تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-01-2016

کس کس کا شکار؟

آخر کار تلور ہار گئے اور عرب جیت گئے۔یہ ایک بہت ہی بے ضرر سا پرندہ ہے۔ سائبیریا کے برفانی موسم میں جب شدت آتی ہے‘ تو ٹھنڈک اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ یہ اس کی ہجرت کا موسم ہوتا ہے۔ طویل فاصلے طے کر کے‘ یہ میدانوں اور صحرائوں کا رخ کرتا ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال ہمارے عرب بھائی‘ اس کی تلاش میں پاکستان کے صحرائی مقامات کی طرف آتے ہیں۔ سابق ریاست بہاولپور میں تھل کا بہت بڑا علاقہ خالی پڑا ہے جہاں پر یہ مسافر پرندے ‘ اپنے پسندیدہ موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مالدار عرب سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے‘ رحیم یار خان کے علاقے میں آتے ہیں۔ یہ خطہ ان کی شکارگاہ ہے۔ یہاں انہوں نے اپنے قیام و طعام کے لئے تعمیرات بھی کر رکھی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ خیمے بھی لاتے ہیں اور آرام دہ محلات بھی بنا رکھے ہیں‘ اور اپنی قیمتی گاڑیوں کے لئے گیراج بھی تعمیر کئے ہیں۔ انہوںنے مقامی لوگوں کو ملازمتیں دے رکھی ہیں‘ جو ان کے گھروں اور جیپوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرتے ہیں۔ادھر برفانی موسم سے بچ کر تلور آئے ہوتے ہیں اور ادھر سے عرب حضرات اپنے لائولشکر سمیت پہنچ جاتے ہیں۔ جب سے تلور کے شکار پر پابندی لگی‘ بادشاہوں نے مقامی لوگوں کو پیش کش کی کہ اگر وہ شکار پر پابندی ختم کرا دیں‘ تو انہیں امارات اور سعودی عرب میں ملازمتیں دی جائیں گی۔ ظاہر ہے‘ ان لوگوں نے تلور کے شکار سے پابندی اٹھانے کے مطالبات شروع کر دیے۔ پہلے اخبارات میں مہم چلائی گئی اور اس کے بعد عدالت عظمیٰ میں اس پابندی کے خلاف مقدمہ بازی شروع ہو گئی۔ نوکریوں کے امیدوار ‘ جلوس نکالنے لگے۔ ان جلوسوںکے مناظر ٹیلیویژن کے خبرناموں میں آنے لگے۔ مقامی امراء بھی جلوسوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کیونکہ انہیں اپنے معزز اور دولت مند مہمانوں کی ''میزبانی‘‘ مطلوب تھی‘ جس کے ذریعے وہ شاہی خاندانوں سے تعلقات بناتے۔ غرض غریب امیر ہر کسی کی دلچسپی تلور کے شکار میں تھی۔ پہلے ضلعی انتظامیہ نے ایک فرد پر چند پرندوں کے شکار کی پابندی لگا رکھی تھی۔ بادشاہوں سے پابندی کون کراتا؟ وہ دو اڑھائی سو کے قریب تلور شکار کر کے لے جاتے۔ مگر شاہی شکاریوں کی دلچسپی بہت تھی۔ شکار کم ہونے لگا‘ تو وہ خود پرندے لا کر چھوڑنے لگے۔ شکار کا سلسلہ پابندی کے باوجود جاری رہا کیونکہ وہاں پابندی پر عملدرآمد کون کراتا؟ بہتر ہوا کہ عدالت نے یہ پابندی ختم کر دی۔ اب رحیم یار خان اور بلوچستان میں دوبارہ شکاریوں کی آمد شروع ہو جائے گی اور مقامی لوگوں کو گزراوقات کے لئے اچھی خاصی آمدنی ہونے لگے گی۔ 
ان پرندوں کے ساتھ ‘ درندوں نے بھی شکار کرنا شروع کر دیا۔ انہیں کچھ لوگ مجاہدین کہتے ہیںجبکہ مظلوم اور قانون پسند شہری ‘انہیں قاتل اور درندہ قرار دیتے ہیں۔ ان قاتلوں کا شکار‘ خیبر پختونخوا میں بطور خاص پایا جاتا ہے۔ شکار سے مراد وہ طلبہ اور طالبات ہیں‘ جو علم حاصل کرنے گھروں سے نکلتے ہیں۔ درندوں نے پہلے دیہی علاقوں کے سکولوں کو نشانہ بنایا۔ سب سے پہلے لڑکیوں کے سکول بند کرا کے ان کی عمارتیں کھنڈرات میں بدل دیں۔ ملالہ یوسفزئی کا واقعہ تو عالمی نوعیت کی کہانی بن گیا۔ اس بچی نے فرضی نام سے بی بی سی میں‘ کے پی کے کی بچیوں کی حالت زار پر ڈسپیچ لکھے‘ جو فرضی نام سے شائع ہوتے۔ ان معصوم تحریروں نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ نا م نہاد طالبان کے خلاف نفرت پھیلی‘ جس سے پریشان ہو کر ان کے سرپرستوں نے تلاش شروع کی کہ یہ کون گھر کا بھیدی ہے؟ جو ان کے راز افشا کر رہا ہے۔ ملالہ نے خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح آٹھ سال سے اوپر کی چھوٹی چھوٹی اور معصوم بچیوں کو زبردستی چادر میں لپیٹنے کا حکم دیا جاتا اور کہا جاتا اگر وہ پورے جسم کے پردے کے بغیر نظر آئیں‘ تو انہیں مارا پیٹا جائے گا۔ ایسا اکثر ہوا بھی کرتا۔لڑکیوں کے سکولوں میں یہ درندے گھستے اور انہیں ڈرا دھمکا کر نکال دیتے۔ اس کے ساتھ ہی دھمکیاں بھی دی جاتیں کہ اگر علاقے کے کسی سکول میں لڑکیوں کو آتے جاتے دیکھا گیا تو ان پر بدترین تشدد کیا جائے گا۔سکولوں کی استانیوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میںلڑکیوں کے سکول بند ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ آج بھی لڑکیوں کے ان گنت سکول منہدم پڑے ہیں۔ کچھ باحوصلہ استانیاں اور بچیاں اپنے سکولوں کے کھنڈرات پر بیٹھ کر تعلیم و تدریس کا اہتمام کرتی ہیں۔
دہشت گرد ملالہ یوسفزئی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کا گھر اور سکول دیکھ لیا۔ 9اکتوبر2012ء کو وہ اپنی ساتھی طالبات کے ساتھ ویگن میں جا رہی تھی کہ دہشت گردوں نے بندوقوں کے زور پر‘ ویگن کو روک لیا اور لڑکیوں کو خوفزدہ کر کے پوچھا کہ تم میں سے ملالہ کون ہے؟ کچھ مولویوں نے اعلان کر دیا تھا کہ جس کسی نے بھی ملالہ یوسفزئی اور اس کے والد‘ ضیا الدین یوسفزئی کو نقصان پہنچایا تو اسے عبرت ناک سزا دی جائے گی۔ادھر طالبان دھمکیاں دے رہے تھے کہ وہ ملالہ کو زندہ نہیں چھوڑیںگے ۔ ملالہ کے حامیوں نے دیواروں پر لکھنا شروع کر دیا کہ جس کسی نے اس خاندان کو نقصان پہنچایا‘ اسے کڑی سزا دی جائے گی۔ یہ بھی لکھا گیا کہ یہ چھوٹی سی بچی ایک دن دنیا بھر میں مشہور ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ میں بچوں کی تعلیم کے خصوصی نمائندے‘ گورڈن برائون نے اعلان کیا کہ2015ء تک دنیا بھر میں بچوں کی اکثریت سکولوں میں جانے لگے گی۔ادھر برطانوی ہسپتال میں ملالہ موت کو شکست دے کر آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی۔ اس کی بہادری اور عزم و ہمت کی ہر جگہ تحسین ہو رہی تھی۔گورڈن برائون نے ملالہ کے سرپرست کی حیثیت میں‘ دنیا کے تمام تعلیمی مراکز اور اداروں تک‘ ملالہ کے کارناموں اور بہادری کے واقعات پہنچائے اور یہ مہم چلائی کہ اسے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جائے۔ یہ تحریک تیزی کے ساتھ پھیلی اور ملالہ کے حق میں رائے دینے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ کچھ لوگوں کو تنہا ایک بچی کے لئے نوبل جیسا بڑا انعام ہضم نہیں ہو رہا تھا۔جب اس پر سوال اٹھنے لگے تو بھارتی لابی حرکت میں آگئی اور کیلاش ستیارتھی کے لئے متحرک ہو گئی۔بھارت کے اہل علم اور میڈیا نے اس کے حق میں لکھنا شروع کیا ۔ کیلاش نے زندگی کا بڑا حصہ‘ بچوں کی تعلیم اور خصوصاً غریب بچوں کو پڑھانے کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ جب نوبل انعام کا اعلان ہوا تو ملالہ کے ساتھ کیلاش کا نام بھی آیا۔ اس طرح2014ء کا نوبل انعام ملالہ اور کیلاش‘ دونوں کو دے دیا گیا۔ ملالہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہے‘ جس پر برصغیر کے عوام کو فخر کرنا چاہئے۔اسلام کے نام پر انسان اور علم دشمنی پر تلے ہوئے نام نہاد مجاہدین‘ جو اصل میں درندے ہیں‘ انہوں نے بطور خاص‘ علم حاصل کرنے والوں کو اپنا ہدف بنایا۔ پہلے قبائلی علاقوں میں بچیوں کے سکول اور ان کی تعلیم کو نشانہ بنایا گیا۔انہیں زبردستی نو عمری میں ہی نقاب پہننے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان کا گلی محلے میں نکلنا‘ ناممکن بنا دیا گیا۔اس کے بعد علم کے ان دشمنوں نے سکولوں‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ہدف بنانا شروع کیا۔اس سلسلے میں پشاور کا اندوہناک واقعہ‘ جدید انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ یہ آرمی پبلک سکول تھا‘ جہاں زیادہ تر عسکری خاندانوں کے بچے پڑھتے تھے۔یہ درندے سکول کی عقبی دیوار پھلانگ کرکلاسوں میں گھس گئے اور اندھا دھند گولیاں چلا کر معصوم اور بے گناہ بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈیڑھ سو کے قریب بچے شہید ہو گئے۔ بہت سے بچے اپاہج ہوئے‘ جنہیں مختلف اداروں کے علاوہ مخیر حضرات نے بھی اپنی نگہداشت میں لے لیا ۔ بہت سے خوش نصیب ایسے ہیں ‘ جنہیں اللہ کے نیک بندوں نے‘ اپاہج بننے سے بچایا۔اس سانحے سے پوری دنیا ہل گئی اور ابھی پانچ دن پہلے چارسدہ میں دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی کو ہدف بنایا۔ اس یونیورسٹی میں طلبا و طالبات آسانی سے ان کے ہاتھ نہیں لگے۔ یونیورسٹی کے گارڈز نے آگے بڑھ کر انہیں روک لیا اور ایک عمارت تک محدود کر دیا۔ وہ چند طلبا کو ہی نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔ اس سے پہلے کہ وہ زیادہ طلبا کو گولیا ں مارتے‘ انہیں جہنم واصل کر دیا گیا۔ہماری زندگی بھی کیا ہے؟ ایک طرف گمراہ مذہبی انتہا پسند‘ درندوں کی طرح ہمارے بچوں کو شہید کرتے ہیں اور دوسری طرف جو مسافر پرندے‘ شدید سردی سے بچنے کے لئے ہمارے صحرا میں آتے ہیں‘ یہا ں پہلے سے ان کی جان کے دشمن ‘ بندوقیں تیار کئے گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں۔معصوم پرندے ہوں یا انسانوں کے معصوم بچے‘دونوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔درندوں کا شکار‘ انسانی بچے ہیں اور شکاریوں کا شکار‘ مسافر پرندے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved