تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-01-2016

کچھوے پر سواری

اگر یہ درست ہے کہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان کی رفتار کچھوے کی رفتار کے برابر رہ گئی ہے تو پھر ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بھی اسی رفتار سے بہتر ہو گی کیونکہ سرمایہ کاری چاہے مقامی ہو یا بیرونی، اس کا سازگار ماحول سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد اب تک کوئٹہ، جمرود اور چارسدہ میں انتقامی حملے ہو چکے ہیں اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ سہ ماہی رپورٹ میں بڑے افسوس کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ملک کی برآمدات میں دن بدن ہونے والی کمی ملکی معیشت کے لیے تباہ کن بنتی جا رہی ہے۔ اگر برآمدات کو بہتر نہ بنایا گیا تو آج جو موقع تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے حاصل ہو رہا ہے کل اس سے محروم ہونا پڑے گا‘ اور اس سے ہمارے لیے بہت سی پریشانیاں ہو سکتی ہیں۔
7 جنوری کو سٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ ملک کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کے ذمہ داران کے بھی سامنے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب ادارے اور ان کے ذمہ داران تیل کی قیمت 125 ڈالر سے کم ہو کر چوبیس ڈالر فی بیرل تک پہنچ جانے کے نشے میں مدہوش رہتے ہیں یا اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے آنے والی نسلوںکے پاکستان کو باوقار قوموں کی فہرست میں لانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے طے کردہ اصولوں پر نیک نیتی سے عمل کرنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے 90 فیصد عوام کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ حکمران ان کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ عوام کوکیا بتایا جائے کہ تیل کی قیمتوں کے علاوہ 
بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانی جو اربوں ڈالر سالانہ بھیج کر ملک کو پائوں پر کھڑا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہماری حکومتیں اور سفارت خانے ان کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتے ہیں۔ جن ممالک میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں ان ممالک کے سرکاری اہلکار تو ان سے عزت و تکریم سے پیش آتے ہیں لیکن ان کے بھیجے گئے زرمبادلہ سے تنخواہیں اور بیش بہا مراعات حاصل کرنے والے اہلکار انہیں اپنے پاس بٹھانا بھی توہین سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں کے سربراہ جب قرضہ دینے یا اس کا سود وصول کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں تو ہمارے حکمران اور ان کے بڑے بڑے اہلکار ان کے سامنے بچھ بچھ جاتے ہیں، لیکن جب اوورسیز پاکستانیوں کو ایئرپورٹ پر دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں اوپر کو چڑھنا شروع ہو جاتی اور رالیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ 
16 دسمبر 2014ء کی صبح آرمی پبلک سکول پشاور میں دشمن کے بھجوائے ہوئے دہشت گردوں کی جانب سے معصوم بچوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی کے بعد ملک کے کونے کونے میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے کے لیے پاکستان کے تمام سکیورٹی اداروں، سیاسی اور سماجی جماعتوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ بہت ہو چکا، اب ان ملک اور اسلام دشمنوں کے خلاف جہاد ہم سب پر واجب ہو چکا ہے‘ اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس مملکت خداداد، اس کی سکیورٹی فورسز، اس کے معصوم بچوں اور عورتوں پر وحشیانہ مظالم کرنے والے سفاک دہشت گردوں اور ان کے ایک ایک ساتھی کو چن چن کر ختم نہیں کر دیا جاتا۔ اس کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک نیشنل ایکشن پلان منظور کیا‘ جس میں لکھا گیا کہ ملک میں سپیشل ٹرائل کورٹس بنائی جائیں گی، دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کا قلع قمع کیا جائے گا، ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کی رجسٹریشن کے علاوہ ان کے لیے باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا جائے گا، دہشت گردوں کے بیانات، ان کے انٹرویوز شائع اور نشر نہ کرنے کے علاوہ انہیں میڈیا پر بطور ہیرو پیش کرنے سے گریز کیا جائے گا، گورنر کے پی کے کی زیر نگرانی فاٹا میں 
اصلاحات کی جائیں گی (افسوس کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ کام مکمل نہیں ہو سکا)، ملک بھر کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کی جائے گی، بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے اور اس کی ترقی کے لیے وہاں مفاہمت کی پالیسی اپنائی جائے گی، ملک میں افغان مہاجرین کے اہم ترین مسئلے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو پھانسیاں دی جائیں گی، ملک میں جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کرنے کے لیے کریمینل جسٹس کو یقینی بنایا جائے گا اور تیز تر اصلاحات لائی جائیں گی (افسوس کہ اس پر بھی رتی برابر عمل نہیں ہو سکا)، ملک بھر میں کسی بھی جنگجو تنظیم کو کام کرنے کی اجا زت نہیں ہو گی، ملک کی سلامتی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قائم ادارے نیکٹا (NACTA) کو فعال کیا جائے گا (بدقسمتی دیکھیے کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے گئے)، ملک بھر میں فرقہ واریت اور لسانیت پر مبنی نفرت انگیز تقریریں، وعظ، کتابیں، پمفلٹ، رسالے شائع کرنے اور ان کو بیچنے کی سخت ممانعت ہو گی، اس بات کا خاص دھیان رکھا جائے گا کہ دہشت گرد تنظیمیں پھر سے اکٹھی تو نہیں ہو رہیں‘ یا ان کے باہمی رابطے تو نہیں ہو رہے، ملک کے ہر حصے میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے تربیت یافتہ جوانوں پر مشتمل فورس تیار کی جائے گی، دہشت گردوں اور ان کی تمام تنظیموں کے تمام نیٹ ورکس کو ملیامیٹ کیا جائے گا، سوشل میڈیا پر مذہبی جنونیت پھیلانے کی اجا زت نہیں ہو گی، کراچی میں جاری آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور ملک بھر میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف بلا تفریق سخت ترین اقدامات کیے جائیں گے۔
اس نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس وقت تک اس کے 33 اجلاس ہو چکے ہیں۔ اب تک 9 ملٹری کورٹس قائم کی گئی ہیں‘ جن میں 74 مقدمات پیش کیے گئے۔ ان میں سے 46 ابھی زیر سماعت ہیں اور 28 کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے جاری دہشت گردی کے واقعات کو سامنے رکھیں تو یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر بنتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ کیا دہشت گردی کے عفریت کا اس رفتار سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
دہشت گردوں اوران کی تنظیموں تک پہنچنے والے مالی وسائل کے ذرائع کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں‘ مگر ابھی تک ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ کراچی میں رینجرز حالت جنگ میں ہیں۔ کچھ لوگ میڈیا کے ذریعے جان بوجھ کر ان کی کارکردگی کو مشکوک بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ یہ عمل کسی طور پر بھی نیشنل ایکشن پلان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جب آپ سب یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں تک پہنچنے والے ایک ایک ایک روپے کا حساب ہو گا تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان تک کروڑوں روپے پہنچانے والوں سے آنکھیں پھیر لی جائیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved