یوں تو 1947ء میں تقسیم ہند سے پہلے ہی شہرہ آفاق تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتا تھا، لیکن آزادی کے بعد اس کی بقا پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔ ادارے پر الزام ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور پاکستان کی تخلیق میں اس کا عمل دخل رہا، اس لیے کہ مسلم لیگ کے اکثر رہنمائوں نے علی گڑھ سے ہی اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا۔ اس کے باوجود گزشتہ 68 برسوں میں اے ایم یو کسی نہ کسی طرح اپنے وجود اور اقلیتی کردار کو بچاتے ہوئے تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ مگر اب اس ادارے کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ہندو قوم پرست بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں جن خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ اقلیت مخالف ہے، اب اس میں کوئی شک نہیں رہا۔ 140 سالہ قدیم اس تاریخی ادارے کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اپنا نظریاتی رنگ دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ یہی رائے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں بھی پیش کی گئی تھی جس کا اقلیتی کردار قومی کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات (نیشنل کمیشن فار مائی نارٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن) نے اپنے ایک جرأت مندانہ فیصلے کے ذریعے دو سال پہلے بحال کر دیا تھا۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب سب سے نیچے ہے۔ سکولوں میں داخل ہونے والے 100بچوں میں سے صرف 11 اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ ہندوئوں میں یہ تعداد 20 فیصد اور عیسائیوں میں31 فیصد ہے۔ اس صورت حال میں اگر ان دونوں اداروں کا اقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اس وقت ان اداروں میں 50 فیصد نشستیں مسلمان طلبہ کے لیے مختص ہوتی ہیں۔ مودی حکومت کے موقف میں تبدیلی آنے سے یہ اندیشہ پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ بی جے پی اور اس کی مربی جماعت آر ایس ایس کی دیرینہ خواہش کو پورا کرتے ہوئے وہ اقلیتوں کو حاصل آئینی حقوق ختم کرنا چاہتی ہے۔ مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے سیکولرزم کی دہائی دی جارہی ہے۔ چنانچہ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمی میں کہا: ''ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے‘‘۔ گویا جو سیکولرزم بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی 'قابل نفرت‘ اصطلاح کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
جس طرح یہ ایشو بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے اٹھایا جا رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی نے بہارکی انتخابی ہار سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ترقی کے بجائے وہ ایک بار پھر فرقہ وارانہ منافرت پر ہی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتی ہے۔ اتر پردیش میں 2017ء کے اوائل میں انتخابات ہوں گے۔ چند برس قبل اس وقت کے وائس چانسلر صبغت اللہ فاروقی نے مجھے بتایا تھا کہ بھارت کی گزشتہ کانگریس حکومت نے بھی اس ادارے کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ ان کے مطابق 535کروڑ روپے کی سالانہ گرانٹ میں سے 95 فیصد تنخواہوں وغیرہ پرصرف جاتی ہے اور ایک قلیل رقم ریسرچ اور دوسرے کاموں کے لیے بچتی ہے۔ اور تو اور گزشتہ حکومت نے کیرالا، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور بہار میں علی گڑھ یونیورسٹی کے کیمپس بنانے کا اعلان کیا جن کے اخراجات اسی گرانٹ سے پورے کرنا ہوں گے۔ ان علاقوں میں معیاری سکول اور کالج بنانے سے پہلے یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے مسلم طلبہ کہاں سے آئیں گے؟ اس لیے اکثر ذی شعور افراد اسے بھی یونیورسٹی کی شناخت پر خاموش حملہ قرار دے رہے ہیں۔
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ کے استاد مولوی مملوک علی کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لوٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروںکی بنیاد رکھی ۔ علما کے قتل عام سے پریشان مولانا قاسم نانوتوی نے 1866ء میں مشرقی جانب ضلع سہارنپور میں دیوبند کے مقام پر دارالعلوم قائم کیا، جو آج بھی اپنی شان کے ساتھ قائم ہے۔ اس کے دس سال بعد ان کے دوسرے شاگرد سر سید احمد خان نے دہلی کے جنوب میں 250کلومیٹر دور 1877ء میں برطانوی حکومت کی مدد سے ایک کالج کی بنیاد رکھی جس پر انہیں کفر کے فتوے سے بھی نوازا گیا۔
اب حکومت اور بی جے پی کے لیڈروں کی دلیل یہ ہے کہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ مسلمانوں نے قائم نہیں کیے، بلکہ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے معرض وجود میں آئے۔ ایک کالج کو یونیورسٹی میں اپ گریڈ کرنے کا آخر اورکون سا طریقہ ہے؟ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ بہرحال، علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔1967ء میں بھی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے ذریعے اس کا یہ کردار سلب کیا گیا
تھا جسے بڑی جد وجہد کے بعد 1981ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے بحال کیا۔ اسی پارلیمانی ایکٹ میں 'خامی‘ نکالتے ہوئے 20 اکتوبر 2005ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 2004ء میں اپنی اقلیتی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے میڈیکل کالج کے پوسٹ گریجوایٹ کورس میں 50 فیصد نشستیں مسلم طلبہ کے لیے محفوظ کردی تھیں جس کی 25 فروری 2005ء کو فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے منظوری بھی دے دی تھی۔ لیکن یونیورسٹی کے اس فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں جو دلیلیں دیں وہ آئین سے میل نہیں کھاتیں۔ ہائی کورٹ نے 1967ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو اس میں ترمیم کا کوئی حق نہیں جبکہ آئین کی رُو سے پارلیمان سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کی بنیاد کو تبدیل کرسکتی ہے۔ آئین کے ساتویں شیڈول کی انٹری نمبر63 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔ اسی اختیارکو استعمال کرکے حکومت نے1981ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ پاس کیا تھا، جس میں پوری صراحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ ادارہ مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی ترقی کے لیے وجود میں آیا ہے۔ حکومتوں کے بدل جانے سے آئین اور اس کی روح تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تمام حکومتوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مختلف بلوں اور قوانین کے ذریعے توثیق کی۔
اپنے اس اقدام کے ذریعے موجودہ حکومت جو پیغام اقلیتوں کو دے رہی ہے وہ بہرصورت انتہائی افسوسناک ہے اور اس نے اقلیتوں میں اضطراب پیدا کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میںاٹارنی جنرل سے یہ چبتھا ہوا سوال کیا تھا کہ ''کیا حکومت کی تبدیلی سے قانونی موقف میں بھی تبدیلی آسکتی ہے؟‘‘ اٹارنی جنرل کا جواب تھا: ''حکومت نے اس غلطی کی تصحیح کرلی ہے‘‘۔ اس جواب پر بنچ نے اپنی برہمی کا اظہارکیا کیونکہ یہ جواب کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ مثلاً کیا حکومت تبدیل ہوجانے سے کوئی قانون بھی تبدیل ہوجاتا ہے؟ حکومت نے 1981ء میں جو ترمیمی ایکٹ پارلیمان میں پاس کیا تھاکیا اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو ایک دوسری حکومت سپریم کورٹ میں غلط قرار دے سکتی ہے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ عدالت میں سرکاری وکیل کے دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس سیکولرزم کی دہائی آر ایس ایس اور بی جے پی دے رہی ہے وہ اس کا اپنا ہے، وہ آئین پر مبنی سیکولرزم نہیں ہے۔
موجودہ حکومت آئین کی دفعہ 29 اور 30 جس کے تحت اقلیتوں کو اپنی شناخت کے ساتھ رہنے کا حق دیا گیا ہے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس صورت میں لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کی دستوری حیثیت ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جامعہ ملیہ کا اقلیتی کردار نیشنل کمیشن برائے اقلیتی تعلیم نے بحال کیا تھا۔ یہ کمیشن مرکزی حکومت کا قائم کردہ ایک خود مختار اور آئینی ادارہ ہے، اس کے فیصلوںکو رد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اب یہ ترکیب نکالی جا رہی ہے کہ ایک قانون لاکر اسے بے اثر بنایا جائے۔ وزارت قانون نے اس بارے میں جو تجویز پیش کی ہے اس کے مطابق اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے، یعنی اگر اقلیتی تعلیمی کمیشن کسی ادارے کو اقلیتی درجہ دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے رد کیا جا سکے گا۔ یو پی اے حکومت نے یہ کمیشن اس لیے قائم کیا تھا کہ اقلیتوںکے تعلیمی اداروںکو اقلیتی درجہ دینے میں صوبائی حکومتیں اور متعلقہ محکمے پریشان کریں تو اس کا ازالہ کیا جائے۔