ہمارا ملک ایک عرصے سے د ہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد ملک کے تمام طبقات نے یک زبان ہو کر اس سانحے کی مذمت کی تھی اور اس کو ایک ادارے پر نہیں بلکہ پورے ملک پر حملہ قرار دیا تھا۔ سانحہ چارسدہ نے ایک مرتبہ پھر آرمی پبلک سکول کے حملے کی یاد تازہ کر دی۔ سانحہ چارسدہ کے بعد بھی پورے ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے شدید قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس سانحہ پر گہرے رنج و غم کا اظہارکیا اور اس سانحے میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا ہے‘ لیکن شدت پسندی اور عدم برداشت کے حوالے سے تاحال معاشرے میں مختلف قسم کی آرا پائی جاتی ہیں۔
ایک طبقہ اس حوالے سے مذہبی جماعتوں اور اداروں کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ان کا پختہ خیال ہے کہ شدت پسندانہ رجحانات کی ترویج میں مدارس اور مذہبی اداروں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، جبکہ دینی جماعتوں سے وابستہ افراد اس الزام کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتہا پسندی کی شدت سے نفی کرتے ہیں۔ عدم برداشت کے اسباب کے حوالے سے پائے جانے والے اس نظریاتی اختلاف کی وجہ سے دونوں طبقات ایک دوسرے سے بدگمان نظر آتے ہیں۔ اس بحث کی وجہ سے معاشرے کے دونوں طبقات کے درمیان کئی مرتبہ تنائو بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ عدم برداشت کی کیفیت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے لیے جس ٹھنڈے دماغ اور غیر جانبدارانہ رویّے کی ضرورت ہے وہ سر دست ہمارے معاشرے میں مفقود ہے۔ جب تک اس معاملے پر اعتدال سے غور و فکر نہیں کیا جائے گا اس وقت تک معاملات کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ تاریخ انسانیت میں عدم برداشت کی متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جو اس رجحان کی اصل وجہ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا تو فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ سب فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا لیکن ایک عزازیل نامی جن نے، جو کثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو چکا تھا، حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ ابلیس کے اس عدم برداشت کا بنیادی سبب اس کا تکبر تھا۔ ابلیس خود پسندی کا شکار تھا اور وہ تخلیقی اعتبار سے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدم برداشت کا ایک بڑا سبب تکبر ہوتا ہے۔ جب کوئی تکبر اختیار کر لیتا ہے تو اس کی نظروں میں دوسرا شخص ہیچ ہو جاتا ہے اور وہ اس کو قبول کر نے پر تیار نہیں ہوتا۔
قرآن مجید میں ہی ہابیل اور قابیل کا واقعہ بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی کو قبول کر لیا جبکہ قابیل کی قربانی کو قبول نہ کیا۔ ہابیل نے جب اس ماجرے کو دیکھا تو حسد کا شکار ہو گیا۔ ہابیل نے قابیل کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جس کو قابیل نے قبول نہ کیا اور حسد کے جذبات سے مغلوب ہو کر ہابیل کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں قابیل ندامت کا شکار ہو کر کف افسوس بھی ملتا رہا لیکن اس وقت تک معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عدم برداشت کا ایک بڑا سبب حسد بھی ہے۔ حسد ہی کی نوع کی ایک اور کیفیت رقابت بھی ہے۔ رقابت کا جذبہ انسان کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ انسان اپنے محبوب کی توجہ دوسرے انسان کی طرف منتقل ہوتے ہوئے دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے محبوب کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے چاہے اس سے کسی دوسرے کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی اس کیفیت کو دیکھ کر جذبہ رقابت میں مغلوب ہو گئے۔ اکثر بھائی تو ان کی جان کے در پے ہو گئے تھے تاہم ایک بھائی نے باقی بھائیوں کو مشورہ دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو شہید کرنا کوئی ضروری نہیں اگر ان کو والد کی نظروں سے دور کرنے کے لئے کسی کنویں میں اُتار دیا جائے تو اس سے بھی مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ باقی بھائیوں نے اپنے اس بھائی کی تجویز کو قبول کر لیا‘ لیکن رقابت کے جذبات اس حد تک غالب رہے کہ انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈال کر ہی دم لیا۔
جذبہ رقابت کے اثرات گھریلو تنازعات میں بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سوکنوں کے باہمی تنازعات کا سبب بھی یہی جذبہ رقابت ہے۔ اسی طرح ساس بہو اور نند بھابھی کے جھگڑوں کی بنیادی وجہ بھی یہی منفی جذبہ ہے۔ اسی وجہ سے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے اور اسی منفی جذبے کی وجہ سے خاندانوں کے خاندان بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ تکبر، حسد اور رقابت کے علاوہ تعصب بھی عدم برداشت کا ایک بڑا سبب ہے۔ متعصب انسان تنگ نظر ہوتا ہے اور وہ حقیقت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ تعصب صرف مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی متعدد اقسام اور وجوہ ہیں۔ علاقائی، لسانی، خاندانی، گروہی اور جماعتی تعصبات بھی انسانوں کے درمیان عدم برداشت کا بہت بڑا سبب بن جاتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر تھے۔ آپ کا پیغام اور دعوت ہر اعتبار سے حق اور سچ پر مبنی تھے‘ لیکن کفار مکہ نے آپ کے ساتھ مذہبی بنیاد پر تعصب کا اظہار کیا۔ بت پرست آپ کے ساتھ مذہبی اختلاف کی وجہ سے عداوت پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے نبی آخرالزمانﷺ کی دعوت کی صرف تعصب کی بنیاد پر بھرپور مخالفت کی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں ابو جہل کی اس دعا کا بھی ذکر کیا جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کی تھی کہ اے اللہ اگر رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والا کلام حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کو برسا یا ہمیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے۔
نبی کریمﷺ تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ فرماتے رہے۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل ہی مدینہ کے گرد و نواح میں تین قبیلے آباد تھے جن کی آبادکاری کا بڑا مقصد نبی آخرالزماں کا انتظار اور ان کی جمعیت میں شمولیت تھی۔ نبی کریمﷺ کی مدینہ آمد کے بعد آپ کی شخصیت و سیر ت کو دیکھ کر یہودی اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ آپ آل اسحاق کی بجائے آل اسماعیل سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ نسلی عصبیت کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی مخالفت پر اتر آئے ۔ تعصب کا ایک بڑا سبب ناجائز مفادات کو لاحق ہونے والے خطرات بھی ہوتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں اور بعد ازاں اسلامی نظام کی مخالفت کا ایک بڑا سبب ناجائز تعیشات کو درپیش خطرات بھی تھے۔
احتساب، انقلاب اور تبدیلی کا خوف بھی انسانوں کو ایک دوسرے کی مخالفت پر اُکساتا ہے۔ یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے عدم برداشت پر بھی منتج ہوتی ہے۔ فرعون کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا بچہ اس کے اقتدار کے لئے بہت بڑا چیلنج بن جائے گا، اس نے اپنے اقتدار کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے بنی اسرائیل کے بچوں کو بڑے پیمانے پر ذبح کرنا شروع کر دیا‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور فیصلہ اس کی پیش بندی پر غالب آیا‘ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جدوجہد فرعون کے زوال اور بربادی کا سبب بن گئی۔
ہمارا معاشرہ آج جس عدم برداشت کا شکار ہے اس کا سبب بھی مختلف طبقات کے درمیان موجود حسد، تعصبات، جذبہ رقابت اور انجانے خوف کی کیفیات ہیں۔ معاشرے میں توازن اور اعتدال کو برقرار رکھنے کے لیے عدم برداشت پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے اور یہ جبھی ممکن ہے جب عدم برداشت کے اسباب کا حقیقی اور صحیح تجزیہ کیا جائے۔ انتہا پسندی کی ہر شکل معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ صحت مند اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے جہاں مذہب کی بنیاد پر ہونے والا تشدد قابل مذمت ہے وہیں پر مذہب کے خلاف نفرت کا اظہار بھی ناقابل قبول ہے۔ جب تک عدم برداشت کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک معاشرے میں موجود انتشار اور بے چینی کو ختم کر کے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