تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-01-2016

ثالثِ بالخیر

ثالث بالخیر کے مقدر میں ناکامی نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اُس کی کوشش بار آور نہ ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کا اجر ضائع ہو۔ 
پیر کی دوپہر کو جب میں نے ریاض کی سرزمین پر قدم رکھا تو ایک احساس تفاخر بھی میرے ساتھ تھا۔ اتوار کی شب محی الدین وانی صاحب کا فون آیا کہ جو لوگ ثالثی کے سفر میں وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں، اُن میں میرا نام بھی شامل ہے۔ ارباب اقتدار کی ہم سفری کبھی میرا شوق نہیں رہا۔ اس کے لیے کبھی خواہش کی اور نہ کوشش۔ پہلی بار جب مجھے اس کی دعوت ملی تو خوشی ہوئی کہ ایک کار خیر میں بروزنِ بیت ہی سہی، لیکن شرکت کا موقع مل رہا ہے۔ دو دن، اس حوالے سے جو سرگرمیاں ہوئیں، مجھے ان کے براہ راست مشاہدے کا موقع ملا۔ مجھے خوشی تھی کہ پاکستان کا سیاسی قائد اور سپہ سالار ایک ایسے سفر پر نکلے ہیں‘ جس میں وہ کسی سے کچھ لینے نہیں، دینے جا رہے ہیں۔ خیر خواہی کا وہ پیغام، جو زیر بحث معاملے میں نتیجہ خیز نہ بھی ہو لیکن اخوت و مودت کے نقش ضرور چھوڑ جائے گا۔ چند باتیں، جو ایران سعودی عرب تنازع کے پس منظر میں اس سفر کے دوران میں، مشاہدے کا حصہ رہیں، میں چاہتا ہوں کہ اپنے پڑھنے والوں کو بھی ان میں شریک کروں۔
اسلام آباد سے ریاض کا سفر شروع ہوا تو دوران پرواز، مشاورت کا آغاز ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ اس نوعیت کی پہلی مجلس نہیں تھی۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف، طارق فاطمی صاحب اور دوسرے معاونین کے ساتھ دو اڑھائی گھنٹے مشاورت کرتے رہے۔ اس وقت کا ایک بڑا حصہ وہ تھا، جس میں صرف وزیر اعظم اور آرمی چیف کے مابین گفتگو ہوئی۔ اس طرح کی مشاورت ریاض اور تہران کے سفر میں بھی ہوتی رہی۔ آرمی چیف ہر ملاقات میں اول و آخر شریک رہے۔ میں نے اس سے یہ تاثر لیا کہ کم از کم ایران اور سعودی عرب کے تنازع میں ثالثی کے باب میں ریاست کے تمام ادار ے یک سو ہیں‘ اور وزیر اعظم نواز شریف نے جو موقف اپنایا ہے، اسے تمام اداروں کی تائید حاصل ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس ثالثی کے اقدام کو دونوں ممالک نے ایک خیر خواہ کے جذبات سمجھا۔ سعودی عرب میں وفد کی جو پزیرائی ہوئی، وہ اگرچہ سالوں پر محیط دوستی کا ایک مظہر تھا، لیکن بطور خاص یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے اس اقدام کو خوش آمدید کہا گیا۔ ایران میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، ان کا متفقہ خیال یہ تھا کہ یمن کے بحران میں پاکستان نے جو موقف اختیار کیا، اس کے بعد ایران میں پاکستان کے بارے میں موجود منفی رائے تیزی سے بدلی ہے۔ عرب اور عجم کے تعلقات میں توازن شاید پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش سب سے بڑی آزمائش ہے۔ یہ کہنا تو آسان ہے کہ پاکستان کو غیر جانب دار رہنا چاہیے، مگر اس کو عملی حقیقت میں تبدیل کرنا مشکل ہے۔
پاکستان کا اپنا مفاد بھی مانع ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو ترازو کے پلڑوں میں ایک سا وزن دیا جائے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب مفاد اور انصاف میں ٹکراؤ ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ ایک طرف ایران اور سعودی عرب کے مفادات کا تصادم ہے اور دوسری طرف پاکستان کے اپنے مفاد کا تقاضا۔ سعودی عرب کا موقف واضح ہے: ایران مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے سے گریز کرے۔ بالخصوص یمن میں‘ جو سعودی عرب کا ہمسایہ ہے اور اس کے داخلی حالات سے سعودی عرب بطور خاص متاثر ہوتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ خود سعودی عرب کو بھی اسی اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ اُسے بھی یمن میں مداخلت کا حق نہیں۔ دونوں ممالک اپنے اثر و رسوخ کو اپنی سرحدوں سے باہر تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تصادم کا مستقل سبب ہے۔
اصل امتحان تصادم سے بچتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ایران کی خارجہ پالیسی ماضی میں دو ستونوں پر قائم تھی۔ امریکہ کی مخالفت اور انتقالِ انقلاب۔ حالات نے ایران کو یہ باور کرا دیا کہ پہلا ستون قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس نے اسے اپنے ہاتھوں سے گرا دیا۔ اس کے ثمرات اب اس تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ دوسرے ستون کو گرانا بھی ایران کے مفاد میں ہے۔ اگر وہ اس پر یک سو ہو جاتا ہے تو اس سے ایران کو معاشی و سیاسی استحکام ملے گا اور ساتھ خطہ بھی کسی بڑے خلفشار سے محفوظ رہے گا۔ یہ بات ایران کو کو ئی دوست نہیں، صرف حالات سمجھا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حالات اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، تصادم کو پھیلنے سے روکنا، سعودی عرب اور ایران دونوں کے مفاد میں ہے۔ 
تصادم کے حل کے تصورات یہ کہتے ہیں کہ جہاں تصادم کے حل کے امکانات نہ ہوں وہاں تصادم کو بڑھنے سے روکنے پر تمام کوششیں مرتکز کر دینی چاہئیں۔ پاکستان اس سلسلے میں معاون ہو سکتا ہے۔ اگر یمن کا مسئلہ بہتر انداز میں حل ہو جائے تو مو جودہ تصادم کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ شام کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے گا، مگر اس کا حل نسبتاً آسان ہو جا ئے گا۔ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو داخلی خلفشار اور تصادم سے محفوظ رکھنے کا پائیدار حل تو جمہوری کلچر کا فروغ ہے۔ سرِدست اس کا امکان نہیں، اس لیے ساری توجہ استقرارِ تصادم (Conflict management) پہ دینی چاہیے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ عربوں کو ساری توجہ اداروں کے استحکام پر دینی چاہیے، جس میں اہم تر عسکری اداروں کی مضبوطی ہے۔ اس سے خارجی جارحیت سے دفاع تو کسی حد تک ممکن ہو جائے گا‘ لیکن مضبوط فوج داخلی خلفشار کا علاج نہیں۔ اس کے لیے جمہوریت ہی پائیدار حل ہے۔ دیکھیے اہلِ عرب کب اس حقیقت کا ادراک کرتے ہیں‘ جس کو جان کر اہلِ مغرب نے داخلی امن کو امرِ واقعہ بنا دیا۔ ایران کو بھی یہ کام کرنا پڑے گا۔ ایرانی قوم میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ اگر وہ شہنشاہیت کے بعد پاپائیت سے بھی نجات حاصل کر لے تو ایران تہذیبی کشمکش میں ایک طاقت ور فریق کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ 
تیسری بات عمران خان سے متعلق ہے۔ میں نے جب وہاں ان کے اس الزام کے بارے میں سنا کہ سلمان شہباز بھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ شریکِ ملاقات تھے تو میرے سمیت تمام افراد حیرت میں ڈوب گئے۔ نواز شریف صاحب نے جو وقت قصرِ یمامہ میں گزارا، ہم سب اس کے ایک ایک لمحے کے عینی شاہد ہیں۔ وزیر اعظم آرمی چیف کے ساتھ جب شاہ سلمان کے ساتھ خصوصی ملاقات کے لیے گئے تو ہم نے انہیں ایک کمرے میں داخل ہوتے اور پھر باہر آتے دیکھا۔ سلمان تو وہاں کہیں نہیں تھے۔ عمران خان کو ایک پرانا ٹی وی فوٹیج دیکھ کر دھوکہ ہوا۔ اگر خوش گمانی کا دامن تھاما جا ئے تو میں اسے جھوٹ نہیں، غلط فہمی کہوں گا؛ تاہم یہ خوش گمانی تبھی برقرار رہ سکتی ہے جب عمران خان اس پر معذرت خواہ ہوں۔ ایک ایسا سفر جو بطور پاکستانی ہم سب کو احساسِ تفاخر میں مبتلا کر ے، اسے شخصی مفادات سے آلودہ کرنا، خوش ذوقی نہیں۔
وزیر اعظم اور آرمی چیف کے اس سفر سے سعودی عرب اور ایران پر کیا اثر پڑتا ہے، اس سے قطع نظر پاکستانی عوام تک یہ پیغام ضرور پہنچنا چاہیے کہ پاکستان کی ریاست اس تنازع میں فریق نہیں اور دونوں میں صلح چاہتی ہے۔ اسی طرح ہماری ریاست شیعہ سنی شناخت سے بھی ماورا ہے۔ وہ لوگ بہت ناعاقبت اندیش ہوں گے جو اس بنیاد پر قوم کو تقسیم کریں گے یا خارجی جنگ کو اپنی جنگ بنائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved