تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-01-2016

تیل تماشا

تیل کے نرخ 27 ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگئے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اور بہت کچھ ہے جو تیل کے تیزی سے گرتے ہوئے نرخوں کے نیچے آگیا ہے۔ دنیا بھر میں ہنگامہ برپا ہے۔ محض ڈیڑھ سال میں عالمی منڈی نے تیل کے نرخوں کو 110 ڈالر فی بیرل سے 27 ڈالر فی بیرل کی سطح پر لا پھینکا ہے۔ یعنی 75 فیصد سے بھی زائد گراوٹ! 
بہت سی معیشتوں کے لیے تو یہ بالکل خواب کا سماں ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کے بلند ہوتے ہوئے نرخوں نے معیشت کو سات آٹھ سال سے نشیب و فراز کی منزلوں سے گزرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ لوگوں نے پٹرول 110 روپے فی لٹر سے زائد کے نرخ پر بھی استعمال کیا ہے۔ اب یہ معاملہ 78 کی سطح پر اٹکا ہوا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل پر گزرنے والی قیامت کے نتیجے میں اب تک ہمیں ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ حکومت اب بھی پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کے ذریعے کمانے پر تُلی ہوئی ہے۔ اب شنید ہے کہ حکومت 15 روپے فی لٹر تک ریلیف دینے پر آمادہ ہوگئی ہے۔ یہ خبر سن کر لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہرے پھر سے کِھل اٹھے ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ اب وہ 60 روپے فی لٹر کے نرخ سے پٹرول استعمال کرسکیں گے۔ اس وقت بھی لوگ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو انجوائے ہی کر رہے ہیں۔ مزید 15 روپے فی لیٹر کی گراوٹ کے بعد بس یہ سمجھ لیجیے کہ موجاں ہی ہوجائیں گی! 
تیل کی صنعت پر یہ آفت کیوں آئی ہے؟ کیا بڑی طاقتوں نے مل کر کچھ طے کیا ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے وہ از خود تو کسی طور نہیں ہوسکتا۔ تیل کے نام پر جو تماشا جاری ہے وہ اپنے اندر ایک کہانی ضرور رکھتا ہے۔ 
وینیزوئیلا کو بھی سبق سکھانا لازم تھا۔ مگر معاملہ صرف روس اور وینیزوئیلا کا نہیں ہے۔ سعودی عرب نے بھی تو اب امریکہ سے دور ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ساتھ ہی ترکی بھی امریکہ اور یورپ میں سے کسی کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ترکی اور سعودی عرب نے امریکہ سے گریز کی راہ اپنائی ہے تو واشنگٹن کے بزرجمہروں نے بھی کمر کس لی ہے۔ ایران سے جوہری معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد نافذ کردیا ہے اور ساتھ ہی پابندیاں بھی ختم کردی ہیں۔ یہ اس بات کا اشارا ہے کہ امریکہ خطے میں بہت کچھ تبدیل کرنے کے اپنے ایجنڈے میں کوئی رکاوٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکی سے کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ وہ کسی بڑے بکھیڑے میں پڑنا پسند کرے گا۔ ترقی یافتہ معاشرے سیاسی و سفارتی مناقشوں میں الجھنا پسند نہیں کرتے مگر ترکی نئے بلاک کی تیاری میں سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ مل کر مضبوط کردار ادا کرنے کے موڈ میں دکھائی دے رہا ہے۔ ترکی کے لیے روس اور چین دونوں ہی بہت حد تک قابل قبول ہیں۔ امریکہ نے ترکی کی ترقی کو اب تک ہضم نہیں کیا۔ یورپ کا یہ حال ہے کہ ترکی کو یورپی اتحاد کا رکن بنانے کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں۔ 
