پاکستان کی موجودہ مشکلات اوربہتر مستقبل کی امید کا تعلق ایک وسیع تر لیکن پیچیدہ خطے سے بنتاہے۔ ہماری داخلی سکیورٹی کسی ایک حکومت کے دور میں تشکیل پانے والی مخصوص پالیسیوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔بے شک ریاست کے وسائل لوٹنے ، بدانتظامی ، ناقص سکیورٹی اور غلط خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا۔ ان عوامل کو نظرانداز کرنا یا معمولی سمجھنا ممکن نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی ایک علاقائی اور نظریاتی ایشو ہے، اس کا تعلق وسائل کی کمی بیشی سے نہیں۔ اس نے اسی خطے سے جنم لیا تھا، چنانچہ اس کا اثر دنیا کے دیگر خطوںسے بڑھ کر اسی خطے پر نمایاں ہے، اگرچہ بسا اوقات اس سے پیدا ہونے والے بھونچال کا ارتعاش مغربی ممالک کا رخ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ علاقائی ایشو کیوں ہے اور ہمیں اس کے حل کے لیے خطے کے عوامل سے جنم لینے والے محرکات کی کیوں ضرورت ہے؟اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس کا حل جہاں مرضی دکھائی دے، اس کا ہدف اس خطے کی ریاستیں ہی ہیں۔ دہشت گردی ان ریاستوں کوتحلیل کرتے ہوئے وسیع تر خلافت کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہے۔ بادی النظر میںیہ اُس وقت فروغ پذیر ہوئی جب سوویت یونین نے افغانستان کا رخ کیا۔ اس وقت مغرب ، پاکستان اورہر چھوٹے بڑے ایکٹر نے افغان ریاست پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنا وزن مجاہدین کے پلڑے میں ڈالا۔ اس نام نہاد جہاد کے نتیجے میں جب سوویت افواج کا انخلا ہوا تو ریاست کی بنیاد مضبوط نہیں ہوئی، بلکہ ملک کے ادارے تباہ ہوگئے اور شورش اور خانہ جنگی کے ملبے پر ریاست کی تعمیر ِ نو نہ ہو سکی۔ بیسویں صدی کی دو مہیب ترین عسکری طاقتوں کی مداخلت سے ایک ریاست کے ارتقائی عمل کوسبوتاژ کرنا انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔
ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والی عرب ریاستیںعرب قومیت، سوشلزم، سماجی بحالی اور جمہوری اقدار کی جدت کی طرف قدم نہ بڑھا سکیں۔ وہ ترک خلافت سے باہر تو نکل آئیں لیکن وہاں کچھ شخصیات اور خاندان حکومت کرنے لگے ، جنھوں نے معاشروں کو دباتے ہوئے شہریوں کو حقوق اور اختیارات سے محروم رکھا اور ماضی کے تعصبات کو پروان چڑھایا تاکہ شہریوں کو سماجی آزادی سے محروم رکھنے کا جواز ہاتھ میں رہے۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اپنی تباہی کے بیج خود ہی بوئے۔ امریکہ اور کولیشن فورسز کے عراق پر حملے کے نتیجے میں آمریت تو ختم ہوگئی لیکن عراق جدید جمہوری ریاست نہ بن سکا۔ اس کی بجائے وہاں افراتفری اور کشیدگی کے عفریت نے سر اٹھا لیااور اس کی سرزمین پر انسانی لہو ارزاں ہوگیا۔ آمریت کے بعد ریاست میں پیدا ہونے والے خلاکے نتیجے میں یہاں خطرناک نظریات منہ زور بگولے کی طرح تباہی مچانے لگے اور ریاست میں خطرناک دہشت گرد اپنی من مانی کرتے دکھائی دیے۔ ریاست میں پروان چڑھنے والا شدت پسندی کا بیانیہ بہت جلد جدید میڈیا کے ذریعے دیگر ریاستوں کارخ کرتابھی دکھائی دیا۔
دوسری طرف پاکستا ن، جو جدید اسلامی تصورات کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ایک توانا ریاست تھی، حقوق اور شہریت کی راہوں سے بھٹک کر مذہبی عقائد کی بالا دستی سے وجود میں آنے والے نظر یات کے ترازو پر شہریوں کو تولنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب ایک حقیقت بن کر دنیا کے بہت سے معاشروں میں موجود ہے اور موجود رہے گا، لیکن اسے تاریخ میں کبھی بھی کسی ریاست کی طرف سے سرپرستی کی حاجت نہ تھی۔ تاہم ، ہمارے ہاں مذہب کو ریاستی معاملات میں اس قدر ملوث کردیا گیا کہ معاشرے کے بہت سے دھڑے سمجھنے لگے کہ اگر ہم عقائد درست کرلیں تو نہ صرف ہمارے معاشی ، سیاسی اور جغرافیائی مسائل حل ہوجائیں گے بلکہ ہم بیٹھے بٹھائے سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں بھی ماہرہوجائیںگے اور دنیا اپنی رہبری ہمارے سپرد کردے گی۔ تاریخ ایسی بے بنیاد رجائیت کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
عرب اور ایران کے درمیان پائی جانے والی رقابت کا دورجدید میںآغاز ایران کے اسلامی انقلاب سے ہوا، لیکن یہ نظریاتی محاذپر صدیوںسے دنیا کے دیگر اسلامی معاشروں میں مسلکی تنائو کی صورت ہمیشہ سے ہی موجود رہی۔اسے صرف مغرب کی مداخلت کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں۔ دہشت گردی کے میدان میں اس نظریاتی کشمکش سے تحریک پانے والے انتہا پسند گروہ ایک دوسرے کے خلاف پر تشدد کارروائیاںکرنے میں مصروف رہے ہیں۔ اس پراکسی جنگ کے لیے پاکستان کی سرزمین نہایت ''ساز گار ‘‘ رہی اور ہم نے اپنے ہاں تباہی کو رقص کرتے دیکھا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سب سے بنیادی مرحلہ تاریخ کے جبر سے دور ِ جدید کو الگ کرکے ایران اور عرب دنیا کے درمیان مصالحت کی کوشش ہونی چاہیے۔ ان دونوں ریاستوں کے درمیان نظریاتی تصادم کے خاتمے کے بعد ہی ان کے حمایت یافتہ گروہوں کو دہشت گردی اور تشدد سے باز رکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی کشمکش بھی خطے کے امن کو سبوتاژ کرتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد براہ ِ راست تصادم کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ، لیکن یہ دونوں ریاستیں افغان سرزمین پر پراکسی جنگ میں اپنے بازو آزماسکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان نے نہ صرف بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق بنانے ہیں بلکہ عرب ایران کشمکش میں بھی غیر جانبدار رہنا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے مقدر کو اسلامی دنیا میں موجود تعصبات سے وابستہ کرنے کی بجائے پاکستان کو جدید نظریات اور روشن خیالی کی طرف لے جانا ہوگا۔ ہمیں ایک نئے دور میں قدم رکھنا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے جداگانہ رسوم ورواج اور کلچر اور اطوار کو مد ِ نظر رکھنا ہے۔ یاد رہے، پاکستان عرب و عجم کے درمیان نہ ختم ہونے والی کشمکش کا بوجھ اٹھانے کے لیے حاصل نہیں کیا گیا تھا۔