ایران کے عالمی معیشت میں قدم رکھنے سے عالمی مارکیٹوں اورسٹاک ایکس چینجوں میں بھونچال اور افراتفری کی کیفیت دیکھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جب ایران امریکہ ایٹمی ڈیل ہو رہی تھی تو سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں اس کی مخالفت کیوں کر رہی تھیں۔ ریاض کو خدشہ تھا کہ ضبط کردہ ایک سو بلین ڈالر تہران کو منتقل کرنے سے یہ خطے میں اپنی پالیسی زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے کی راہ پر چل نکلے گا۔ پابندیاں اٹھنے سے پہلے ہی کئی کثیر ملکی فرمیں تہران کا دورہ کرتے ہوئے معاہدے کر چکی ہیں۔ حال ہی میں ایئربس کمپنی نے جدید طیارے فروخت کرنے کے لیے دس بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل نے جن کا تعلق مین میڈیا مارکیٹ میں موجود سکیورٹی ماہرین کی بھاری کھیپ سے ہے، نہایت گمبھیر لہجے میں سی این این کو بتایا کہ ان طیاروں میں آسانی سے تبدیلی کرکے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ ایران نے طے پائے گئے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے پلوٹونیم پلانٹ کو تباہ کرنے کے علاوہ ایٹمی سنٹری فیوجز کی تعداد میں بہت زیادہ کمی اور افزودہ یورنیم برآمد کردی ہے، لیکن اسرائیلی اور امریکی ہاک اپنی سکیورٹی کے دائو پر لگ جانے کی مسلسل دہائی دے رہے ہیں۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ ایران خفیہ طور پر اپنے نیوکلیئر پروگرام پر کام کرتا رہے گا جبکہ امریکہ، یورپی یونین اور اقوام ِمتحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں اٹھنے سے اس کی معیشت بھی سنبھل جائے گی۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ پابندیاں اٹھنے اور عالمی مارکیٹ میں تیل فروخت کرنے کی اجازت کے بعد حکومت اور عوام کی زندگی میں کچھ آسانی ضرور آئے گی لیکن ہم اس کی معیشت میں انقلابی بہتری نہیں دیکھیںگے۔ ''فارن افیئرز‘‘ کے نومبر/ دسمبر کے شمارے میں کرس امیر موکری (Cyrus Amir-Mokri) اور حامد بگلاری اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اہم اصلاحات کے بغیر ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا آنا مشکل ہے۔ ان مصنفین کا موقف ہے کہ سو بلین ڈالر میں سے پچاس بلین قرضہ جات کی ادائیگی جبکہ پچیس بلین زر ِمبادلہ کے لازمی ذخیرے کے لیے الگ رکھنے ہوںگے۔ اس طرح استعمال کے لیے صرف پچیس بلین ڈالر ہی بچیںگے۔ تاہم اگلے عشرے کے دوران ایرانی معیشت کو ایک ٹریلین ڈالر درکار ہیں، اس لیے اگر ایران اپنی معیشت کو استحکام دینا چاہتا ہے تو اسے غیر ملکی سرمائے کی ضرورت ہوگی۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت ایران ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے 2014 Corruption Perceptions Index پر، 174 ممالک میں 136 ویں نمبر پر ہے۔ دوسرے ریاستی اثاثہ جات کی ملکیت اور کاروباری سرگرمیاں بڑی حد تک غیر شفاف ہیں اور ان کا احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں نجکاری سے مراد سرکاری اداروں کے شیئرز کی منتقلی ہے۔ چنانچہ وہاں ہم نجی شعبے کے نئے اور تازہ کاروباری تصوارت کو پنپتے نہیں دیکھتے۔ کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو یہ شیئرز خریدنے پر یہ بھی پتا نہیں چلے گا کہ انہیں کنٹرول کون کرتا ہے۔ اپنے ہنگامہ خیز دور میں صدر احمدی نژاد نے ''منصفانہ شراکت داری‘‘ کے نام پر پرائیویٹ شیئرزکو غریب افراد میں تقسیم کردیا تھا۔ یقیناً اُن افرد کو کاروبار اور اداروں کے نظم ونسق کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ ان امور سے بھی زیادہ پریشان کن یہ شک ہے جو ایران کی پرانی نسل، امریکی اور یورپی شہریوں کے بارے میں اپنے دل میں رکھتی ہے۔ ایران کی حالیہ تاریخ مغرب کی نقصان دہ مداخلت سے بھری ہوئی ہے۔ ساٹھ سال قبل امریکہ اور برطانیہ نے مداخلت کرتے ہوئے منتخب وزیر ِاعظم مصدق کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اس کے بعد سے ایران کسی نہ کسی آمریت کی گرفت میں رہا۔ ایرانی علما کو تشویش ہے کہ مغرب کے ساتھ ڈیل کرنے سے نہ صرف مشینری اور اشیا آئیںگی بلکہ جدید تصورات اور سیکولر نظریات بھی معاشرے میں سرایت کرتے دکھائی دیںگے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت اور ایرانی عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا مذہبی ڈھانچہ خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔ عملی طور پر اب نوجوان ایرانیوں کو بہت دیر تک اس سخت ڈھانچے تلے رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جب ایران کے جدید دنیا کے ساتھ روابط بڑھتے ہیں تو ہونے والی سماجی تبدیلی سے وہاں کے آیت اﷲ کیسے نمٹتے ہیں۔
دوسری طرف کچھ مثبت عوامل غیر ملکی سرمائے کے لیے پرکشش ہیں۔ ان میں سے ایران کی 87 فیصد شرح خواندگی ہے۔ یونیورسٹیوں میں نوجوان خواتین کی موجودگی کی شرح 65 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک کے برعکس ایرانی معیشت میں تنوع پایا جاتا ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت ایرانی جی ڈی پی کا صرف تیس فیصد ہے جبکہ سعودی جی ڈی پی میں تیل کی فروخت پینتالیس فیصد ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی آمدنی کا 90 فیصد برآمدات، زیادہ تر تیل سے حاصل کردہ رقوم ہیں۔ ایران میں بینکنگ کا نظام قابل ِتشویش ضرورہے، گزشتہ کئی برسوں سے ان کی بیلنس شیٹ ظاہر کرتی ہے کہ اُنہیں غیر پیداواری ریاستی انٹر پرائز میں سرمایہ کاری پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اپنے آٹھ سالہ اقتدار میں احمد ی نژاد نے قرض دینے اور لینے کے جو نرخ مقرر کیے تھے، اُن کی وجہ سے بینک بزنس کا پھیلائو رک گیا، کیونکہ اس کی وجہ سے ان کا منافع کم ہوگیا اور وہ مزید سرمایہ کاری کرنے اور اپنی شاخوں کو توسیع دینے کے قابل نہ رہے۔ ایران کا مرکزی بینک ایسی خود مختاری نہیں رکھتا جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کرا سکے۔ مرکزی بینک پر حکومت کا زبردست کنٹرول سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
ایرانی عدالتیں، آزاد ادارے نہیں جہاں تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہوں، بلکہ حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ پتا نہیں جب غیر ملکی اسلامی شرعی عدالتوں میں پیش ہوںگے تو اُن کے ساتھ کس طرح انصاف کیا جائے گا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستانی عدالتوں میں، پیش ہونا غیر ملکی شہریوں کے لیے اچھا تجربہ نہیں ہوتا۔ اس کے لیے نوے کی دہائی میں حبکو (Hubco) اور موجودہ دور میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری اور ریکو ڈک کاپر فیلڈ کیسزکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان مسائل کے باوجود یہ بات یقینی ہے کہ پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران میں خوشحالی آئے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاشی ترقی سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے یا یہ خطے کے دیگر معاملات میں مداخلت کرنے کی پالیسی اپناتا ہے۔