صورت حال صاف بتا رہی ہے کہ تیل کی منڈی گری نہیں، گرائی گئی ہے۔ اور گرائی بھی اس طور گئی ہے کہ بہت سی معیشتیں گرنے والی ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے دیگر ممالک کے لیے بھی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تیل کی آمدن کی بنیاد پر چلنے والی عرب معیشتیں وسائل کی کمی سے دوچار ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سعودی عرب، امارات، قطر، کویت اور دیگر خلیجی ریاستیں تیل کی آمدن میں کمی کے نتیجے میں معیشتی خرابی سے دوچار ہوں گی۔ اور اب امریکہ اور یورپ کی مدد سے ایران بھی میدان میں آنے والا ہے۔ ایرانی قیادت چاہتی ہے کہ 30 تا 40 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کے ساتھ تیل کے میدان میں انٹری دی جائے۔ ایسا ہوا تو نرخ مزید گریں گے۔ 
پاکستان جیسے ممالک فی الحال تیل کے گرتے ہوئے نرخوں سے کماحقہ مستفید ہو رہے ہیں مگر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کے لیے بھی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ سعودی عرب، امارات، کویت، قطر اور بحرین کم ہوتے ہوئے وسائل کا بوجھ زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائیں گے اور لاکھوں غیر ملکی محنت کشوں کو فارغ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ 
اس وقت تیل کی منڈی کو اس قدر گرادیا گیا ہے کہ تیل کے نئے ذخائر کی دریافت اور پیداوار میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے کوئی کشش نہیں رہی۔ یہی سبب ہے کہ 380 ارب ڈالر کی متعلقہ سرمایہ کاری اٹک کر رہ گئی ہے۔ فی الحال سعودی عرب بھی اپنی پوری صلاحیت اور سکت کے مطابق تیل نکال اور بیچ رہا ہے۔ امریکہ میں بھی اس وقت تیل کی پیداوار 90 لاکھ بیرل یومیہ تک ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر جب تیل کی صنعت کا بنیادی ڈھانچا کمزور پڑے گا اور نئے ذخائر کی دریافت اور پیداوار میں اضافے کے لیے وسائل دستیاب نہ ہوں گے تب کیا ہوگا؟ کسی نے سوچا ہے کہ تب تیل کے نرخ کہاں جاکر دم لیں گے؟ 
امریکہ اور یورپ نے مل کر تیل کے معاملے میں جو کھیل کھیلا ہے اور جو تماشا کھڑا کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے خوش آئند نہیں۔ تیل کی منڈی کو نیچے آنا چاہیے مگر مارکیٹ کے اصول کے مطابق نہ کہ manipulation کے ذریعے۔ اس وقت سعودی عرب اور تیل برآمد کرنے والے دوسرے بہت سے ممالک کو کئی طرح کے خدشات نے گھیرا ہوا ہے۔ یہ ممالک اس بات سے بھی خوفزدہ ہیں کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے کہیں کوئی نیا اور انتہائی سستا ایندھن مارکیٹ میں نہ پھینک دیا جائے۔ ایسا ہوا تو تیل کے ذخائر پڑے کے پڑے رہ جائیں گے۔ طاقت کا مرکز اب رفتہ رفتہ، غیر محسوس طور پر، مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ اس بات کو صرف محسوس نہیں کرتے بلکہ سمجھتے بھی ہیں کہ ان کی بالا دستی شدید خطرے سے دوچار ہے۔ چین اور روس مل کر ایک ایسا بلاک بنانا چاہتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے لوگ صرف امریکہ اور یورپ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔ مغربی دنیا اپنے زوال کے عمل کو تھوڑا طُول دینا چاہتی ہے تاکہ مستقبل کے اندھیرے سے کماحقہ نپٹنے کے لیے تھوڑی بہت روشنی کا اہتمام کرلیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ کھپت سے سیکڑوں گنا تیل ذخیرہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ 
تیل تماشا محض دو یا چند ممالک کے درمیان مناقشے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک بڑے بلاک کی پیدائش کا عمل روکنے کی بھرپور کوشش ہے۔ تیل کی صنعت کا بحران مسلم دنیا پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ مسلم قائدین نے اب بھی نہ سوچا تو بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved