تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     25-01-2016

قدرت کی گرفت سے بھی باہر؟

ایک دوست نے اپنا ذاتی مکان شروع کیا۔ خاندان کے بزرگوں کو بلایا ‘ ان سے پہلی اینٹ رکھوائی اور دُعا کروائی۔ برسوں کرائے پر دھکے کھانے کے بعد اپنے گھر کی خوشی عجیب ہوتی ہے۔ کرائے پر خواہ جتنا مرضی پیارا گھر مل جائے‘وہ سکون نہیں ملتا جو سیمنٹ کی دیواروں والے دو کمروں کے اپنے گھر میں ملتا ہے۔ میرے دوست کی خوشی دیدنی تھی لیکن یہ خوشی جلد ہی کافور ہو گئی۔ ابھی اس نے دیواریں کھڑی کی تھیں اور لینٹر ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ ایک دن موٹر سائیکل پر دو افراد آئے۔ بولے ‘آپ نے سڑ ک کنارے اینٹیں ‘ بجری اور ریت رکھی ہوئی ہے، اس کا کچھ حصہ سڑک پر آ گیا ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثرہو سکتی ہے۔ اسی طرح آپ نے لینٹر ڈالنے کے لئے جو مشینری منگوائی ہے‘ اس میں ڈیزل ڈلتا ہے‘اس سے دھواں خارج ہو گا جو نہ صرف علاقے کے رہائشیوں بلکہ ماحول کے لئے بھی نقصان دہ ہے لہٰذا آپ کو بھاری جرمانہ کیا جا رہا ہے۔ آپ فوری طور پر بلڈنگ میٹریل یہاںسے ہٹا لیں وگرنہ آپ کے مکان کی تعمیر روک دی جائے گی اور اگر آپ پھر بھی باز نہ آئے تو مکان بلڈوز کر دیا جائے گا۔ 
میرا دوست ایک عام شہری یعنی ''عوام‘‘ ہے جبکہ اس کے پاس جو اہلکار آئے وہ حکومت تھی۔ حکومت نے شہری کی غلطی کی نشاندہی کی‘ تنبیہ اور جرمانہ کیا ۔ بہت اچھا کیا۔ یہ حکومت کا فرض تھا جو اس نے ادا کیا۔ عوام جہاں قانون کی خلاف ورزی کریں‘ ان کی بازپرس ہونی چاہیے۔ یہ ملک اسی طرح سدھرے گا لیکن یہ کیا‘ اس ملک میں انہی حکمرانوں کے ہاتھوں قانون پر یکطرفہ عمل درآمد کیوں ہو رہا ہے؟آیئے دیکھتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے عوام کو جدید سفری سہولیات دینے کے لئے ٹھوکر سے ڈیرہ گجراں تک دو سو ارب روپے 
سے اورنج ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا۔ میڈیا‘ عوام اور سیاستدان چیختے چلاتے رہ گئے کہ بھائی پہلے تعلیم‘ صحت اور روزگار کے مسئلے تو حل کر دو‘ پھر یہ کھلونے بھی چلا لینا لیکن ان کی نہ سنی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ منصوبہ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے شہریوں کے لیے وبال جان بن گیا۔ گھنٹوں ٹریفک جام اور گردوغبار سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہونے لگا۔ ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس کے گزرنے کا راستہ تک نہ رہا۔ منصوبہ کے آغاز سے قبل نہ تو سڑک کی توسیع کی گئی اور نہ ہی متبادل کوئی ٹریفک کا نظام بنایا گیا۔ سڑک کے درمیان میٹرو ٹرین ٹریک اور اطراف میں غیرقانونی تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک کا نظام تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ۔ سکول، کالج جانے والے طلبہ و طالبات‘ دفاتر اور کاروباری مراکز پر جانے والے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا شروع ہو گیا ۔ ٹریفک جام اور گرد وغبار سے شہری شدید ذہنی اذیت سے دوچار رہنے لگے۔ لوگ دہائیاں دینے لگے کہ جتنا پیسہ اورنج ٹرین منصوبے پر خرچ کیا جارہا ہے اس سے صوبے میں اڑھائی ہزار سکول اور پانچ سو ہسپتال قائم کئے جا سکتے ہیں لیکن کوئی سننے والا ہی نہ تھا۔ یہاں ایک لمحے کو رکیں اور سوچیں کہ اس ملک یا صوبے میں دو متوازی حکومتیں یا دو الگ الگ نظام کیوں چل رہے ہیں‘ غریب کے لئے اور ‘ خود حکومت کے لئے اور؟کوئی آدمی گھر بنائے اور ذرا سی بجری سڑک پر آ جائے تو وہ تو تجاوزات بن جائے گی اور اس پر اسے سزا بھی ملے گی لیکن اگر حکمران اپنی تسکین کیلئے آدھا 
شہر اُدھیڑ ڈالیں‘ لوگوں کے بیس بیس سال پرانے کاروبار کے اڈے پل بھر میں ملیامیٹ کر دیں‘ گھروں‘ آشیانوں کو راتوں رات تہس نہس کر ڈالیں‘ انہیں ان کی دکانوں اور مکانوں کا جائز معاوضہ تک نہ دیں‘ جو گھر بچ جائیں ان کے مکین اپنے گھروں میں مقید ہو جائیں‘ ایمبولینسیں مریضوں تک اور مریض ہسپتالوں تک نہ پہنچ پائیں‘ لوگ دفتروں اور تعلیمی اداروں میں روزانہ تاخیر سے پہنچیں‘ یہ دھول چاٹ چاٹ کر سانس‘ دمے اور دماغی امراض تک کا شکار ہو جائیں اور حکومت ان کے لئے متبادل راستوں تک کا انتظام نہ کر سکے تو پھر ایسی حکومت اور ایسے حکمرانوں کو کیا سزا ملنی چاہیے ؟ان کی اس دانستہ قانونی خلاف ورزی کو کیا نام دیا جائے کہ یہ اقوام متحدہ کے ماہرین کی بھی نہیں سن رہے جو زبردستی علاقے خالی کرانے اور عمارتیں مسمار کرنے سے حکومت کو مسلسل روک رہے ہیں؟
