تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-01-2016

بزنس ٹھیک… مگر سلطنت؟

برطانیہ میں مقیم پاکستانی وکلا، کچھ فلسطینی اور مصری وکیل میزبان تھے۔ مجھے اولڈ بیلی عدالتی کمپلیکس میں لنچ پر بلایا گیا تھا۔ اولڈ بیلی فوجداری مقدمات کے ٹرائل کے لیے مشہور ہے۔ لکڑی کے پھٹوں جیسے بھاری بھرکم ٹیبل پر باوردی آلو (Jacketed Potato) مین کورس یعنی بڑا کھانا تھا۔ ساتھ فروٹ پیسٹری نما ''مِنی‘‘ سویٹ ڈش۔
میزبانوں کا پروگرام یہ تھا کہ ہائی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں مقدمے کی سماعت سنی جائے‘ جس کے لیے ٹائم فِکس کیا گیا تھا۔ ایک ہائی رائز مگر چھوٹی سی عمارت میں پہنچے تو لفٹ والا ہمیں اوپری منزل پر لے گیا‘ جہاں عدالتی کمرے میں ایک لیڈی CA (کورٹ اسسٹنٹ) بیٹھی تھی۔ انگلستانی ہائی کورٹ کے تین جج حضرات اندر آئے تو خاتون نے کہا: All Rise (سب کھڑے ہو جائیں)۔ جج ایک دوسرے سے کئی فٹ کے فاصلے پر علیحدہ علیحدہ پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے‘ نہ آپس میں بات کی‘ نہ ریمارکس دیے‘ نہ ٹی وی کے لیے ''ٹِکر‘‘ بنائے، نہ کانا پھوسی نما مشورے کیے‘ نہ کسی وکیل سے جھگڑا ہوا، نہ ہی کسی سائل کی بے عزتی کی گئی۔ عدالت میں نہ کوئی کلغی والا چپڑاسی موجود تھا‘ نہ جج کی عینک اور پنسل لانے والا ہرکارہ۔ سماعت مکمل ہونے پر تینوں فاضل جج خود اٹھے اور اندر چلے گئے۔ واپس آ کر تینوں نے علیحدہ علیحدہ فیصلہ سنایا۔ دو نے ہاں کہی‘ تیسرے فاضل جج نے نہ کر دی۔ کورٹ اسسٹنٹ کی پھر آواز آئی: ''آل رائز‘‘ اور کمرہِ عدالت خالی ہو گیا۔
یورپ سے امریکہ تک اور افریقہ سے لے کر ہندوستان تک عدالتی کمپلیکس نئے زمانے کے سی کلاس کمرشل سینٹر جیسے ہیں۔ سیدھی کھڑی چھوٹے پلاٹ پر بنائی گئی ہائی رائز بلڈنگ۔ مجھے امریکہ اور یورپ کے علاوہ نئی دہلی، پنجاب، ہریانہ بلکہ اجمیر شریف، خورشیترہ کی کچہری بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دوسری جانب ہمارے عدالتی کمپلیکس ہیں۔ سب سے چھوٹا کمپلیکس سپریم کورٹ کی شاہراہ دستور پر واقع مرکزی عمارت ہے۔ انگریز دور میں بنائے گئے ہائی کورٹس میں کورٹ روم کی شان و شوکت عدالت کے انصاف اور وکالت کی معاونت سے زیادہ پُرشکوہ اور ''قابلِ دید‘‘ ہے۔ لاہوریے اسے ''شبھ شبھا‘‘ کہتے ہیں‘ جس کا عوامی مطلب ہے جھوٹی آن بان، ٹرن آؤٹ یا دکھاوا۔
پشاور، چارسدہ، اسلام آباد کچہری سمیت پاکستان میں قانون شکنی کے بڑے دل خراش واقعات ہوئے‘ جن کے بعد امید تھی ٹاؤن پلانر، ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ہاؤسنگ، فزیکل پلاننگ جیسے ادارے آنکھیں کھولیں گے‘ لیکن لگتا ہے ان اداروں میں بیٹھے لوگ، سرکاری عہدوں کو کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں‘ جبکہ شہریوں خاص طور پر بچوں، طلبہ و طالبات کی سکیورٹی اللہ کے حوالے ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ یا تو ان اداروں کو ختم کر دیا جائے‘ یا پھر ان میں سیاسی سفارش سے بھرتی ہونے والے نااہل گروہوں کے خلاف آپریشن کلین اپ ہو۔
المیہ یہ ہے جونہی کوئی بڑا پروجیکٹ شروع ہوتا ہے سرکاری محکمے اور نام نہاد لیڈر ''سستی زمین‘‘ کی خریداری کر کے پروجیکٹ کو شہر سے گھسیٹ کر ویرانے میں لے جاتے ہیں۔ اس کا سنگین ترین نتیجہ یہ ہے کہ ویرانے میں شہر سے ہٹ کر اور کَٹ کر فول پروف تو کیا‘ مناسب سکیورٹی کا بندوبست بھی نہیں ہوتا۔ ہر علاقے میں تعلیمی ادارہ ضروری ہے، ہسپتال اور عدالت بھی‘ لیکن سوال یہ ہے اسے کس جگہ بنایا جائے؟
حکمران اشرافیہ میگا کِک بیک کی وجہ سے میگا پروجیکٹ پسند کرتی ہے۔ ٹھیکیدار مافیا بلکہ سرکاری اور ٹھیکیداری گٹھ جوڑ بھی میگا کرپشن کی وجہ سے میگا ٹھیکے پسند کرتے ہیں۔ اس لیے جو عمارت ایک دو کنال پر بن سکتی ہے‘ اس کے لیے ایکڑوں زمین کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر قومی خزانے اور عوام کو کروڑوں کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔
میں اپنی وزارتِ قانون کے زمانے کا تجربہ قوم سے شیئر کرتا ہوں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ مجریہ 2010ء کے بعد جان توڑ کوشش کرکے وفاقی ہائی کورٹ کے ماتحت سپیشل قوانین کے تحت ایک مہینے کے اندر 21 عدالتوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پھر میں نے بیوروکریسی، اسلام آباد کی انتظامیہ، سی ڈی اے کے مزاج کے خلاف ہائی کورٹ سے دو فرلانگ دور چھوٹی سی جگہ پر جوڈیشل کمپلیکس بنایا۔ یہ پاکستان کا سب سے چھوٹا جوڈیشل کمپلیکس ہے‘ جس میں سب سے زیادہ عدالتیں بیٹھتی ہیں۔ اسی کمپلیکس میں اسلام آباد بار کونسل کا دفتر ہے۔ اسی میں پہلی بار دو مختلف فلور پر وکلا کے بار روم بنے۔ کم خرچ بالا نشیں۔ اب وقت آ گیا کہ ہمارے حکمران نئے دور میں نئے چیلنجز کا سامنا کریں۔ اگر کبھی ان کا دل ذاتی کاروبار اور ڈالروں کے انبار سے بھر جائے تو وہ سلطنت اور رعایا کی حفاظت پر بھی نظر ڈالیں۔ چیلنج دیوار پر لکھے ہیں۔ حکمران قلعہ بند ہیں‘ وہ بھی سرکاری خرچ پر۔ سرکاری خرچ سے یاد آیا‘ چیئرمین سینٹ نے سابق سیاسی چیف جسٹس کے بارے میں کہا تھا کہ حکومت بتائے اِسے بلٹ پروف گاڑی مع گارڈ کس قانون کے تحت دیے؟ رضا ربانی صاحب نے درست سوال اٹھایا۔ آئیے چیلنجز کا نوشتہء دیوار پڑھیں۔
1: وفاق اور صوبائی حکومتیں تعلیمی اداروں کو محفوظ علاقوں تک محدود کریں۔ اگر کالجوں‘ یونیورسٹیوں کی بلڈنگ ہائی رائز ہو تو اسے انتہائی محدود خرچ پر فول پروف سکیورٹی دی جا سکتی ہے۔
2: پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی دم اوپر اور سر نیچے ہے۔ غیر ملکی سیاح آنا بند۔ بڑے پل، لمبی جنگلہ بس پاکستان کی ضرورت نمبر ایک ہے‘ نہ ضرورت نمبر10۔ روٹی اور سکیورٹی پر توجہ دی جائے۔
3: دارالحکومت سمیت ملک بھر میں Safe City منصوبے کا کیا ہوا؟ حکمران تین سال بعد تو جواب دیں۔
مغرب سے پاکستان تک فوج، ایکشن اور آپریشن کلین اپ کے ذریعے ریاست کی رِٹ بحال کرتی ہے۔ تخریب سے متاثرہ علاقے میں تعمیرِ نو سیاسی حکومت کی ذمہ داری۔ وہی حکومت جس کا صدر، وزیر اعظم، وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر خارجہ و داخلہ، وزیرِ منصوبہ بندی اور ریلوے، وزیر سرحدی امور اور دفاعی پیدوار فاٹا جانا تو چھوڑیے،کارخانو مارکیٹ اور ریگی للمہ تک جانے سے ڈرتے ہیں۔ 9/11 کے بعد ساری دنیا میں سکیورٹی کوڈ بنائے گئے‘ ادارے تشکیل دیے گئے۔ ہمیں عالمی ثالث اور ایشین ٹائیگر بننے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ صبح جس بچے کا منہ دھو کر ماں اسے ماتھے پر بوسہ دیتی ہے‘ پھر محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ کے فرمان کے مطابق علم حاصل کرنے بھیجتی ہے‘ شام کو اس کے ماتھے پر بوسے کی جگہ گولی کا نشان‘ اور چہرے پر ممتا بھرے ہاتھوں کی بجائے خون کے فوارے دیکھ کر بھی بزنس پرست بے رحم حکمران، ریاست کی حفاظت کو ترجیح سمجھتے ہیں نہ ذاتی مسئلہ۔
موجودہ پلاننگ کمیشن قوم کو بتائے‘ کیا سارا پاکستان جی ٹی روڈ پر بستا ہے۔ چکری انٹرچینج سے راؤنڈ انٹرچینج تک۔ اگر ایسا نہیں تو جنگ میں فاٹا، کے پی کے متاثرہ علاقوں کو ریلیف کب ملے گا۔ جس واردات میں بھارت کے ملوث ہونے کا ثبوت سامنے ہو، اس کے فوراً بعد پوری کابینہ ٹی وی سکرینوں سے بھاگ جاتی ہے‘ جبکہ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس پنجابی بڑھک کو اردو میں ترجمہ کر کے بار بار ایک ہی بیان چلا رہے ہیں۔
وارث شاہ نے ''لاوارث‘‘ کے بارے میں جو شعر کہا، بے پروا بادشاہوں کے شاہی رویے سے ظاہر ہوا‘ وہ ریاست ہے کون سی۔ یہ بھی دیوار پر لکھا ہے‘ آپ خود پڑھ لیں۔
بزنس ٹھیک... مگر سلطنت؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved