ عشروں میں غیر مستحکم رہے گا۔ دونوں کا اتفاقِ رائے کس چیز پر ہے ؟
افغانستان کی خانہ جنگی ہے اور دونوں ممالک کی 2240کلومیٹر طویل سرحد ، جس کی نگرانی کا آج بھی کوئی حقیقی بندوبست نہیں کہ آدھی فوج بھارتی سرحد پر تعینات ہے ۔کچھ بلوچستان، کراچی او رقبائلی ایجنسیوں میں۔ گزشتہ ہفتے دہشت گردی پر ایک بار پھر پاکستان ، افغانستان ، چین اور امریکہ نے مذاکرات کیے ۔ ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیاکہ باہمی تعاون سے قتلِ عام روکا جائے گا۔ گھروں کو آگ لگی ہو او رمسجد سے اعلانات کیے جا رہے ہوں کہ آتش زنی کا مقابلہ کرنے کے لیے محلے دار اتحاد کا مظاہرہ کریں گے؟ سبحان اللہ!
امریکہ اور چین کی شرکت تو نگرانی کے لیے تھی ۔ اصل فریق پاکستان او رافغانستان ہیں ۔ ان کے درمیان بات چیت کیا اس طرح طویل وقفوں کے ساتھ ہونی چاہیے ؟ اب تک ایک میکنزم وجود میں آجانا چاہیے تھا۔ قاتل اور دہشت گرد دونوں طرف موجود ہیں اور پناہ دینے والے بھی ۔ ایک جامع حکمتِ ہونی چاہیے تھی ، جس پر نیک نیتی سے عمل ہو رہا ہوتا تو کامیابی قریب تر ہوتی ۔ 
چہار فریقی مذاکرات کے بعد خبر یہ آئی کہ افغان طالبان نے چار بڑی موبائل کمپنیوں سے بھتہ طلب کیا ہے ورنہ وہ محفوظ نہ رہیں گے۔ ادھر پٹھان کوٹ کے بعد منوہر پارکر نے ارشاد کیا کہ جن لوگوں نے حملہ کیا ہے ، وہ درد سے دوچار کیے جائیں گے ۔ بھارت سے مذاکرات ، جی ہاں ،بالکل مگر دشمن کے عزائم کو سمجھنے اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔بلوچستان اور پختون خوا کی قبائلی پٹی میں بھارت آج بھی طالبان کاپشت پناہ ہے ۔ افغانستان میں بھارت کے نو عدد قونصل خانے اور رابطے کے نو عدد دفاتر ویزے جاری کرنے کے لیے بہرحال نہیں ۔ ایک اندھابھی دیکھ سکتاہے کہ قبائلی علاقوں کو پختون خوا میں ضم کیے بغیر ، ایک موثر سول انتظامیہ کی تشکیل کے بغیر دیر پا حل ممکن نہیں ۔ 
موثر اور مضبوط اداروں والی اقوام بھی غلطیوں کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ امریکہ نے عراق میں جھک ماری ، افغانستان میں اورپھرشام میں۔ ریاست کا سب سے بڑا فریضہ مگر اپنے شہریوں کی حفاظت ہے ۔ نائن الیون او رسیون الیون کے بعد امریکہ اور برطانیہ میں کوئی بڑا حادثہ نہ ہوا ۔ ہمارے ہاں المیوں کی خون آلود زنجیر کیوں ہے ؟
سپہ سالار ہر کہیں جا پہنچتے ہیں تو بہت خوب مگر کیا وہ سول اداروں کا بدل ہو سکتے ہیں؟ حکومت کا طرزِ فکر یہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنا دراصل فوج کی ذمہ داری ہے ۔ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام صرف سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ہے ؟جی نہیں، فقط فوج مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ پوری قوم کو شریک ہونا پڑتاہے ۔ اوّلین دفاعی لائن انٹیلی جنس ہے ۔ 2002ء سے سول اداروں کی اصلاح و تعمیر کا آغاز ہوگیا ہوتا تو دہشت گرد آزادی کے ساتھ دندنا نہ رہے ہوتے ۔ آسمان سے وہ نہیں اترتے ۔ انہی سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتے ہوئے آتے ہیں ، پولیس جن کی نگران ہے ۔ اگر کسی کو پکڑتی ہے تو اکثر بھتہ وصول کرنے کے لیے ۔ پھر یہ کہ اصل انٹیلی جنس پولیس کی ہو تی ہے ۔ ہر گھر کی نگرانی کا جب تک بندوبست نہ ہوگا ، وسیع تر اور جامع کارروائی ممکن نہ ہوگی۔ جرم کوخوف سے ختم کیاجاتا ہے ۔ مجرموں پر زمین جب تنگ ہونے لگے ۔ انگریز حکومت ہر بغاوت کو کچل سکتی تھی ، ہم کیوں نہیں ؟ آئی ایس آئی نہیں ، ان کے پاس صرف پولیس اور سول انٹیلی جنس ادارے تھے ۔ ہاں ! مگر احتساب کا بھرپور نظام۔ سرکاری افسر بھنگ پی کر سو نہ سکتے تھے ۔ پولیس افسروں کا تقرر اور تبادلہ جب تک ارکانِ اسمبلی کی صوابدید سے ہوگا ، جب تک اسے مناسب تربیت اور آلات فراہم نہ کیے جائیں گے ، امن قائم نہ ہو سکے گا۔
جوابی بیانیہ کہاں ہے ؟ وزیرِ اعظم ، وزرائے اعلیٰ اور سیاسی لیڈر ٹسوے بہاتے ہیں ۔ اظہارِ مذمت کرتے ہیں ۔ قو م کو شعور اور تنظیم کی ضرورت ہے ، وعظ کی نہیں۔ قدیم محاورہ یہ ہے Offence is the best defence۔ حملہ ہی بہترین دفاع ہوتاہے ۔ کل جماعتی کانفرنس نہیں ، دہشت گردوں پر یلغار کی ضرورت ہے ۔ سوشل میڈیا پر عساکر کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہے، گویا وہ اس حملے کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر وہ نہ ہوتے تو سوات، جنوبی او رشمالی وزیرستان سے طالبان راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور تک بڑھ آتے۔ 
مضبوط حکومت فوج کا نہیں ، سول اداروں کا نام ہے ۔ کہا جاتاہے کہ فوجی حکومتوں نے سول اداروں کو پنپنے نہ دیا۔ بجا ارشاد مگر کیا روتے ہی رہیے گا؟ جب اختیار آپ کے پاس ہوتو بروئے کار کیوں نہیں آتے ؟ کس نے آپ کو روک رکھا ہے کہ نیکٹا کو فعال کیا جائے؟سری لنکا میں شوگر مل لگانے کے عزم میں آپ آزاد ہیں ، انسدادِ دہشت گردی پر، گورننس پر بھی توجہ فرمائیے ۔ 
ہم سب قصور وار ہیں ۔ حکومت بے نیاز ہے اور ہم جلنے کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کرتے ۔ اٹھو ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے 
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved