این ڈی ٹی وی پر گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں ایک براہِ راست انٹر ویو کے دوران نریندر مودی سے جب 26 نومبر 2008ء کی شام ممبئی میں ہونے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اینکر نے یہ پوچھا کہ اگر آج آپ بھارت کے وزیر اعظم ہوتے تو ان حملوں کے بدلے پاکستان سے کیا کرتے؟ تو مودی نے فوراًکہا: ''میں وہی کرتا جو ابھی حال ہی میں گودھرا ٹرین واقعہ کے بدلے میں گجرات کے دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں سے بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات کر چکا ہوں‘‘۔ اور اس میں تو اب سوچنے یا شک کی بات ہی نہیں کہ اس وقت بھارت کے پردھان منتری کی کرسی پر بیٹھے نریندر مودی نے پٹھان کوٹ کے بدلے میں کیا کیا نہ سوچ رکھا ہو گا۔ لیکن اس بار اس نے اپنے دل کی بات خود کرنے کی بجائے اپنے ایک وزیر کی زبان سے ادا کر وا دی۔ بھارت کے وزیر دفاع نے پٹھان کوٹ واقعہ پر دو بار ہندی میں اور تیسری بار انگریزی میں پاکستان کو کھلے عام دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اب جو کچھ کرے گا اس کا نتیجہ ایک سال میں سب کو دکھائی دے گا اور اتنا درد دیں گے کہ تڑپا کر رکھ دیں گے۔
میں یہ کیوں لکھ رہا ہوں کہ نریندر مودی نے اپنے الفاظ، اپنے ارادے، اپنا انتقام اپنے وزیر دفاع کی زبان میں ڈال کر دنیا بھر کو آگاہ کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنے وزیر دفاع کی پہلی تقریر پر ہی اسے روک دیتے، لیکن اس بیان کی تردید تو ایک طرف اسے دوبارہ یا سہ بارہ کہنے سے بھی نہیں روکا، اس لیے کسی شک کے بغیر ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ یہ دھمکیاں جو نریندر مودی کے وزیر دفاع نے تین بار تین مختلف مواقع پر دہرائیں یہ دراصل بھارت سرکار کا نئی دہلی سے جاری ہونے والا اعلامیہ ہے۔ نریندر مودی نے جو سوچا اور اس کے وزیر دفاع نے جو کہا، اسے کر کے بھی دکھا دیا۔ بقول ان کے ابھی تو یہ ابتدا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایسا درد دیںگے کہ تڑپا کر رکھ دیںگے۔
بھارت سرکار کی جانب سے دھمکیاں دینے سے اب تک صرف پندرہ دنوں میں کوئٹہ، مردان، جمرود، کارخانو مارکیٹ اور پشاور میں اس کے سدھائے ہوئے دہشت گردوں کے ذریعے 76 پاکستانی سکیورٹی جوانوں اور شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اگر کسی میں سوچنے کی اہلیت ہے تو وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ جس وزیر اعظم کی خون پینے کی پیاس گجرات کے دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے خون سے نہیں بجھی، وہ اور اس کا وزیر دفاع مزید کس حد تک جا سکتے ہیں؟ ٹیپو سلطان نے یہ جو مشہور فقرہ کہا تھا کہ ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اس کے مخاطَب کون تھے؟ ٹیپو سلطان کو دنیا سے گئے زمانہ گزر گیا، لیکن وہ اپنے اس فقرے کی وجہ سے نصاب کی کتابوں اورکہاوتوں میں زندہ ہے۔ اگروہ گیدڑ بن کر سو سال جی لیتا تو آج اس کا نام جاننے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ ہر حملے کے بعد پاکستان کے حکمرانوںکے مذمتی اور ثبوت مل جانے کے بیانات سنتے ہوئے تھپڑ کھانے کے بعد ''اِب کے مار‘‘ والی کہانی بار بار یاد آنے لگتی ہے۔
آرمی پبلک سکول سے مہران بیس، کامرہ، جی ایچ کیو، بڈ بیر، کراچی اور بلوچستان میں ہمارے سیکڑوں جوانوں کی شہادت اور کروڑوں ڈالر مالیت کے اورین اور اواکس طیارے تباہ کرانے کے بعد ہم جھولیوں میں ثبوت لیے دنیا کے سامنے واویلا کیے جا رہے ہیں کہ دیکھو ان میں بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں، یہ دیکھو ہمارے پاس اس بات کے پورے ثبوت مو جود ہیں، لیکن کوئی ہمارے ثبوتوں کی طرف نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اگر بھارت کے کسی حصے میں کوئی کریکر بھی پھٹ جائے تو دنیا بھر کے لوگ پاکستان کو نیزوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم اس قدر غیر اہم ہو چکے ہیں؟ آخر ہم اس قدر بے بس، لاچار اور لاوارث ہوکر کیوں رہ گئے ہیں؟ لوگ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم اب مار کھانے کے لیے ہی رہ گئے ہیں؟ کیا پاکستان کی مائوں نے اب وہ بچے جننا بند کر دیے ہیں جو بھارت کو بھی وہی درد اور اذیت دیں جو وہ ہمیں دے رہا ہے؟کیا پاکستان کی مائیں اب صرف اپنے بچوں کے کٹنے پر ان کے گولیوں سے چھلنی سینوں پر لپٹ لپٹ کر آہ و بکا کرنے کے لیے ہی رہ گئی ہیں؟ کیا اب ان کے دودھ سے وہ تاثیر بھی چھین لی گئی ہے جو اپنے قاتلوں کا قبر تک پیچھا کرنے کا اثر رکھتی ہے؟ کیا ہماری مائیں کبھی آرمی پبلک سکول، کبھی نادرا آفس، کبھی پولیو سنٹر اورکبھی خاصہ دار فورس کی چیک پوسٹ پر دشمن کے ہاتھوں مار ے جانے والے اپنے جگر گوشوں کی لاشوں پر ماتم کرنے کے لیے رہ گئی ہیں؟ کیا بوڑھے باپ اپنی جوان اولادوں کی لاشوں پر اب صرف دھاڑیں مار مار کر رونے کے لیے زندہ ہیں؟
ٹیلیویژن کی سکرینوں پر جب سے پردہ دار پشتون مائوں کو آرمی پبلک سکول پشاور، نادرا آفس مردان اور باچا خان یونیورسٹی پشاور کے باہر اپنی اولادوں کے لیے ننگے سر بھاگتے اور جگہ جگہ گرتے ہوئے دیکھا ہے، مجھے ٹیپو سلطان پر غصہ آنے لگا ہے کہ اس نے یہ بات کیوں کہی کہ ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔ اگر کبھی ٹیپو سلطان کی روح کا پاکستان سے گزر ہو تو وہ دیکھے کہ گیدڑ سو سال کی زندگی کس مزے سے گزار رہے ہیں؟ ادھر دھماکہ ہوا، اس میں کبھی دس کبھی تیس اور کبھی سو بچے بچیاں، مرد و خواتین جل کر بھسم ہوئیں، سارا دن شور شرابا، رونا پیٹنا اور چیخ و پکار ہوئی اور اگلے دن پھر وہی سیر سپاٹا اور موج میلہ۔
ہم سے بہتر تو ممبئی دہشت گردی پولیس کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے کی بیوہ کویتا کرکرے نکلی، جس نے 26/11 کو اپنے شوہر کی بہادری کے صلے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی طرف سے دیا جانے والا ایوارڈ وصول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ قاتلوں سے ایوارڈ لینا اپنے آنجہانی شوہرکی چتا سے دھوکے کے برابر ہوگا۔ایسا لگا کہ 'سیتا‘ نے بھارت کے 'راونوں‘ اور اس کے ساتھیوں کو دنیا بھر کے سامنے ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔لیکن ایک ہم ہیں کہ ان کی دی ہوئی گلابی پگڑیاں، سلک کی ساڑھیاں اور بنارسی سوٹ عقیدت و احترام کے ساتھ سینے سے لگاتے ہیں۔ اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ ہم قاتل کو قاتل کہنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ جب ہم خود ہی اپنے قاتل کی پردہ پوشی کریںگے تو دنیا ہماری بات کیسے سنے گی، کیسے ہمارے ساتھ چلے گی؟ لوگ دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں کہ ہمارے اینکرز کا ایک مخصوص طبقہ ہر حادثے کے بعد کس طرح چالاکی سے ''ہمارا ہی کیا دھرا‘‘ کہہ کر دشمن کی صفائیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ وہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم نے بھی تو ان کے ہاں یہ کیا تھا، وہ کیا تھا۔ اگر کبھی ہمارے ان اینکرز اور وزارت خارجہ یا داخلہ کو فرصت ملے یا یوں کہہ لیں کہ انہیں اجازت ملے تو وہ ہندوستان کی ریا ست جے پور میں 20 جنوری 2013ء کو بھارت کے وزیر داخلہ سُشیل کمار شندے کی وہ تقریر ضرور سن لیں جس میں انہوں نے بھارتی دہشت گردوں کو ننگا کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس، ملیگائوں اور مکہ مسجد سمیت ہندوستان کی مختلف جگہوں پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی اصل ذمہ دار بھارتیہ جنتا پارٹی ہے، کیونکہ یہ سب بم دھماکے جنتا پارٹی اور اس سے منسلک آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے انتہا پسندوں کی جانب سے کیے گئے تھے، جن کے بھارت سرکار کے پاس مکمل ثبوت ہیں۔ حضور! یہ ثبوت کوئی اور نہیں بھارت کا اس وقت کا وزیر داخلہ دے رہا تھا!