تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-01-2016

ایسی بلند پروازی خواجہ صاحب؟

ایک سوال البتہ ہے ، جنابِ خواجہ آصف نے جن 68برسوں کو احمقانہ ترجیحات کا زمانہ قرار دیا، اس میں بابائے قوم قائدِ اعظمؒ کا ایک برس بھی شامل ہے ۔ ایسی بلند پروازی خواجہ صاحب، ایسی بلند پروازی؟ 
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اگر یہ کہا کہ پہلی بار قومی ترجیحات درست ہوئی ہیں تو بالکل ٹھیک کہا۔ ذہین آدمی ہیں ، قادر الکلام بھی اور یہ گمان بھی ان کا بالکل بجا کہ 22کروڑ انسانوں کی یہ قوم سوجھ بوجھ سے عاری ہے ۔ اگر ہوش مندی نام کی کوئی چیز اس میں پائی جاتی تو کیاوہ اس حکمران طبقے کو گوارا کرتی ؟ 
خواجہ صاحب کے فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ سات عشرے تک ہم بھٹکتے رہے ۔ وقت آگیاہے کہ اپنے ہمسایوں سے ہم خوشگوار مراسم قائم کریں ۔خطے کو امن سے مالا مال کر دیں ۔ اس عمل میںپاکستان قائدانہ کردار ادا کرے ، جو وہ کر رہا ہے ۔ گویا نواز شریف ہی مغل عہد کے بعد عظیم ترین لیڈر ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد تو یقینا سب سے بڑ ے کہ وہی سیاست کی حقیقتِ عظمیٰ کا ادراک کرنے میں کامیاب رہے ۔دو حوالے انہوں نے دئیے ۔ ایک تو جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے افغان جہاد میں شرکت کا فیصلہ ، ثانیاً جنرل پرویز مشرف کی طرف سے افغانستا ن میں فوجی کارروائی میں اسلام آباد کی شمولیت۔ 
اگر وہ کچھ غور کرتے ۔ تھوڑا سا تامل اگر فرماتے تو شاید انہیں یادآتا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھاتو دنیا کی 122اقوام نے ہماری تائید کی تھی ۔ آدھا یورپ نگل جانے والے روس کی سرخ سپاہ ڈیورنڈ لائن تک آپہنچی تھی ۔ کہا یہ جاتا تھا کہ ساڑھے تین سو سال سے پیہم پیش قدمی کرتا ہوا روس 
طور خم کی سرحد پر رکے گا نہیں۔کابل میں براجمان اے این پی کے رہنما اجمل خٹک مرحوم آئے دن فرمایا کرتے :''سرخ ڈولی‘‘ پاکستان پہنچنے والی ہے ۔ جناب عبد الولی خان نے کہ فخرِ افاغنہ خان عبد الغفار خان کے جانشین تھے، ان دنوں ایک کتاب رقم فرمائی تھی"Facts are facts"لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں جا براجے تھے اور تحقیق کا ڈول ڈالا تھا۔ اس تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان انگریزی استعمار کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے ''ثابت ‘‘ کیا کہ تحریکِ پاکستان کے حامی انگریزوں کے ایجنٹ تھے ۔
نہایت سہولت کے ساتھ وہ بھول گئے کہ نئے ملک کا قیام 75.6فیصد ووٹوں کا مرہونِ منت تھا ، جو تحریکِ پاکستان کی حمایت میں ڈالے گئے ۔باقی ماندہ 24.4فیصد ووٹ بھی پاکستان کے خلاف نہ تھے ۔ آزا دامیدوار ، علاقائی پارٹیاں ، ذات برادری کو ترجیح دینے والے وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ پولیٹیکل سائنس سے زیادہ حساب کا سوال ہے کہ تین چوتھائی کی بات مانی جائے یا ایک چوتھائی کی ۔ خان عبد الولی خان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ روسی اگرچاہیں تو ٹینکوں پر نہیں ، مرسڈیز گاڑیوں میں طور خم سے کراچی پہنچ سکتے ہیں ۔ 
بے شک جنرل محمد ضیاء الحق نے پہاڑ سی بعض غلطیاں کیں ۔ مسلّح لشکر ترتیب دیے ، بعد ازاںجو خوفناک مسئلہ بن گئے اور اب تک بنے ہوئے ہیں ۔ اس میں دو نکات ہیں ۔ سیاسی لیڈر الگ مگر جہاں تک رائے عامہ کا تعلق ہے ، 1980ء میں شروع ہونے والے افغان جہادکی تائید 80فیصد سے زیادہ تھی ۔ ملک میں بم پھٹتے تو اس حمایت میں گاہے کمی آجاتی۔ لیڈر لوگ چیخ چیخ کرکہتے کہ یہ افغانستان میں پاکستانی مداخلت کا ثمر ہے ۔اسلام آباد کی ایک شام قاضی حسین احمدمرحوم خلافِ معمول خاموش سے تھے ۔ بولے تو یہ کہا: تازہ سروے میں افغان جدوجہدِ آزاد ی کی عوامی پشت پناہی 66فیصد رہ گئی ہے ۔ اس سے کم بہرحال وہ کبھی نہ ہوئی تا آنکہ روسیوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔واپس جاتے ہوئے آخری دستوں کی کمان کرنے والے درماندہ روسی جنرل نے دریائے آمو کے پل پر کھڑے ہو کر نگاہِ واپسیں افغان سرزمین پہ ڈالی اور یہ کہا : ہم آئندہ ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گے ۔ 
بائیں بازو کے دانشوروں کا بس نہیں چلتا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کو حضرت آدمؑ سے لے کر اب تک کے تمام جرائم کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ بے شک جنرل نے غلطیاں کیں ۔ فوجی طاقت کے بل پر سیاسی جماعتوں کو الگ کر کے ذات برادری کی سیاست کاراستہ ہموا رکیا۔ ضلع کونسل کی سطح کے لیڈروں کو مرکز اور صوبوں پر مسلّط کر دیا۔میاں محمد نواز شریف کا انتخاب شاید سب سے بڑا بلنڈر تھا۔ بہرحال سب کے سب کام ان کے غلط نہیں تھے ۔ ان کے دور میں پاکستان ایک معززاور طاقتور ملک تھا۔ دنیا بھر میں بھارت نکّو بنا ہو اتھا ۔ سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے جنرل دہلی گیا تو بھارتی لیڈر گہنا گئے۔ دہلی ہی کیا، دنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہوتی ۔ جنرل محمد ایوب خان اور جنرل مشرف کے ادوار کی طرح ملک میں غربت کم ہوئی ۔ اقتصادی ترقی کی شرح 7فیصد تک جا پہنچی ۔ شریف خاندان اور زرداری خاندان کے برعکس کوئی ذاتی کاروبار کیا ، بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں اور نہ میگا کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے ۔ وہ سیاسی حوالے سے ''بے اولاد‘‘ مرا اور اس کا دفاع کرنے و الا کوئی نہیں ۔ اس کی صحافتی اور سیاسی بیوائوں نے اسے بھلا دیا ۔ شریف خاندان نے اسے بھلا دیا۔ 
گستاخی ہوتی ہے مگر تاریخ کے اوراق سے وہ باب کھرچا تو نہیں جا سکتا۔ میاں محمد نواز شریف جنرل کے سب سے بڑے چہیتے تھے۔ نواز شریف کے خلاف بغاوت ہوئی تو پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنرل نے اعلان کیا ''نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے ‘‘۔ جنرل کی موت کے بعد اس کے جانشینوں ، جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل مرحوم نے نواز شریف کے اقتدار کا راستہ ہموا رکیا۔خفیہ ایجنسیاں اور عسکری قیادت ہی ان کی پشت پر نہ کھڑی تھیں بلکہ جماعتِ اسلامی، ایم کیو ایم اوراے این پی سمیت نو عدد سیاسی جماعتیں بھی ۔ 
جنرل کو کس نے قتل کیا اور کیوں ؟ یہ ایک تاریک راز ہے ۔ قرائن یہ ہیں کہ امریکہ بہادر نے ۔ اس لیے کہ اب وہ آزادیٔ ٔکشمیر کا خواب دیکھ رہاتھا۔ اس لیے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے کارندے مسلّط کرنے کی کوشش کی تو قومی مفاد میں وہ ڈٹ گیا؛اگرچہ بعد ازاں اس کے جانشین قائدِ اعظم ثانی نے واشنگٹن کے سامنے سر جھکا دیا۔ علامہ طاہر القادری سے بھی کم تائید رکھنے والے صبغت اللہ مجددی کو صدارت سونپنے میں مدد کی۔ با یں ہمہ جنرل کااحسان چند برس اس نے یاد رکھا۔ ہر سال 17اگست کو وہ اس کی قبر پر جایا کرتے اورہر بارایک جملہ دہراتے ''میں جنرل ضیاء الحق کا مشن مکمل کر کے رہوں گا۔‘‘ پھر 12اکتوبر1999ء کا دن طلوع ہوا۔ فوجی قیادت نے اس آدمی کی بساط لپیٹ دی ، جس پر اس نے کبھی اقتدار کا دروازہ کھولا تھا۔ تب ان کے خیالا ت میں بڑی صحت مند تبدیلی رونما ہوئی ۔ تب جنرل کے مزار پر جانا انہوں نے چھوڑ دیا۔ 1999ء سے قبل وگرنہ خواجہ آصف کو جنرل ضیاء الحق پر تنقید کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔
خواجہ آصف سے پہلے بھی سیالکوٹ میں ایک ممتاز سیاستدان ہو گزرے ہیں ۔ وہ ان کے گرامی قدر والد خواجہ محمد صفدر تھے۔ باوقار اور سنجیدہ ، محتاط اور صاحبِ مطالعہ ۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے 1983ء میں مجلسِ شوریٰ قائم کی تو وہ اس کے سپیکر بنائے گئے۔یہ ناچیز ان کی خدمت میں حاضر ہوا او رمؤدبانہ یہ عرض کیا: صدر اور سپیکر کاتعلق ایک صوبے سے کیونکرہو سکتاہے ۔ وہ مسکرائے اور یہ کہا: ''پشاور کا ڈومیسائل ہے جنرل صاحب کا‘‘ ۔ 
خواجہ آصف اور ان کے رفیق کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے انہوں نے سبق سیکھا ہے ۔ان کے اس مؤقف کو قبول کر لینا چاہیے ۔ ایک سوال البتہ ہے : خواجہ صاحب نے جن 68برسوں کو احمقانہ ترجیحات کا زمانہ قرار دیا، اس میں بابائے قوم قائدِ اعظمؒ کا ایک برس بھی شامل ہے ۔ ایسی بلند پروازی خواجہ صاحب، ایسی بلند پروازی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved