تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     23-01-2016

ایران پر پابندیوں کا خاتمہ:علاقائی مضمرات

گزشتہ برس جولائی میں ایران اور امریکہ سمیت پانچ دیگر مغربی ممالک کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت اس سال 17جنوری سے ایران پر عائد پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ ایران پر یہ اقتصادی پابندیاں اقوام متحدہ‘ یورپی یونین اور امریکہ نے عائد کی تھیں۔ ان پابندیوں کا سبب ایران کا جوہری پروگرام تھا جس کے بارے میں مغربی طاقتوں کو شک تھا کہ ایران اُسے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تقریباً تین برسوں پر محیط مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد بالآخر گزشتہ جولائی میں ایران نے مغربی ممالک کی طرف سے تین اہم شرائط تسلیم کر کے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ ان شرائط میں یورینیم کی افزودگی کی شرح کو اس حد تک نیچے لانا کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال نہ ہو سکے‘ افزودہ یورنیم کو ایران سے باہر کسی اور ملک کے حوالے کرنا‘ سنٹری فیوجز کی تعداد ایک تہائی تک کم کرنا اور اراک کے بھاری پانی کے پلوٹونیم ایٹمی پلانٹ کی بندش شامل تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی طرف سے تصدیق کے بعد کہ ایران نے ان تمام شرائط کو پورا کیا ہے‘ مغربی ممالک نے ایران پر سے پابندیاں اُٹھانے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد ایران کے تقریباً 100بلین ڈالر کے اثاثے بحال ہو جائیں گے ۔ ایران بین الاقوامی منڈی میں اپنا تیل جہاں چاہے‘ جتنا چاہے بیچ سکتا ہے‘ ایرانی اہلکاروں اور شہریوں پر بیرون سفر پرپابندی نہیں ہو گی‘ ایران اور بیرونی دُنیا کے درمیان تجارتی روابط بحال ہو جائیں گے ، باہر سے ایران میں سرمایہ کاری ہو سکے گی۔ اس طرح اب ایران بین الاقوامی معاشی نظام کا ایک آزاد اور فعال رُکن بن جائے گا۔ عالمی سطح پر اب یہ بحث زور و شور سے جاری ہے کہ ایران پر سے پابندیاں اُٹھنے کا مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں پر کیا اثر پڑے گا‘ خود ایران پر اِس کا کیا اثر ہو گا اور ایران اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کی آئندہ سمت اور نوعیت کیا ہو گی؟
یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ ایران اس وقت تیل کے ذخائر کے اعتبار سے دُنیا کا چوتھا اور گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل شاہ ایران کے زمانے میں ایران ‘ سعودی عرب کے بعد تیل برآمد کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر تھا، اس لیے پابندیاں اُٹھائے جانے کے بعد ایرانی تیل کی برآمد میں اضافہ ناگزیر ہے۔ فوری طور پر ایران نے تیل کی برآمد میں روزانہ 5لاکھ بیرل یومیہ کے اضافے کا اعلان کر دیا ہے، اس لیے تیل کی عالمی منڈی جہاں پہلے ہی تیل کی قیمت ریکارڈ حد تک کم ہو چکی ہے، ایران کے تیل کی برآمد سے اس کے نرخ اور بھی کم ہو جائیں گے۔
اثاثے بحال اور تیل اور گیس کی برآمد سے ایران کی معیشت جو اس وقت افراط زر اور بے روزگاری کا شکار ہے مستحکم ہو گی۔ وہ ممالک جو ایران ‘ امریکہ جوہری معاہدے کے مخالف تھے اور ایران پر عائد پابندیوں کو قائم رکھنا چاہتے تھے‘ مثلاً اسرائیل اور خلیج فارس کے عرب ممالک کو ڈر ہے کہ اقتصادی پابندیوں سے آزاد اور منجمد اثاثوں کی بازیابی کے بعد نئی دولت سے مالا مال ایران اپنے وسائل کو خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ کو مزید وسعت دینے پر صرف کرے گا۔ عراق میں شیعہ اکثریت کی حکومت اور شام کے صدر بشار الاسد کو ایران کی طرف سے ہتھیار اور رضا کاروں کی سپلائی کو اس سلسلے میں بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ ان دونوں ممالک میں پہلے سے موجود ایرانی اثرو رسوخ کو سعودی عرب اور خلیج فارس کے عرب ممالک تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ پابندیاں اُٹھائے جانے کے بعد نہ صرف ان ملکوں بلکہ جزیرہ نما عرب کے دیگر حصوں جہاں شیعہ آباد ہیں‘ ایران اپنے اثرورسوخ کو مزید پھیلانے کی کوشش کرے گا۔ سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا ایک حالیہ بیان کہ ایران نے دوسرے ممالک میں بقول ان کے مداخلت بند نہ کی تو سعودی عرب مزید اقدامات کرے گا، خصوصی طور پر قابل غور ہے۔ اگرچہ شہزادہ محمد کا یہ بیان2جنوری کو شیخ النمرکاسر قلم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی ایران‘ عرب کشیدگی کے سیاق و سباق میں دیا گیا ہے ‘ تاہم شہزادہ محمد کا واضح اشارہ عراق اور شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف ہے۔ اس لیے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ایران اور اس کے ہمسایہ سُنی عرب ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس رائے کے حامی موجودہ صورتحال کے دو اہم پہلوئوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ ایک یہ کہ ایران نے انتہائی اشتعال انگیزی کے باوجود گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ کے دوران میں کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور نہ کسی کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، اس لیے آئندہ بھی ایرا ن سے کسی مہم جوئی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے پابندیوں کی وجہ سے ایران نے معاشی طور پر بہت نقصان اٹھایا ہے۔ سب سے زیادہ سنگین مسائل افراط زر اور بے روزگاری ہیں۔ ایرانی عوام کو اُمید ہے کہ پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ایران میں معاشی ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ صدر حسن روحانی نے بھی ایرانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ منجمد اثاثوں کی بحالی اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ سے حاصل ہونے والی رقوم کو ایران میں معاشی ترقی اور عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے پر خرچ کیا جائے گا۔ اغلب امکان یہی ہے کہ ایران اب اپنی تمام تر توجہ معاشی ترقی پر صرف کرے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ موجود کشیدگی اور اس سے پہلے عراق اور شام کے بحرانوں کے دوران ایران نے جو محتاط رویہ اختیار کیا ، اس بات کی دلیل ہے کہ پابندیاں اُٹھائے جانے کے بعد وہ علاقائی حکمت عملی میں مزید احتیاط کا مظاہرہ کرے گا۔
جہاں تک ایران اور امریکہ کے تعلقات کا سوال ہے‘ اس ضمن میں کسی بڑی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان متعدد اُمور پر بدستور اختلافات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایران پر سے ان پابندیوں کو ختم کیا گیا ہے جو اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عائد کی گئی تھیں۔ اب بھی کئی پابندیاں بدستور عائد ہیں اور ان کا تعلق''دہشت گردی‘‘ اور ''انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ‘‘سے ہے۔ امریکہ ابھی تک ایران کے ساتھ اپنے سفارتی اور پورے تجارتی تعلقات بحال نہیں کر رہا ہے۔ البتہ ایران کو ہوائی جہازوں اور ان کے پرزوں کی فروخت سے پابندی اٹھا نے کے علاوہ ایران سے کھانے پینے کی اشیا اور ہاتھ سے بُنے ہوئے قالین درآمد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ لیکن اب بھی متعدد تجارتی پابندیاں قائم ہیں اور نئی پابندیاں بھی لگائی جا رہی ہیں۔ مثلاً حال ہی میں امریکہ نے ایران بیلسٹک میزائل پروگرام میں امداد فراہم کرنے پر پانچ ایرانی کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس لیے امریکہ اور ایران کے اقتصادی ‘ سیاسی اور سفارتی تعلقات کو معمول پر آنے میں کچھ وقت لگے گا؛ تاہم امریکہ کی تیل اور جہاز ساز صنعتوں کو یقیناً فائدہ پہنچے گا۔
امریکہ کے مقابلے میں یورپی صنعتوں کو زیادہ فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔ اس لیے یورپ کی تیل کمپنیوں‘ کاریں اور جہاز تیار کرنے والی صنعتوں کے درمیان ایران کے ساتھ کاروبار دوبارہ شروع کرنے کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔''ٹوٹل‘‘ اور ''شیل‘‘ کے چیف ایگزیکٹو تو پابندیاں اٹھانے کے اعلان سے پہلے ہی تہران میں بیٹھے تھے۔''ایئر بس‘‘ مسافر بردار ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی نے ایران کو جہاز بیچنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں کیونکہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں اسے اپنے تمام پرانے جہاز تبدیل کرنے کے لیے 400بڑے مسافر بردار جہاز خریدنے پڑیں گے۔ ''ایر بس‘‘ اور ''بوئنگ‘‘اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ایران سے تجارت اور کاروبار کے رشتے استوار کرنے میں امریکہ کے مقابلے میں یورپ زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہا ہے اور بنکنگ‘ انشورنس‘ توانائی ‘ ٹرانسپورٹیشن ‘ شپنگ کے شعبوں میں پابندیوں کو تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے برعکس یورپ کے ساتھ نہ صرف فوری بلکہ وسیع کاروبار کے آغاز کی ایک سیاسی وجہ بھی ہے۔ ایران بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں یورپ کے لیے عوامی سطح پر زیادہ خیر سگالی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں یورپی رویہ نرم اور لچکدار تھا‘ بلکہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں کے بہیمانہ قتل پر بھی یورپی ممالک نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ امریکہ کے مقابلے یورپی ممالک کی مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں پالیسی صہیونی اثر سے نسبتاً آزاد ہے، اس لیے نہ صرف ایرانی حکومت بلکہ ایرانی عوام کی طرف سے یورپی ممالک کے ساتھ پرانے کاروباری اور تجارتی روابط کی بحالی کا خیر مقد کیا جائے گا۔
یورپ کے بعد ایرانی پابندیوں کے خاتمہ کا سب سے زیادہ فائدہ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان اور بھارت کو ہو گا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ دُور ہو جائے گی۔ بھارت کے لیے ایران تیل کی سپلائی کا اہم ملک ہے، پابندیاں ختم ہونے کے بعد بھارت ایران سے مزید تیل خرید سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved