فراز نے کہا تھا؎
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
الیکٹرانک میڈیا کو بریکنگ نیوز درکار ہوتی ہے۔ تین چار دِن ہوتے ہیں، لاہور میں نواب زادہ نصراللہ خاں کی قیام گاہ کا انہدام بریکنگ نیوز بن گئی۔ ''اورنج لائن ٹرین‘‘ کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اور نکتے کا اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ۔ نواب زادہ صاحب کے ارادت مندوں اور اِن کی جمہوری جدوجہد کے قدردانوں کو گہرے صدمے نے آلیا تھا۔
لاہور ریلوے سٹیشن سے پیدل مسافت پر، 32 نکلسن روڈ بلاشبہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا عظیم الشان حوالہ تھی۔ دو کمروں اور ایک ہال پر مشتمل، چار ساڑھے چار مرلے پر محیط یہ عمارت فوجی آمریتوں اور سول حکومتوں کے خلاف جدوجہد کے کتنے ہی رازوں کی امین تھی۔ اس کا ایک کمرہ، نواب زادہ صاحب کا بیڈ روم بھی تھا اور ڈرائنگ روم بھی۔ سیاسی اتحادوں کی تشکیل اور سیاسی حکمتِ عملی کی ترتیب کے لیے ''کلوز ڈور میٹنگز‘‘ بھی یہیں ہوتیں، اخبار نویسوں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ گپ شپ کی محفلیں بھی یہیں جمتیں۔ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے اس زمیندار کی سیاست ہی نہیں، دیگر مشاغل بھی روایتی زمینداروں سے مختلف تھے۔ اُنہوں نے اخلاقی آلائشوں سے پاک صاف ستھری زندگی گزاری۔ نماز روزے کا پابندی سے اہتمام کیا۔ صبح جلد بیدار ہو جاتے، نماز کے بعد سیر اور ہلکے سے ناشتے کے بعد درجن بھر انگریزی اور اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ ایک بجے کھانا کھاتے جس میں مچھلی، سبزی اور تازہ پھل ضرور ہوتا، ایک آدھ چمچ شہد کا بھی لے لیتے۔ نمازِ ظہر کے بعد لائٹ آف کر کے قیلولہ کے لیے لیٹ جاتے۔ باہر ان کے دروازے کے ساتھ کرسی رکھ دی جاتی۔ چار، پونے چار بجے لائٹ آن ہوتی، نواب زادہ صاحب نمازِ عصر پڑھتے۔ دروازے سے کرسی ہٹا دی جاتی۔ سیاسی کارکن یا اخبار نویس زیادہ تر شام ہی کو آتے۔ نواب زادہ صاحب اسے ''شامِ غریباں‘‘ کا نام دیتے۔ یہاں برصغیر کی تحریکِ آزادی کا ذکر ہوتا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بھولے بسرے واقعات کی یاد تازہ ہوتی۔ رفتگاں کی یاد پر نواب زادہ صاحب کی آنکھوں میں دھند سی چھا جاتی۔ موقع محل کے مطابق کوئی شعر بھی پڑھتے۔ کوئی لطیفہ بھی ہو جاتا اور ظاہر ہے، اس دوران وہ اپنے ہمدم و دمساز حقے کے کش بھی لگاتے رہتے۔ پاک دِل و پاک باز شخص کو تعیشات سے پاک زندگی گزارنے کا صلہ قدرت نے یوں دیا کہ بڑے لوگوں والے امراض سے محفوظ رہے۔ بلڈ پریشر کی شکایت ہوئی، نہ ذیابیطس سے واسطہ پڑا۔ ذہنی تفکرات بھی ان امراض کا سبب بن جاتے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ اور پاکستان کے حالات کا نواب زادہ بھی گہرا اثر لیتے۔ ع
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں
لیکن اپنے رب پر بے پناہ ایمان رکھنے والے نواب زادہ ان صدموں کو ہنسی خوشی برداشت کرتے۔ ایسے میں قرآن و سنت اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کام آتا، اقبال کے اشعار بھی حوصلہ بڑھاتے۔ بدترین حالات میں بھی اپنے حوصلوں کو بلند رکھنے اور ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے والے شخص کو دیکھ کر یوں لگتا، گوشت پوست کے پیکر میں ایک فولادی روح کارفرما ہے۔
نواب زادہ صاحب کوئی 35 سال یہاںکرائے دار کے طور پر مقیم رہے۔ (آخری برسوں میں مالک مکان کی طرف سے بے دخلی کے مقدمے کا سامنا بھی رہا)۔ کہتے ہیں، مکان مکینوں سے ہوتے ہیں۔ نواب زادہ صاحب رُخصت ہوئے تو یہ ڈیرہ بھی اُجڑ گیا۔ اولاد چاہتی تو اِسے خرید کر اپنے جلیل القدر والد کی جمہوری جدوجہد کی یادگار کے طور پر محفوظ کر لیتی‘ لیکن وہ تو نواب زادہ صاحب کی قیمتی ڈائریوں کی حفاظت بھی نہ کر سکی‘ جو پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ کا گراں قدر اور قابل اعتماد حوالہ بن جاتیں۔ اِس کے لیے اب 32 نکلسن روڈ کا کرایہ بھی ایک بوجھ تھا۔ مالک مکان کو قبضہ واپس ملا، تو اس نے یہاں شو مارکیٹ تعمیر کر دی۔ نواب زادہ صاحب کی تاریخی یادگارکے انہدام کا نوحہ پڑھنے (اور اس پر اورنج لائن کو موردِ الزام ٹھہرانے والے) ہمارے دوستوں نے شاید برسوں سے اُدھر کا رُخ نہیں کیا تھا۔ ورنہ انہیں علم ہوتا کہ یہ ''المیہ‘‘ تو برسوں پہلے ہو چکا تھا۔ یہ سارا علاقہ کمرشل ہو گیا تھا۔ نواب زادہ صاحب کی یادگار کا نشان بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔
نواب زادہ صاحب کی سیاسی جدوجہد، ایک طویل مقالے، ایک ضخیم کتاب کا موضوع ہے۔ تقسیم سے قبل سید عطااللہ شاہ بخاری کی مجلسِ احرار ان کی پہلی سیاسی جماعت تھی، غریب اور نچلے متوسط طبقے کے سیاسی کارکنوں کی جماعت، انگریز سے آزادی جن کے لیے جزوِ ایمان تھی اور اس راہ میں انہوں نے ایثار و استقامت کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ ''احرار‘‘ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حامی نہیں تھی؛ البتہ نواب زادہ کا شمار احرار کے اِن لوگوں میں ہوتا تھا‘ جو مطالبہ پاکستان سے ہمدردی رکھتے تھے اور جنہوں نے کبھی مسلم لیگ یا
قائداعظم کے خلاف زبان نہ کھولی۔ 14 اگست 1947ء کے بعد یہ نیا ملک تھا اور نئی سیاست۔ نواب زادہ نے مسلم لیگ جوائن کی اور اس کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی جیتا‘ لیکن حکمران جماعت سے وابستگی اِن کے مزاج کو سازگار نہ تھی۔ حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ سے الگ ہو کر عوامی مسلم لیگ قائم کی تو نواب زادہ ان کے ساتھ تھے۔ (کچھ عرصے بعد یہ عوامی لیگ ہو گئی)۔ ایک دو مختصر وقفوں کے سوا، انہوں نے ساری عمر اپوزیشن کی سیاست کی۔ 1965ء میں شیخ مجیب کے 6 نکات پر اختلافات کے باعث عوامی لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو نواب زادہ کا دھڑا مشرقی پاکستان میں بھی اچھا خاصا تھا‘ جسے انہوں نے 1969ء میں چار جماعتوں کے ادغام سے وجود میں آنے والی پی ڈی پی کی نذر کر دیا۔ ان کی توجہ اپنی جماعت سے زیادہ سیاسی اتحادوں کی تشکیل پر رہی۔ فوجی آمریتوں کے علاوہ سیاسی حکومتوں کے خلاف بھی وہ اس کارِ خیر میں مصروف رہے اور بابائے جمہوریت قرار پائے۔ بعض ستم ظریفوں کے خیال میں وہ مارشل لاء کے دوران جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے، جمہوریت بحال ہوتی تو سیاسی حکومتوں کے خلاف ان کی جدوجہد نیا مارشل لا لے آتی۔
ان کے سیاسی مسلک میں سیاست سے ریٹائرمنٹ کا تصور بھی نہیں تھا۔ وہ اِسے ہول ٹائم اور ہول لائف ''جاب‘‘ قرار دیتے۔ آخری برسوں میں دِل کی دھڑکنیں بے ترتیب رہنے لگیں تو ڈاکٹر وں نے ''پیس میکر‘‘ لگا دیا اور ساتھ ہی مناسب آرام کرنے کی تلقین، لیکن وہ تو جدوجہد میں قرار پاتے۔ اگست (2003ء) کے اواخر میں وہ اپنی زندگی کے اہم ترین سیاسی مشن پر روانہ ہوئے۔ اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات کو سال بھر ہونے کو تھا لیکن ڈکٹیٹر، سویلینز کو اب بھی اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنا چاہتا تھا۔ وزیر اعظم جمالی کو اِسے Boss کہنے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی۔ وہ 12 اکتوبر 1999ء کے غیر آئینی اقدام اور ایل ایف او کو آئینی تحفظ دینے کے علاوہ 58/2B سمیت 8ویں ترمیم کے تمام صوابدیدی اختیارات چاہتا تھا، جنہیں 1997ء میں پارلیمنٹ 13ویں ترمیم کے ذریعے ختم کر چکی تھی۔ نواب زادہ صاحب اس کے خلاف طاقتور مزاحمت کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ دونوں پاپولر لیڈر ملک سے باہر تھے۔ مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے وہ اِن سے ملاقات ضروری سمجھتے تھے۔ لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ان کی ملاقات بہت مفید رہی تھی اور اب وہ جلا وطن وزیر اعظم سے تبادلۂ خیال کے لیے جدہ میں تھے۔ پُرتکلف لنچ اور ڈنر کے علاوہ، میاں صاحب سے ان کی دو خصوصی ملاقاتیں بھی ہوئیں، دوسری ملاقات بہت طویل تھی۔ لندن اور جدہ میں ان ملاقاتوں کا حاصل 14 نکاتی اعلامیہ تھا‘ جس کا اعلان وہ پاکستان میں اے آر ڈی کے اجلاس کے بعد مشرف کے خلاف تحریک کے آغاز کے طور پر کرنا چاہتے تھے۔ لندن میں اپنے نیازمندوں کے اصرار پر وہ طبی معائنے پر رضامند ہوئے تو دِل، جگر، معدے اور ہڈیوں کے ماہرین نے انہیں مزید 15سال کے لیے فِٹ قرار دیا تھا (اس کے لیے مناسب آرام بھی ضروری تھا) لیکن پاکستان واپسی پر وہ ایک بار پھر جوانوں کے سے جذبے سے سرگرم ہو گئے۔ اب بوڑھے دِل نے سرکشی کی راہ اختیار کر لی اور مزید ساتھ دینے سے انکار دیا۔ جدہ میں تین روزہ قیام کے دوران نواب زادہ صاحب نے اس خاکسار کے ساتھ اسی شفقت کا مظاہرہ کیا، جس سے ہم لاہور میں لطف اندوز ہوتے تھے۔ جدہ ایئرپورٹ پر وقتِ رخصت اس تازہ مہم کی کامیابی کے حوالے سے استفسار پر، اُنہوں نے یہ شعر پڑھ دیا؎
اپنی قسمت میں جو لکھا ہے یہ ہارا ہوا دِن
چلیے اِک اور گزاریں گے، گزارا ہوا دِن