موجودہ حکمران جماعت جب بھی اقتدار میں آئی ‘ غریب ‘نادار طبقہ اور چھوٹے کاروباری لوگ‘ملازمین کا روزگار اور ان کا چولہا اس کا خاص نشانہ بنے۔اس کی ایک اور آنکھوں دیکھی مثال ایک بیوہ خاتون کی ہے جسے متروکہ وقف املاک بورڈ نے ریکوری کے نام پر تین لاکھ روپے کرائے کا بل بھیج دیا۔ اس محکمے کے سابق چیئرمین آصف ہاشمی نے ایک قانون بنایا تھا جس کے تحت محکمے کے کسی فلیٹ میں مقیم کسی خاندان کے سربراہ کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کا کرایہ معاف ہو جاتا ہے۔ اس گھر کے مکینوں سے صرف دس روپے ٹوکن کرایہ وصول کیا جائے گا لیکن موجودہ حکومت نے آتے ہی چھوٹے کرایہ داروں کو لاکھوں کے بل بھیج دئیے ہیں۔ مذکورہ خاتون کا کوئی بھی بچہ کمانے کے قابل نہیں‘سب زیر تعلیم ہیں۔ ایسے میں محکمے کی طرف سے بار بار بے دخلی اور قانون کی خلاف ورزی کے نوٹس بھجوائے جا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں چیئرمین صدیق الفاروق کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوںنے ننکانہ صاحب میں ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضے کے حوالے سے یہ راز افشا کیا کہ ان زمینوں پر عرصہ دراز سے نون لیگی ارکان یا عہدیدار قابض ہیں۔ کیا وہ ان لیگیوں سے زمین کا قبضہ چھڑا پائے ہیں؟کون نہیں جانتا‘پنجاب میں زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے کے ہر دوسرے کیس میں حکمران جماعت کا کوئی نہ کوئی رکن یا عہدیدار ملوث ہوتا ہے اور اخبارات اس کے گواہ ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ دوست کا‘جو صحافی بھی رہے اور اب ایک نجی ادارے میں شعبہ اطلاعات کے سربراہ ہیں‘ جوہر ٹائون میں دس مرلے کا پلاٹ بیس برس سے صوبائی اسمبلی کے لیگی رکن کے قبضے میں ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی کی کمائی سے لیا گیا یہ پلاٹ تک نہیں چھڑا سکے تو پھر عام لوگوں کا کیا حال ہو رہا ہو گا؟بیوہ عورت آصف ہاشمی کو دعائیں دے رہی تھی لیکن آج اس کی دعائیں کون سنے گا؟ وہ عدالت جا سکتی ہے لیکن کیس لڑنے کے پیسے کہاں سے لائے گی۔سابق چیئرمین غالباً ملک سے باہر ہیں اور میری اطلاعات کے مطابق انہیں پاسپورٹ ہی جاری نہیں کیا جا رہا تاکہ کہیں وہ آ کر خود کو بے گناہ ہی ثابت نہ کر دیں۔بس ریڈ نوٹس بھجوائے جا رہے ہیں تاکہ انہیں دبائو میں رکھا جا سکے۔ بھائی‘ اگر وہ مجرم ہیں تو پھر انٹرپول کے ذریعے انہیں لا کر ڈاکٹر عاصم کی طرح کیس چلائو‘ تاکہ دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہو جائے۔ یہ صرف ایک صوبائی محکمے یا ایک بیوہ کی بات نہیں‘ کبھی لائف ٹائم ٹوکن ٹیکسوں اور کبھی ریکوریوں کے نام پر ہر محکمہ اپنی اپنی بساط کے مطابق لوگوں کا خون نچوڑ رہا ہے جبکہ خود لیگی ارکان اسمبلی قیادت کے قابو آتے ہیں‘ نہ ان پر قیادت کا کوئی حکم چلتا ہے۔کراچی کو بھی دیکھ لیں جہاں سندھ اسمبلی کا ہوسٹل کروڑوں روپے سے دوبارہ بن رہا ہے جبکہ گزشتہ رات اس کے بالکل سامنے بنے سینکڑوں کوارٹر راتوں رات گرا کر ملازمین کے خاندانوں کو بچوں عورتوں سمیت شدید سردی میں ٹھٹھرنے کیلئے سڑکوں پر پھینک دیا گیا۔ کیا یہی وہ جمہوریت تھی جس کی بحالی کے لئے قوم کو دن رات بھاشن سنائے جاتے تھے؟ کیا ہر حکمران‘ ہر افسر کا زور بیوائوں‘ ناداروں پر ہی چلتا ہے؟
حکمران قانون کا کلہاڑا غریب اور محروم طبقے پر چلائیں‘ ضرور چلائیں لیکن یہ سوچ لیں کہ ایسا صرف و ہ ہی نہیں کر رہے‘ ان کے پیش رو بھی اسی ڈگر پر چلتے تھے‘ وہ بھی امیروں کو چھوڑ کر غریبوں کے رزق‘ چھت اور جان کے درپے تھے‘ آج وہ سب کہاں ہیں اور آج اس بے بس طبقے سے چھتیں اور ان کا روزگار چھین کر اور انہیں سڑکوں پر دھکیل کر یہ حکمران کہاں جائیںگے؟ کیا یہ قدرت کی گرفت سے بھی باہرہو جائیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved