خواجہ محمد آصف کا شکریہ! جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ محمد صفدر کا صاحبزادہ صرف ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کی افغان پالیسی اور افغان جہاد میں پاکستان کی شرکت پر برسا۔موجودہ حالات کو افغان جہاد میں شرکت کا نتیجہ قرار دیا۔ اگر وہ میاں نواز شریف کے بعض لبرل اور ترقی پسند ساتھیوں کی طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ناتا برصغیر کے طول و عرض میں گونجنے والے مقبول نعرے''پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ‘‘ اور قرار داد مقاصد کی منظوری سے جوڑ دیتا تو ہم آپ کیا کر سکتے تھے۔
پاکستان کو جن بدترین حالات اور اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے وہ افغان جہاد کا نتیجہ ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کی حمایت کرنے والے دیگر 123ممالک، بالخصوص افغانستان کے ہمسائے ایران میں صورتحال مختلف کیوں ہے؟ امریکی اور یورپی پابندیوں کے علاوہ ایران عراق جنگ میں ناقابل برداشت اور ناقابل بیان نقصان اٹھانے والا ایران آج بھی مخالفین کے دل میں کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا ہے اور وہاں اندرون ملک ٹی ٹی پی‘ لشکر جھنگوی اور بی ایل اے ٹائپ تنظیمیںکیوں سرگرم عمل نہیں؟ 1988ء سے اب تک پاکستان میں وہ حکومتیں برسر اقتدار ہیں جو ضیاء الحق کی افغان پالیسی کی مخالف اور بھارت و افغانستان کے معاملات میں عدم مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹتی اور پاکستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی شدومد سے مخالفت کرتی ہیں مگر حالات سدھرنے میں آ رہے ہیں نہ تعلقات بہتر ہونے میں۔
1990ء کے بعد برپا ہونے والا فساد نہیں بلکہ یہ افغان جہادتھا جس کے طفیل وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو سوویت یونین کے غاصبانہ قبضہ سے نجات ملی۔ اسی باعث ہم اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل کر پائے ‘ بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن قائم ہوا اور اس جہادنے پاکستان کو ایک بار پھر عالمی سطح پر ایک ایسی ریاست کے طور پر متعارف کرانے کا موقع فراہم کیا جو سوویت یونین اور بھارت کے مابین سینڈ وچ بننے اور اپنی آزادی‘ خود مختاری اور سلامتی کو بھارت یا سوویت یونین میں سے کسی ایک کے ہاتھ گروی رکھنے کے بجائے باوقار انداز میں زندہ ہے ...پولینڈ‘ یوکرین‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان کی طرح طفیلی ریاست نہیں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے طور پر۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل اورسات مسلم ریاستوں کی آزادی شائد خواجہ آصف کے نزدیک معمولی بات ہے۔
خیر یہ تو ماضی کے قصّے ہیں، اس وقت چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان کو جس منفی صورتحال کا سامنا ہے، نریندر مودی بیجنگ جا کر چینی رہنمائوں سے یہ منصوبہ ختم کرنے کی فرمائش کرتے ہیں اور پاکستان میں اس کے داشتہ گماشتہ عناصر بم چلانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ کس افغان پالیسی کا نتیجہ اور ماضی کے کس سول یا فوجی آمر کی غلطیوں کا شاخسانہ ہے؟ آرمی پبلک سکول سے لے کر چارسدہ یونیورسٹی تک میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی ہو یا کراچی‘ کوئٹہ‘ خضدار‘ پنجگور اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات،اُن کا تعلق اقتصادی راہداری‘ آپریشن ضرب عضب اور افغانستان و شرق اوسط میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے ہے اور ہمارا کوئی مہربان نہیں چاہتا کہ ہم عدم استحکام اور سیاسی، سماجی‘ معاشی بحران سے نکل کر تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔بھارت کی اسّی کروڑ آبادی بھوک‘ جہالت اور پسماندگی کا شکار ہے مگر وہ افغانستان میں سڑکیں‘ عمارتیں اور ایران میں بندرگاہ اور شاہراہیں تعمیر کر رہا ہے، کیوں اور کس کے مقابلے میں؟
گزشتہ روز پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا) کی تقریب میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہر اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی۔ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا اور اس منصوبے کو پاکستان کی اقتصادی ترقی‘ خوشحالی اور کامیابی میں شرکت کا عملی اظہار قرار دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ اس قدر شفاف‘ گیم چینجر اور اقتصادی و سماجی ترقی کے منصوبے کی مخالفت ان صوبوں کی قوم پرست قیادت کی طرف سے کیوں ہو رہی ہے جو سب سے زیادہ اس کے ثمرات سے مستفید ہوں گے... بلوچستان‘ سندھ اور خیبر پختونخوا۔ کیا یہ محض وقتی اُبال ہے، مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی ‘دور از کار اندیشوں اور بدگمانیوں کا نتیجہ یا کوئی معشوق ہے اس پر دۂ زنگاری میں؟اور مخالفت کا ہدف منصوبے سے زیادہ پنجاب کیوں ہے؟ نیشنل ایکشن پلان اور اقتصادی راہداری کی مخالفت ایک ساتھ کیوں شروع ہوئی اور اچانک دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ کیوں ہونے لگا؟
صدیوں کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ ''جسے کسی نعمت سے نوازا جاتا ہے وہی بغض و حسد کا نشانہ بنتا ہے‘‘۔پاکستان اگر علاقے کا قابل ذکر اور صورت ِخورشید جینے کی اہلیت رکھنے والا ملک نہ ہوتا''اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘ تو امریکہ آئے دن اس کے ایٹمی پروگرام پر سوالات کیوں اُٹھاتا؟ نریندر مودی‘ منوہر پاریکر اور اجیت دودل کے دل میں کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا اور افغانستان ہمارے خلاف سازشوں کا اڈہ کیوں بنتا؟برصغیر کی تقسیم اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کا زخم سہنے والے عناصر کبھی واہگہ کی لکیر‘کبھی قرار داد مقاصد اور کبھی جہاد افغانستان کے بہانے اس کے قیام‘ وجود اور مستقبل پر حرف زنی کیوں کرتے؟ مولوی فضل اللہ اور مولوی عمر منصور کو افغانستان میں پناہ اور کراچی و بلوچستان کے علیحدگی پسندوں‘ تخریب کاروں اور دہشت گردوںکو بھارت میں تربیت‘ اسلحہ ‘ مالیاتی وسائل اور یورپی ممالک میں قیام و طعام کی اعلیٰ سہولتیں کون فراہم کرتا؟ کل صاحب النعم محسود(ہر صاحب نعمت حسد کا شکار ہوتاہے)
پائنا کے سیمینار میں بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے پتے کی بات یہ کہی کہ حقوق کے نام پر ریاست کو بلیک میل کرنے والے بلوچ لیڈروں کو سر پر چڑھانے کی ضرورت نہیں ۔ شناختی کارڈ دیکھ کر گلے کاٹنے والوں کو ناراض شہری اور صوبائی حقوق کا علمبردار قرار دینا اُن محب وطن شہریوں کے ساتھ ظلم ہے جو پاکستان سے غیر مشروط وفادار ہیں۔ اے پی ایس اور چارسدہ میں گولیاں برسانے اور کوئٹہ میں پولیس و ایف سی پر حملہ کرنے والے یکساں سلوک کے مستحق ہیں اور ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے۔ مگر انوار الحق کاکڑ کو کون بتائے کہ ریاست کے وسائل اور اختیارات پر قابض اشرافیہ سوچنے سمجھنے اور اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی اہل ہوتی تو پاکستان کا یہ حال کیوں ہوتا۔ یہ امریکہ کا آموختہ دہرانے اور بھارت کا پس خوردہ چبانے کی عادی ہے۔
1998ء میں کراچی کی ایک محفل میں جب پاکستان کے غوری میزائل تجربے کا ذکر ہوا تو بعض سیاستدانوں اور صحافیوں نے چینی قونصل جنرل کو باور کرایا کہ ہم چین کے تعاون سے اس قابل ہوئے جس پر نوجوان قونصل جنرل نے تاسّف کا اظہار کیا اور کہا آپ لوگ اپنے کارناموںپر فخر کیوں نہیں کرتے‘ اپنے سائنس دانوں اور حکمرانوں پر، ہر چیز کا کریڈٹ دوسروں کو دینے کے مرض میں کیوں مبتلا ہیں؟ کاش کوئی چینی لیڈر خواجہ آصف کو سمجھا سکے کہ حضور! موجودہ حالات افغان جہاد میں حصہ لینے کے باعث نہیںامریکیوں کی تابعداری‘ بھارت سے مرعوبیّت، افغان جہاد کے ثمرات کو سنبھال نہ سکنے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اگر خدانخواستہ افغان جہاد کے سبب ہم ایٹمی قوت نہ بن پاتے‘ بھارت کا فوجی اتحادی سوویت یونین افغانستان پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعداپنا رخ کر لیتا جس طرح اُس نے ہنگری‘ پولینڈ اور دیگر ممالک کی طرف کیاتو ہماری حالت کیا ہوتی؟ روبل اور ووڈکا کے شوقینوں کی بات الگ ہے، وہ تو آرام سے امریکہ کی جھولی میں جا بیٹھے مگر عام پاکستانی؟
اجیت ڈول اور رحمت نبیل تو دانت پیس رہے ہیں کہ پاکستان، افغانستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں کیوں آ گیا۔ مگر ہم شرمندہ شرمندہ پھرتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ پراکسی وار نے ہمیں برباد کر دیا۔1970ء سے اب تک بھارت نے مشرقی پاکستان‘ کراچی‘ قبائلی علاقوں اور کراچی میں پراکسی وار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر گلہ کیا کہ میں نے مشرقی پنجاب میں راجیو گاندھی سے تعاون کیا مگر اس نے جواباً کراچی میں اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ پھر قصور وار ہم ہیں۔ افغان جہاد پر شرمندہ اور پاکستان کے اسلامی تشخص سے محجوب ؎
مجھ سا جہاں میں کوئی نادان بھی نہ ہو
کر کے عشق جو کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو