تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-01-2016

State of Denial

برادرِ بزرگ کا کہنا ہے : ہم State of denialمیں ہیں اور اپنی غلطیاں ماننے کو تیار نہیں ۔ ہم نے اچھے برے طالبان کی تفریق پیدا کی، جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں ۔ اس خطے میں جو خونیں کھیل جاری ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جہادی تیار کر کے دنیا کے ہر کونے میں بھجوائے۔ ان کے کارناموں کو ہم رومانوی اندا ز میں بیان کرتے رہے ۔ یہ پراکسی جنگیں دنیا کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی واپس ہمارے گھروں تک پہنچ گئیں۔ پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے اعلان پر جس طرح بھارتی نوجوان تالیاں بجاتے ہیں ، اسی طرح ہم لال قلع فتح کرنے کے اعلان پر بجایا کرتے تھے۔ دونوں طرف کے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے ایک دوسرے کے خلاف آگ بھڑکائی اور لگتا ایسا ہے کہ یہ جنگ کا باعث بنیں گے ۔ (ہماری غلطیوں کی وجہ سے ) افغان خود کو بھارت کے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں ''ہم یہ بات کبھی نہیں مانیں گے کہ جب تک ہمارے ہمسایوں میں امن قائم نہیں ہوگا ، ہمارے ہاں بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔ آپ دہشت گردوں کو اپنے رومانوی کالموں کا حصہ بناتے رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والی پراکسی جنگ (افغان جہاد) ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ہماری سرزمین پہ لوٹ آئی ہے ۔ 
برادر بزرگ نے پاکستان اور بھار ت کو ایک ہی ترازو میں تول دیا ہے ۔ ''وہ پاکستان ٹکڑے کرنے پر تالیاں بجاتے ہیں اور ہم لال قلعہ فتح کرنے پر۔‘‘ اپنی قومی حماقتوں پر آواز بلند کرنا بہت بڑی بات ہے لیکن یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔بھارت
اورپاکستان میں آج جو کشیدگی اور پراکسی جنگوں کا ماحول ہے ، پاکستان سے بڑھ کرکیا بھارت اس کا ذمہ دار نہیں؟ 1948ء میں کشمیراوّلین وجہ نزاع تھی۔ یہ تنازع اقوامِ متحدہ کو حل کرنا تھا۔ برادرِ بزرگ سرائیکیوں سمیت ملک کے مظلوم اور پسماندہ طبقات کی آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔کشمیریوں سے اپنی قسمت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق کس نے چھینا؟ پاکستان نواز جہادی گروپوں کی کارروائیاں غلط تھیں لیکن بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی پرجوش تحریک کیوں چلتی رہی؟کیا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی ایسی کوئی تحریک موجود ہے ؟ کیا یہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہیں ؟ 
بھارتی ضمیر پر بوجھ ہے ۔22جولائی 2014ء کو ٹائمز آف انڈیا نے ایک رپورٹ شائع کی ۔ 2009ء سے 2013ء کے پانچ برسوں میںسالانہ 120بھارتی جوان اور افسر خود کشیاں کرتے رہے ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے دستبردار ہوتے ہوئے مسئلہء کشمیر کے غیر معمولی اور غیر مقبول حل تجویز کیے ، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟نو گیارہ کے بعد پاکستان نے کشمیر میں عسکریت سے مکمل دستبرداری اختیار کی مگر ڈھا ک کے تین پات۔ 2013ء کی انتخابی مہم میں نون لیگ ، تحریکِ انصاف ، ایم کیو ایم ، جمعیت علمائِ اسلام ، جماعتِ اسلامی سمیت، کسی پارٹی نے بھی بھارت مخالف جذبات ابھارنے کی کوئی کوشش نہیں ۔ 2014ء میں نریندر مودی کی انتخابی مہم کن بنیادوں پر چلائی گئی ؟ کیا ریٹنگ کی خاطر پاکستانی میڈیا وہی رویہ اختیار کرتا ہے ، جو بھارتی میڈیا کا ہے ؟ وہاں نریندر مودی اقتدا رمیںہیں ۔ یہاں حافظ سعید یا مولانا مسعود اظہر کے الیکشن جیتنے کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ پاکستان کو چھوڑیے، چین جیسے طاقتور ہمسایے اور نیپال جیسے کمزور ممالک کے ساتھ بھارتی روّیہ کیا ہے ۔ 
افغان جہاد میں پاکستانی شمولیت کا سبب کیا جنرل ضیاء الحق کا جہادی جنون تھا؟ عالمی جنگوں میں پرجوش شرکت کے علاوہ پراکسی جنگوں، ہمسایہ ممالک پر براہِ راست حملوں اور اشتراکی ''انقلابیوں ‘‘ کی پشت پناہی تک سوویت یونین جارحیت کی ایک طویل تاریخ رکھتاتھا ۔ اپنے ہمسایہ ممالک میں کٹھ پتلی حکومتوں کا قیام وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔1952ء میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف کینیا میں بغاوت، 1953ء میں کیوبا کا انقلاب، 1954میں فرانسیسی حکمرانوں کے خلاف الجیرین انقلاب،1958ء کا تائیوان چین تنازعہ، 1961ء میں کیوبن بغاوت، 1963ء میں یمن کی ایڈن ایمرجنسی، 1964ء میں کمبوڈیا کی خانہ جنگی،1966ء کی کورین جنگ، 1969ء کی سعودی یمن جنگ ، 1978ء میں افغانستان کا ثور انقلاب ، 1979ء میں چین ویت نام جنگ سمیت، دنیا بھر میں پراکسی جنگوں، انقلابوں اور بغاوتوں میں اس نے بھرپور حصہ لیا۔ ایک صدی میں دو مرتبہ یوکرائن کو تہ تیغ کرنے اور افغانستان کی دس سالہ جنگ سمیت اس نے دنیا بھر کے تحفظات نظر انداز کرتے ہوئے بھرپور جنگیں لڑیں ۔ پاکستان میں اس نے اپنے حامی انقلابیوں کے ٹولے پالے ۔اے این پی ان دنوں مستقل طور پر سوویت گود میں براجمان ہوا کرتی تھی ۔ پاکستانی ادیبوں کی ایک لمبی فہرست تھی ، جو اشتراکی انقلاب کا گیت گا رہی تھی ۔ دنیا بھر میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے سوویت یونین نے سرمایہ اور فوجی امداد فراہم کی۔ یہ وہ حالات تھے ، جن میں پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں شمولیت اختیار کی ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی اور طالبان برسرِ اقتدار آئے۔ عالمی حالات بدل چکے تھے ۔ ''امیر المومنین ‘‘ ملا عمر نے ان کا ادراک نہ کیا۔ القاعدہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کو بطور تربیتی کیمپ استعمال کرتی رہی ۔
دو عالمی طاقتوں کو افغانستان پر حملہ کرنے سے روکنا پاکستان کے بس کی بات نہیں تھی ۔ خطے اور عالمی حالات میں بہ امر مجبوری اس نے اپنی حکمتِ عملی ترتیب دی اور اس حال میں ترتیب دی کہ اس کی آدھی فوج ہمیشہ مشرقی محاذ پر ڈٹی ہوئی تھی ۔پاکستان نے بہت سی غلطیاں کیں لیکن افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی آمد کے بعد جو چیلنج اسے درپیش تھا، طنزیہ پیرائے میں گفتگو کرنے والے ہمارے دانشور بھائی اگر حکومت میں ہوتے تو یہی کچھ کرتے ۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر ، دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ 2001ء میں پاکستان کے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہم امریکی جنگ میں شریک ہو گئے ، وہ حالات کی سنگینی کاذرّہ برابر ادراک نہیں رکھتے۔ اسی طرح جو ہستیاں یہ فرماتی ہیں کہ پاکستان کو افغان جہاد سے لاتعلق رہنا چاہیے تھا‘ان سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے ۔ 
آزادی کے ایک صدی بعد شمال اور جنوب کی امریکی ریاستوں میں بدترین خانہ جنگی ہوئی ۔ سات لاکھ امریکی ایک دوسرے کے ہاتھ قتل ہوئے۔ آج وہ عالمی طاقت ہیں ۔آزادی کے محض سات دہائیوں بعد پاکستان نہ صرف اپنے مغرب میں دو عالمی طاقتوں کی بدترین جنگوں کے اثرات سے بچ نکلاہے بلکہ وہ مستحکم ہے ۔ مشرق میں خود سے چھ گنا بڑی سپاہ اور فوجی بجٹ والے بھارت کے مقابل وہ ڈٹ کر کھڑا ہے ۔ وہ قائم و دائم ہے ۔اپنی غلطیوں پر تنقید بجالیکن اسے اس خود مذمتی تک دراز نہ ہونا چاہیے جو نوجوان نسل کو مایوسی کی موت سلا دے ۔ ابھی ہمیں ایک طویل سفر کرنا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved