یہ ہوتا ہے بیوروکریسی کا ذہن کہ خفیہ ایجنسیاں یکے بعد دیگرے ‘رپورٹیں دے رہی تھیں کہ دہشت گرد کسی تعلیمی ادارے پر حملہ کرنے والے ہیں۔ جن دنوںمیں حملے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی‘ انہی کے دوران باچا خان کی 28ویں برسی بھی تھی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں‘ اے این پی واحد ہے‘ جس نے دہشت گردوں سے براہ راست ٹکر لی۔ اس کا حوالہ میں گزشتہ کالم میں دے چکا ہوں۔ آج میں بیوروکریسی کے طرزفکر اور رویے پر بات کر رہا ہوں۔ انتظامیہ کی سربراہی کرنے والا کوئی بھی تجربہ کار افسر موجود ہوتا‘ تو خفیہ ایجنسی کی رپورٹ دیکھتے ہی‘ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ آنا تھا کہ باچا خان کی برسی کے موقع پر‘ ان سے نسبت رکھنے والے اداروں میں یقینی طور پر کوئی نہ کوئی تقریب ضرور ہو گی۔ایسے تمام اجتماعات کے بارے میں معلومات حاصل کر لی جاتیں‘ جو باچا خان کی برسی کے موقع پر ہونے والے تھے۔ یادگاری اجتماعات کی تفصیل آنے پر سرفہرست‘ باچا خان یونیورسٹی کا نام آنا تھا کیونکہ اس موقع پر باچاخان کی یاد میں‘ ایک محفل مشاعرہ بھی منعقد ہونا تھی۔ ضلعی انتظامیہ میں کوئی بھی ماہر افسر موجود ہوتا ‘ تو پشاور یا چارسدہ کا جائزہ لے کر ‘اس کی نظر باچا خان یونیورسٹی پر ضرور ٹھہرتی اور لازم ہوتا کہ وہ اس یونیورسٹی کے نام اور اس کے اندر ہونے والے مشاعرے پر ‘نشان لگا دیتا۔ سب سے اہم نشانہ دو وجوہ کی بنا پر باچاخان یونیورسٹی بنتی۔ اول یونیورسٹی کا نام اور دوسرے باچا خان کی یاد میں ہونے والا مشاعرہ۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ ضلع کے انتظامی امور کا تجربہ رکھنے والے کسی بھی افسر کی نظر باچاخان یونیورسٹی پر جا کر نہ ٹھہرتی۔ دہشت گردوں اور اے این پی کے درمیان دیرینہ کشمکش ہے۔ اس کی ایک تاریخ ہے۔ اے این پی جب تک ‘کے پی کے میں برسراقتدار رہی‘ اس نے دہشت گردی کی کوششوں کو متعدد بار ناکام بنایا اور دہشت گردوں نے بھی موقع ملتے ہی‘ اے این پی کے لیڈروں اور کارکنوں کی جانیں لیں۔ فطری امر تھا کہ باچا خان یونیورسٹی کے تحفظ کا بطور خاص انتظام کیا جاتا۔
اگر یہ انتظام ہو جاتا‘ تو کوئی وجہ نہ تھی کہ چاروں دہشت گرد‘ سکیورٹی پر مامور تجربہ کار افسروں کی گرفت میں نہ آتے۔انہیں پہلا خیال ‘ اے پی ایس میں ہونے والی دہشت گردی کے طریقہ واردات کا آتا۔ اس میں قابل ذکر ترکیب ‘عقبی دیوار کا استعمال تھا۔ یہ جانی بوجھی بات ہے کہ ہر پرانا تھانیدار‘ چوری یا ڈاکے کا واقعہ ہونے پر‘ سب سے پہلے طریقہ واردات کا جائزہ لیتا ہے۔ بیشتر مواقع پر وہ صحیح مجرم کو پہچان لیتا ہے۔ فرض کریں چارسدہ کے تھانیدار کو حکم جاتا کہ اسے اپنے علاقے میں ‘کسی بڑے تعلیمی ادارے کے تحفظ کا بندوبست کرنا ہے۔ وہاں پر دہشت گردوں کے حملے کا اندیشہ ہے۔ صبح کے وقت وہاں طلبا اور طالبات بھی موجود ہوں گے اور ایک خصوصی تقریب باچا خان کی یاد میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس میں جمع ہونے والوں کو بھی نشانے پر رکھا جانا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ طلباوطالبات اور مشاعرے کے حاضرین کے تحفظ کا خصوصی بندوبست کیا جائے۔جیسا عمران خان نے انکشاف کیا کہ انتظامیہ کو بہت پہلے رپورٹیں آچکی تھیں۔ دہشت گرد کسی تعلیمی ادارے کو ہدف بنائیں گے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر بیشتر سکول بند کر دیئے گئے تھے۔ اس پورے انتظام کے بعد ممکنہ اہداف نمایاں ہو کر سامنے آ جاتے اور فہم عامہ کے مطابق پشاور اور چارسدہ میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا نشانہ باچا خان یونیورسٹی ہوتی۔
ہمیں دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے، 15سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ مساجد‘ درگاہوں‘ سکولوں اور کالجوں کو‘ دہشت گرد بطور خاص نشانہ بناتے ہیں۔ پہلے سے جمع شدہ خفیہ معلومات کی روشنی میں ‘اگر ممکنہ اہداف کی نشاندہی کر کے‘ سکیورٹی کے تمام اداروں کے سربراہوں کی میٹنگ میں ‘ حفاظتی انتظامات پر غور کر لیا جاتا‘ تو خفیہ پولیس اور ریگولر پولیس‘ خفیہ ایجنسیوں کے تربیت یافتہ انسداددہشت گردی کے ماہرین‘ غرض یہ کہ دہشت گردی کے ہر امکانی اقدام پر فوری اور جوابی کارروائی کا جال بچھا دیا جاتا‘ تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ چار کے چار دہشت گرد‘ واردات سے پہلے ہی اپنے انجام کو نہ پہنچ جاتے۔ وہ یا تو گھیرے میں آنے کے بعد بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے اور نکل جانے کا راستہ نہ ملتا‘ تو خود کش بم چلا کر جہنم رسید ہو جاتے۔ اس کے دو نتیجے لازمی تھے۔ ایک یہ کہ بے گناہ طلباوطالبات اور اساتذہ محفوظ رہتے اور دوسرے واردات کے لئے آنے والے دہشت گردوں میں سے ایک بھی زندہ قابو آ جاتا‘ تو ان کے گروپ یا برانچ کے بارے میں کارآمد معلومات حاصل ہو سکتی تھیں۔ میں بچپن میں ہی‘ تحریک پاکستان کے زمانے میں‘ سرگرم تھا۔ جلسے جلوسوں میں شریک ہونے کے لئے سرگرم رہتا تھا۔ اعلان آزادی سے چند ہفتے پہلے ‘ہمارے شہر فریدکوٹ میں مسلمانوں نے اپنے تحفظ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آر ایس ایس مدتوں سے یہ کام کیا کرتی تھی۔ ہم مسلمانوں نے بھی ‘شہر سے دور کسی مقام پر جا کر‘ مزاحمت اور مدافعت کی تربیت لینا شروع کر دی تھی۔ میرے والد کو پولیس میں ہونے کی وجہ سے معلومات میسر تھیں۔ ابتدائی چند ہفتے‘ وہ ان تربیتی مشقوں میں نوجوانوں کو سکھاتے رہے۔ اسی دوران بااثر لوگوں کو خبر مل گئی کہ فریدکوٹ شہر میں فسادیوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ہندوئوں اور سکھوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو بخیروعافیت فریدکوٹ سے نکل کر‘ پاکستان پہنچنے کا موقع دیا جائے گا۔ جب یقینی ہو گیا تو میرے والد صاحب اپنے خاندان ‘یعنی ہمیں لے کر‘ بہاولنگر آ گئے اور تقسیم کے وقت بھی فرید کوٹ کے لوگوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور شہر کے تمام مسلمان بخیروعافیت پاکستان پہنچ گئے۔ پنجاب میں ہونے والا قتل عام‘ برصغیر کا بدترین المیہ تھا۔ لیکن اس میں بھی ایک شہر‘ فریدکوٹ ایسا تھا‘ جہاں خونخوار لٹیروں اور قاتلوں کو‘ غیرمسلم آبادی نے وارداتیں کرنے سے روکا۔ یہ مقامی آبادی ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ایک چھوٹی سی ریاست کی انتظامیہ نے ‘ فسادات کے طوفان میں اپنے شہر کی اقلیت کو محفوظ رکھ لیا۔ پورے برصغیر میں کئی شہر ایسے تھے‘ جہاں مقامی انتظامیہ نے بپھرے ہوئے لٹیروں اور قاتلوں کو جرائم کا ارتکاب نہیں کرنے دیا۔ آج بھی بھارت میں ‘آر ایس ایس ‘ شیوسینا اور کئی انتہاپسند ہندو تنظیمیں‘ دہشت گردی پر تلی رہتی ہیں۔ لیکن وہاں کی انتظامیہ بڑے پیمانے پر خونریزی نہیں ہونے دیتی۔ یاد رہے‘ دہشت گردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی اخلاقی نظام۔ بھارت میں عموماً ان کا ہدف صرف مسلمان یا عیسائی ہوتے ہیں۔ لیکن ہر جگہ کی مقامی انتظامیہ‘ اس طرح وحشیانہ قتل عام کرنے والوں کو مواقع نہیں دیتی‘ جیسے یہاں پر اسلام کا نام لینے والے‘ اہل اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہندوستان کی دہشت گرد تنظیموں اور پاکستانی دہشت گردوں کی‘ وارداتوں کے اعدادوشمار جمع کئے جائیں‘ تو آپ کو سوا ارب انسانوں کی آبادی میں‘ اتنے مقتول نہیں ملیں گے‘ جتنے کہ پاکستان میں ہوئے۔ میں بھارتی معاشرے کی خوبی کا نہیں بلکہ وہاں کی انتظامیہ کی عمدہ تربیت کا حوالہ دے رہا ہوں۔ گزشتہ 68سال کے دوران ‘متعصب اور متشدد ہندو تنظیمیں بھی وجود میں آئیں اور ان کے اثرات وہاں کی بیوروکریسی پر بھی پڑے۔ مگر آج بھی بھارت میں انتظامی امور پر مامور بیوروکریسی‘ خونریزی پر اترے ہوئے جنونیوں کو روکنے میں بڑی حد تک کامیاب رہتی ہے۔ جبکہ ہماری انتظامیہ میں‘ شاذونادر ہی ایسے انتظامی مہارت رکھنے والے افسر ملیں گے‘ جتنے کہ بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اقلیتوں کی تعداد برائے نام ہے۔ جبکہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت‘ اقلیتیں بہت بڑی تعداد میں رہتی ہیں۔ تناسب کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو ہمارے ہاں اقلیتوں کی حالت زیادہ بری ہے۔ خصوصاً سندھ میں۔ آج لکھتے لکھتے میرا موضوع ضلع‘ تحصیل اور کمشنری کے انتظامی امور چلانے والے تربیت یافتہ افسروں کی کارکردگی بن گیا۔ ادارے آج بھی موجود ہیں۔ لیکن تربیت دینے والے موجود نہیں اور نہ ہی کسی حکمران جماعت یا فرد نے‘ اس طرف توجہ دی ہے۔اچھی انتظامی مشینری موجود ہو‘ تو دہشت گرد جتنا نقصان ہمیں اس وقت پہنچا رہے ہیں‘ اس کا 10فیصد بھی نہیں پہنچا پائیں گے۔بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اور بیوروکریسی میں باہمی اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اس کے باوجود پشاور اور چارسدہ کے عوام نے آگے بڑھ کر ‘ نہتے طلبا و طالبات کو تحفظ دیا۔ صرف پولیس کو ہی اچھی تربیت
اور اچھی تنخواہیں دے دی جائیں اورضلعی انتظامیہ تربیت یافتہ اور فرض شناس ہو جائے‘ تو کہاں کے دہشت گرد؟ اور کہاں کے قانون شکن؟ یہی افغان اور قبائلی تھے جنہیں‘ آپ میں سے کچھ لوگوں نے پرامن زندگی گزارتے دیکھا ہو گا۔ اگر انتظامی امور چلانے والی بیوروکریسی‘ پولیس اور پٹواری کی پیشہ ورانہ اہلیت کے مطابق‘ کام لینے والے افسران موجود ہوں‘ تو کرپشن میں ڈوبے سیاستدانوں کی حکومتیں بھی‘ صحیح کام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ کرپشن اور لاقانونیت اسی وقت پروان چڑھتے ہیں‘ جب بیوروکریسی سیاسی حکمرانوں کی نجی خدمت گار بن جائے۔ بات کہاں سے شروع ہوئی؟ اور کہاںپہنچ گئی؟ لیکن اس کے اندر جو خیال اور تسلسل موجود ہے‘ غور سے دیکھنے پر دکھائی دے جائے گا۔