شاکر حسین شاکر ملتان میں کتابیں بیچتے ہی نہیں‘ پڑھتے بھی ہیں‘ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ شاعر بھی ہیں جبکہ باقی کسر کالم نگاری نے نکال دی ہے۔ میں ان کا کالم شوق سے اس لیے بھی پڑھتا ہوں کہ اس میں بسا اوقات ادب کی چاشنی ہوتی ہے اور جہاں نہیں ہوتی‘ وہاں اپنی چاشنی ڈال دیتے ہیں۔ یہی کُچھ انہوں نے اپنے کالم میں اگلے روز کیا ہے جس کا عنوان ہے ''مصطفی زیدی کی غزل پر ظفر اقبال سے درخواست‘‘ ۔تنازع یہ تھا کہ اس شعر والی غزل :
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مصطفیٰ زیدی نے کُچھ حضرات کی رائے میں فورٹ منرو میں لکھی تھی اور کُچھ کے نزدیک کلرکہار میں جبکہ خود کالم نویس کے بقول انہوں نے یہ غزل بلکہ یہ شعر جہلم میں تخلیق کیا۔ اس وضاحت کے بعد آپ لکھتے ہیں کہ'' اس غزل کی تصدیق کے لیے میں اُردو کے صاحب عہد شاعر جناب ظفر اقبال سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ کلرکہار سے لے کر فورٹ منرو تک کے ادیبوں میں جو بے چینی اس غزل کے بارے میں پھیلی ہوئی ہے‘ وہ ختم ہو سکے۔ مصطفیٰ زیدی کے ہم عصر شعراء میں اب ظفر اقبال ہی رہ گئے ہیں جو اس گھڑمس کو ختم کر سکتے ہیں‘‘۔
سو‘ عرض ہے کہ میں ان حضرات کی کوئی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ میری ناچیز رائے میں مصطفیٰ زیدی کبھی اتنے اہم شاعر نہیں رہے کہ مجھے اس بات کا کھوج لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی کہ انہوں نے فلاں غزل کہاں لکھی تھی۔ فیض صاحب نے ایک بار ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، بھئی شاعر تو اقبالؔ تھے‘ ہم تو میڈیاکر ہیں‘ جبکہ مصطفی زیدی کو تو میڈیاکر بھی نہیں کہا جا سکتا‘ نہ ہی وہ غزل اور شعر ایسے خوبصورت ہیں جیسے یہ حضرات اس کو قرار دے رہے ہیں۔ البتہ اگر وہ جوشؔ کے اثر سے آزاد ہو سکتے جو محض شہنشاہ الفاظ تھے‘ تو بہتر شاعر ہوسکتے تھے۔ پھر ان کی موت شباب و شراب کی جس سرمستی میں واقع ہوئی‘ افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک بھی تھی۔ حسن رضوی بھی اسی طرح کی موت سے ہمکنار ہوئے تھے۔
درج بالا جس شعر کو خوبصورت اور مشہور زمانہ کہا گیا ہے‘ وہ مشہور زمانہ تو ہو سکتا ہے‘ اسے خوبصورت اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فنی رُو سے لُولا لنگڑا اور ناقص ہے۔ اس کا پہلا مصرع اس لیے محل نظر ہے کہ محاورے اور روزمرہ کے مطابق نہیں ہے کیونکہ ''آسکو تو آئو‘‘کی بجائے اسے اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ ''آ سکو تو آ جائو‘‘۔ چنانچہ یہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اگر ''آ سکے تو آ جائو‘‘ بلکہ اگر ''آ سکو تو آ جائو‘‘ بھی ہوتا تو بھی غلط نہیں تھا کہ مصرع کے آخر پر الف کے بعد اگر ہمزہ اور وائو آئیں تو آواز الف ہی کی رہے گی اور ہمزہ اور وائو اس میں مدغم ہو جائیں گے جیسے کہ پھیلائو‘ یعنی ہمزہ اور وائو پر زور دینے یا اُسے لمبا کھینچنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ پتھروں پہ چل کر آنے کو کہا گیا ہے تو اس میں آنے کی زحمت بھی شامل ہے، اس لیے ''آ جائوے‘‘ تو ہی ٹھیک رہے گا۔
جہاں تک مصرع ثانی کا تعلق ہے تو پتھروں کے ساتھ کہکشاں کا جوڑ ٹھیک نہیں لگتا‘ پھر راستے میں کہکشاں کا ہونا یا نہ ہونا بھی درست نہیں کیونکہ کہکشاں تو خود راستہ ہے جسے انگریزی میں ''ملکی وے‘‘ کہا گیا ہے۔ گویا شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اگر اس کے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں ہوتی تو پتھروں پہ چل کر آسانی سے آیا جا سکتا تھا اور جہاں تک اس شعر کے مشہور ہو جانے کا تعلق ہے تو کُچھ شعر خواہ مخواہ ہی مشہور جاتے ہیں، جیسا کہ ہمارے دوست خالد شریف کا یہ شعر ؎
بچھڑا کُچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اس کے بھی دونوں مصرعے محل نظر ہیں۔ پہلا اس لیے کہ رُت بدلنا مثبت معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ رُت بدلی یعنی بہار آ گئی جبکہ شاعر یہاں محرومی‘ ویرانی اور اُداسی کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے جو کہ معاملہ بالکل اُلٹ ہو گیا۔ البتہ مصرع اگر اس طرح ہوتا تو واقعہ کے مطابق ہوتا کہ ع
بچھڑا کچھ اس طرح سے کہ رُت ہی بدل گئی
کیونکہ بچھڑا کچھ اس ادا سے، سے بھی جو تصویر بنتی ہے وہ مثبت اور خوشگوار ہے کیونکہ محبوب کا ادا سے کچھ کرنا دلربائی ہی کے سلسلے کی چیز ہے۔ دوسرے مصرعے میں عیبِ تنافر کا فنی نقص موجود ہے۔ اس لیے یہ اگر اس طرح ہوتا تو بہتر تھا ع
اِک شخص پُورے شہر کو ویران کر گیا
تاہم یہ شعر مشہور اس لیے ہو گیا کہ جب بھی‘ جہاں بھی‘ کوئی شخص بچھڑتا یا انتقال کر جاتا ہے تو موقع کی مناسبت سے یہ شعر اکثر کام آ جاتا ہے۔ اس شعر کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ دراصل مُحسن نقوی مرحوم کا ہے جو انہوں نے ایک موقع پر خالد شریف کو دے دیا تھا جو حال ہی میں محسن نقوی پر شائع ہونے والی ایک کتاب میں عرفان احمد خان نے مختلف حوالوں اور عینی شاہدوں کے زور پر قرار دیا ہے۔ کسی کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایسا ہے بھی تو محسن نقوی نے خالد شریف کو دے دیا اور موصوف نے قبول کر لیا۔ بات ختم ہوئی‘ کیونکہ مسئلہ تو شعر کی ساخت کا ہے‘ اس کی ملکیت کا نہیں‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شعر کو ناقص اور فالتو سمجھتے ہوئے بھی محسن نقوی نے اسے خالد شریف کو دے کر اس سے اپنی جان چھڑالی ہو! یہ تین شعر دیکھیے :
اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مُجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
کیا کہیں اُس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
یہ تینوں شعر بالترتیب شعیب بن عزیز‘ غلام محمد قاصر اور فاطمہ حسن کے ہیں اور میرٹ پر مشہور ہوئے ہیں‘ اتفاقی یا حادثاتی طور پر نہیں۔ لیکن جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا ہے‘ بعض شعر بغیر میرٹ کے بھی مشہور ہو جاتے ہیں اور ان کے فنی نقائص پر یا تو کسی کی نظر نہیں پڑتی یا انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً بزرگ اور مرحوم شاعر احمد ندیم قاسمی کا یہ مشہور شعر ؎
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
اب یہ کون نہیں جانتا کہ فصل گل پر خزاں آیا کرتی ہے، زوال نہیں جبکہ خزاں تو ایک عارضی وقفہ ہوتا ہے جس کے بعد بہار لازمی طور پر آتی ہے جبکہ زوال تو کمال کے بعد آتا ہے تو مستقل ہی ہوتا ہے، اس لیے زوال کو خزاں کے معنوں میں استعمال کرنا صحیح نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح ندیم صاحب کا ایک اور مصرع ہے جو ہمارے ایک دوست نے اپنے کالم کا سرنامہ بنایا تھا‘ یعنی ع
صُبح جب دُھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی
یہ مصرع واقعاتی طور پر محل نظر اس لیے ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دُھوپ صبح ہونے سے پہلے نکل آئی تھی جو کہ صبح ہونے سے بُہت بعد میں نکلتی ہے۔
آج کا مقطع
سب شاعری سمجھتے تھے حالانکہ اے ظفرؔ
الفاظ ہی اِدھر سے اُدھر کر رہا تھا میں