برق رفتاری سے گزرتے ہوئے دور ِ جدید(ڈیجیٹل ایج) میں ایام ِ رفتہ کا تصور کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے کہ جب کسی بڑی شخصیت کے جہان ِ فانی سے رحلت کرجانے کے صدمے کو محسوس کیا جاتا تھا۔ میں اُن وقتوں کی بات کررہی ہوں جب کسی نابغہ ٔ روزگار کی رحلت سے آسمان ٹوٹ پڑتا تھا، دنیا تاریک دکھائی دیتی اور وقت کی نبض تھمتی محسوس ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ چند عشرے پہلے مس شمیم انور کی رحلت کی خبر سن کر چر خِ نیلی فام تاریک اور سورج سرد ہوجاتا۔ مس شمیم انور ، جو تاریخ کی بے مثال استاد تھیں، سترہ جنوری کو لاہور میں خالق ِ حقیقی سے جاملیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے قارئین کو اُن کی علمی عظمت کا احساس نہ ہو، اور ممکن ہے کچھ اُن سے واقف بھی نہ ہوں۔چونکہ تدریس کا پیشہ بھی آج کل سماجی طور پر قابل ِ قبول سمجھا جاتا ہے، چنانچہ بہت سے بھاری مشاہرہ وصول کرنے والے عمدہ اساتذہ نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فرائض سرانجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم میں 1970ء اور 1980ء اور1990 ء کی دہائیوں کی بات کررہی ہوں جب نجی شعبے میں پڑھانے والوں کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ تاہم مس انور کے لیے یہ کوئی چیلنج نہ تھا۔ وہ اکثر کنیئرڈ کالج برائے خواتین کے وسیع وعریض لان میں بیٹھی دکھائی دیتیں اورکالج کے تدریسی اوقات کے بعد گھنٹوںاپنے محبوب موضوع، تاریخ پر بات کرتی رہتیں۔ یہ پرائیویٹ ٹیوشن کی کلاس نہیں تھی بلکہ علم کی لگن اور سوالات کی تشنگی بجھانے کے لیے طالبات اُن کے گرد اکٹھی ہوجاتیں۔ اس دوران بہت سے دلچسپ سوالات پوچھے جاتے ۔
مس شمیم انور نے 1960 ء کی دہائی میں میک گل سے تاریخ میں گریجوایشن کی تھی۔ اس موضوع اور اپنی طالبات سے محبت کرنے والی بہت کم ٹیچرز دیکھنے میں آئی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ حیران کن طریقے سے بر ِ صغیر پاک وہند کی تاریخ پڑھاتی تھیں۔ وہ ہمارے سامنے کی خطے کی تاریخ کے خدوخال بیان کرتیں، اس کے واقعات کا آپس میں اور عالمی واقعات اور ہونے والی پیش رفت سے تعلق جوڑتیں۔ وہ اس دوران سازش کی تھیوریوں پر بات نہیں کرتی تھیں لیکن چاہتی تھیں کہ طالبات دنیا اور دیگر خطوں میں اُس وقت ابھرنے والے منظر نامے کو ذہن میں رکھیں ۔ اس سے پالیسیوں اور ان کے نتائج و عواقب کی تفہیم آسان ہو جاتی۔ وہ سوالات کے جواب کی تلاش میں ہمیں تحقیق کی ہدایت کرتیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک مرتبہ انتہائی پریشان ہوئی جب انیسویں صدی کے انڈیا کے بارے میں بحث کرتے ہوئے انھوں نے مجھے لاتعداد کتابیں پڑھنے کی ہدایت کردی کہ میں ان کا مطالعہ کرکے جواب تیار کروں۔ جب میں نے جواب تیا ر کر لیا تو مجھے طمانیت محسوس ہوئی اور میں سمجھ گئی کہ اُنھوں نے اس طریقے سے مجھے اُس سے کہیں زیادہ سمجھا دیا تھا جو میں ان کتابوں کے مطالعے کے بغیر سیکھ سکتی تھی۔ اُن کا مقصد طالبات میں سوالوں کے جواب تلاش کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا تھا۔
وہ یقینا جدید نظریات رکھنے والی خاتون تھیں۔ طالبات کی حوصلہ افزائی کرتیں تاکہ وہ اپنی آزادی کو محسوس کریں اور سمجھاتیں کہ آزادی صرف جسمانی نہیں ، فکری ہوتی ہے۔ مس انور نے جدت پسندی کو اپنایا تھا، خاص طور پر سیاسی طور پر، اور اسی پیرائے میں سرسید احمد خان، محمد علی جناح اور سرمحمد اقبال کی وضاحت کرتیں۔ یہ تینوں عظیم شخصیات اُنہیں بہت پسند تھیں۔ وہ میری اُس وقت ٹیچر تھیں جب 1980ء کی دہائی میں نظریہ ٔ پاکستان تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہوا ایک مختلف سمت اختیار کررہا تھا۔ مجھے یادہے کہ چند تاریخ کے دیگر اساتذہ قومی سلامتی کو جواز بنا کر مس انور کے بارے میں چوکنے رہتے۔ ایسا لگتا جیسے وہ نظریہ ٔ پاکستان کے ساتھ والہانہ لگائو اور جذباتی تعلق رکھتی ہیں۔ بعض اوقات ہم
نجی ملاقاتوں میں ازراہ ِمذاق ایک دوسرے سے کہتے کہ اگر آج مسٹر جناح حیات ہوتے تو مس انور اُن پر اس طرح فریفتہ ہوتیں جیسے نوجوان لڑکیاں دھماکہ خیزفلمی ہیروز پر۔ تاہم ایک استاد کی اصل آزمائش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی، نظریات اور فکری تعصبات سے بلند ہوکر مختلف اور مخالفت نظریات کو بھی سامنے لائے۔ میں ایسے بہت سے نامی گرامی ٹیچرز کو جانتی ہوں جو مسٹر جناح کے تصورات پر ایک سوال تک اٹھانے پر طلبہ پر برس پڑیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ 1971 ء کے سانحہ پر اسائنمنٹ تیار کرتے ہوئے میں نے سوال اٹھایا کہ مسٹر جناح نسلی اور لسانی شناختوں اور ان کے بنگالیوں اور ملک کی دیگر قومیتوں کی زندگیوں میں اثرات پر کیا رائے رکھتے تھے؟مس انور نے میری تحریر پر رد ِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ‘میں نے اپنی سوچ کے مطابق دلیل دیتے ہوئے اُن کی پسند اور ناپسند کو نظر انداز کردیا ہے۔ ایک اچھی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھی سٹوڈنٹ بننا بھی پسندکرتیں اور اپنی شاگروں کے افکار وخیالات کو بڑی توجہ سے سنتیں۔ جب وہ اپنے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہوگئیں تو میرا اُن سے رابطہ رہا اورکبھی کبھار اُن سے ملاقات اور سیاسی موضوعات پر گپ شپ ہو جاتی۔ وہ طالبات پر اپنی رائے مسلط کرنے کی بجائے کمال تحمل کے ساتھ اُن کی باتیں سنتیں اور سوالات کے جواب دیتیں۔
جب میں نے اُن کی رحلت کی خبر سنی تو مجھے شدید افسوس ہوا کہ ایک اور قیمتی جان اس وطن سے رخصت ہوئی اور دوسرے یہ کہ میں نے اوربہت سے دیگر افراد نے اُنہیں مایوس کیا تھا۔ زندگی مشکل ہوتی ہے ، اور مس انور کی زندگی کا آخری عشرہ بطور ِ خاص بہت کٹھن تھا۔ اُنہیں آخری عمر میں ایک ایسی عورت کے گھر میں سرچھپانے کے لیے پناہ تلاش کرنی پڑی جو کبھی اُن کی ملازمہ ہوتی تھی۔ بعض اوقات کنیئرڈ کی کچھ سابق طالبات مل کر کچھ رقم جمع کرکے اُن کی مالی مدد کردیتیں، لیکن کسی نے اُن کے ساتھ ذہنی طور پر رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ شاید ہمارا غرور یا کھوکھلا پن ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی انسان کی ضرورت محض چند ہزار روپے ہی ہوتے ہیں۔ ہم اس عظیم استاد پر توجہ کیوں نہ دے سکے جس نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات میں ہمیں بہترین چیز، علم ، دی تھی اور ہمیں سوچنا سکھایا تھا۔
کیامجھ سے اُس شخصیت کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں ہوئی جس نے میرے تخیل کو جِلا بخشی ؟ شاید کسی اور شخصیت کا مجھ پر اتنا گہرا اثر نہیں جتنا مس انور کا۔ اُنھوںنے بہت سی خواتین کی فکری آبیاری کی جو بعد میں اپنے اپنے شعبوں میں بہت کامیاب ثابت ہوئیں۔ ہم سب کی سوچ سمجھ دراصل مس انور کا فکری پھیلائو ہے۔ ایسااستاد فطرت کسی وطن کو ہر روز نہیں دیتی، ایسے لوگ زمانوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں ۔
اُن کی رحلت کے ساتھ میں نے ایک استاد، ایک مہربان اور ایک فکرانگیز شخصیت کو کھو دیا۔ڈبلیو ایچ ایڈن کے چند ایک اشعار اُن کی خدمت میں
Stop all the clocks, cut off the telephone,
Prevent the dog from barking with a juicy bone,
Silence the pianos and with muffled drum
Bring out the coffin, let the mourners come.
Let aeroplanes circle moaning overhead
Scribbling on the sky the message He {she} Is Dead,