برادرم آغا امیر حسین کی بھیجی ہوئی کنہیالال کپور کی کتاب ''نوکِ نشتر‘‘ کا مختصر ذکر پہلے کر چُکا ہوں۔ اب اسے پڑھا ہے تو اس لُطف میں آپ کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں‘ لیکن اس سے پہلے دو واقعات بھی سُن لیجیے۔ ایک تو یہ کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں جب فسٹ ایئر میں داخلہ لینے کے لیے آئے تو اس وقت پطرس بخاری پرنسپل تھے۔ کپور اسی دن شیروانی اور چُست پاجامہ پہن کر آئے۔ جب انٹرویو کے لیے اندر بلایا گیا تو انہیں دیکھ کر پرنسپل بولے‘''کپور صاحب! آپ واقعی اتنے لمبے ہیں یا آج کوئی خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘
دوسرے یہ کہ ایک دوست کو خط میں لکھا کہ آپ سے شرمندہ ہوں کہ خط کا جواب جلدی نہیں دے سکا۔ دراصل پٹنہ میں میری ساس مر گئی تھی‘ وہاں گیا ہوا تھا‘ آپ جانتے ہیں کہ ساسیں کم بخت کوئی روز تو نہیں مرتیں!
کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
...اس سے اگلی کتاب چھ سال کے بعد لکھنے کا ارادہ ہے‘ بشرطیکہ آپ زندہ رہے اور میرا دماغی توازن قائم رہا۔
ایک مشاعرے کی صدارت کے لیے ایک دوست کے ہمراہ جا رہے ہیں کہ راستے میں ایک شاعرہ مس شمن بھی ساتھ ہو لیں‘ بولیں آپ نے ''شمن پٹاری‘‘ دیکھی؟ میں نے کہا‘ نہیں‘ پھر کہا ''شمن کیاری‘‘ ؟۔ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ پھر بولیں ''شمن چنگاری‘‘؟ میں نے کہا نہیں‘ پھر بولیں‘ خیر کوئی بات نہیں۔ میرے پاس تینوں موجود ہیں۔ یہ کہتے ہی انہوں نے جھٹ اپنے بیگ میں سے ہندی کی تین چھوٹی چھوٹی کتابیں نکالیں اور کہا‘ کویتا سُنیں گے؟ میں نے مجبوراً اثبات میں سر ہلایا‘ بولیں‘ یہ ایک کویتا ہے جو میں نے اکیس برس کی عمر میں لکھی تھی۔ پہلا بند ہے :
شوں شوں کرتی... شاں شاں کرتی
بھک بھک کرتی... شک شک کرتی
چلی جا رہی ہے... اک گاڑی
کھرڑ کھرڑ کھڑ... گھرڑ گھرڑ گھڑ
گھڑ گھڑ کرتی... بھرڑ بھرڑ بھڑ
بھرڑ بھرڑ بھڑ... بھڑ بھڑ کرتی
چلی جا رہی ہے... اک گاڑی
شک شوں شک شوں... شک شوں کرتی
چھپ چھوں چھپ چھوں... چھپ چھوں کرتی
ٹپ ٹوں ٹپ ٹوں... ٹپ ٹوں کرتی
چلی جا رہی ہے... اک گاڑی
بولیں کہ اس کویتا کے اکیس بند تھے کیونکہ انہوں نے یہ نظم اکیس برس کی عمر میں لکھی تھی۔ پھر کہا۔ اچھا اب سُنیئے کوئل اور کوّا...
ایک تھا کوّا، ایک تھی کوئل
کوئل کُوکی کُو کُو کُو کُو
کوّا بولا کائیں کائیں
کوئل اب کے کُچھ نہ بولی
کوّا بولا کوئل پیاری
گھر کر آئی بدریا کاری
آئو چلو جمنا تٹ جائیں
ناچیں کُودیں شور مچائیں
کوئل کُوکی کُو کُو کُو کُو
کوّا بولا کائیں کائیں
میں نے ان دونوں کو ڈانٹا
کیا کرتے ہو‘ ہائیں ہائیں
اگلے مضمون میں کہتے ہیں‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لنگور بدصورت جانور ہے۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ میں نے ہزاروں ایسے انسان دیکھے ہیں جو لنگور سے بھی بدصورت تھے۔
اب شعراء و ادباء کا تذکرہ دیکھیے:
عبدالمجید بھٹی : نہایت بلند پایہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں تغزل کے علاوہ سبھی کُچھ ہوتا تھا۔ بقول سالک اُردو زبان کو آج سے دو سو سال پیچھے لے جانا آپ کا سب سے بڑا معجزہ تھا۔ ان کے کلام بلاغت نظام پر حفیظ جالندھری نے پیش لفظ لکھا جو آپ کے کلام کی ضخامت سے کم از کم لگتا ہے۔
نمونہ ٔ کلام : آپ کا کلام پڑھنے کی بجائے کوئی الجبرا کی کتاب پڑھ لیجیے۔
ساحر لدھیانوی : پُورا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ آیا تخلص کرتے تھے یا سحر۔ اس کے متعلق بھی بیشتر کو شک ہے۔ کلام پڑھتے وقت زبان کی بجائے ناک سے زیادہ کام لیتے تھے۔ چہرے پر چیچک کے داغوں کے علاوہ خستہ حالی کے متعدد نشان تھے۔ کوٹ اُتار دیتے تو یوں معلوم ہوتا جیسے ابھی ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔
فکر تونسوی : تونسہ شریف کے رہنے والے تھے‘ لیکن شکل و شباہت سے معلوم ہوتا تھا کہ عدم آباد کے رہنے والے ہیں۔ فسادات لاہور میں کوشش کے باوجود شہید نہ ہو سکے۔ ہندوئوں نے آپ کو ہندو اور مسلمانوں نے مسلمان سمجھا۔
سعادت حسن منٹو : جوان تو شاید کسی عمر میں بھی نہ تھے لیکن توبہ توڑتے وقت چہرے پر عجیب قسم کی رونق ضرور دیکھی جاتی۔ تمام عمر ایک ناول لکھنے کا عزم کرتے رہے جس کا صرف ٹائٹل آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد چھپ سکا۔
احتشام حسین : نقاد تھے یا ہو سکتے تھے۔ خشک ترین تنقید لکھنے میں اپنی نظیر آپ تھے۔ رنگینی سے اس قدر نفرت تھی کہ اگر اتفاق سے ایک آدھ خوبصورت فقرہ لکھ جاتے تو اسے فوراً کاٹ دیتے۔
کنہیالال کپور : طنزنگار تھے یا کم از کم سمجھتے تھے کہ طنزنگار ہیں۔ پاکستان سے بھاگنے کے بعد فیروز پور کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں پناہ لی اور آخری عمر میں مسلمان ہونے پر اظہار تاسف کرتے رہے۔ عالم شباب میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ قبر میں سے دو چار دفعہ اُٹھنے کی سعی کی لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مقبرہ موگا میں بنا۔ لوح تربت پر یہ شعر کندہ ہے ؎
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تُجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
آج کا مقطع
جس میں کہیں کسی کی رہائش نہیں، ظفرؔ
کب سے اس گلی میں صدا کر رہا ہوں میں