تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-01-2016

سُرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی 
کا منصوبہ بن رہا ہے : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بن رہا ہے‘‘ اور اس میں دو چار سال لگ سکتے ہیں ‘کیونکہ اتنا بڑا منصوبہ کوئی سال چھ مہینے میں تو بن ہی نہیں جاتا؛ جبکہ اس کے لیے مختلف کمیٹیاں بنائی جائیں گی ‘جن کے اُوپر ایک نگران کمیٹی بنائی جائے گی ؛تاکہ سارا کام تسلی بخش طریقے سے سرانجام پا سکے۔ اگرچہ یہ منصوبہ بہت پہلے بن جانا چاہیے تھا‘ لیکن ہمارا خیال تھا کہ دہشت گرد حضرات ازخود ہی باز آ جائیں گے لیکن جہاں انہیں مختلف درس گاہوں سے ٹھیک ٹھاک کُمک مل رہی ہو‘ وہاں اُن کا دماغ خراب ہے جو وہ آسانی سے باز آ جائیں؟ ہیں جی! تاہم اب بھی اُمید ہے کہ یہ خوفناک منصوبہ بننے سے پہلے ہی وہ براہ کرم اپنی سرگرمیاں ترک کر دینگے کیونکہ اب ہم پر اُوپر سے بھی کافی دبائو پڑنے لگا ہے اور اس دوران کُچھ ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہو گئے ہیں جن کا ذمہ دار خواہ مخواہ ہمیں ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ بندہ بشر اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیشنل ایکشن پلان پر عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے‘‘ اور یہ ضرورت بھی ابھی حال ہی میں آ پڑی ہے ورنہ کام تو ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا‘ ہمارا بھی اور دہشت گردوں کا بھی جو ابھی کم عمر بلکہ بچے ہیں‘ ذرا بڑے ہوں گے تو خود ہی باز آ جائیں گے اور جس کے لیے ابھی پانچ سات برس تو انتظار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 
''پاکستان میں دہشت گردی میں افغان حکومت نہیں‘ وہاں کے بعض عناصر ملوث ہیں‘‘ اور ہماری طرح وہاں کی حکومت بھی بے بس ہے‘ اس لیے دونوں ملکوں کو دہشت گردی سے نجات کے لیے اجتماعی دُعا کا بندوبست کرنا چاہیے‘ شاید یہ بلا ٹل ہی جائے‘ اور اب جبکہ میں نے بلا کہہ دیا ہے تو انہیں میری مجبوریوں کا احساس ہو گا اور وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسی باتیں کرتے ہوئے میرے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کی روک تھام ہونی چاہیے‘ یا کم از کم اس کا ادراک ہی کر لینا چاہیے جیسا کہ ہم اس کے لیے پُرعزم ہیں اور اس عزم بالجزم کا کہ اخباری بیانات کے ذریعے اعلان بھی کر چکے ہیں‘ اور اگر ہم بیان بھی نہ دیں تو سارا الزام ہم پر ہی آ جائے گا جبکہ لوگ تو لوڈشیڈنگ وغیرہ کی وجہ سے پہلے ہی ہم پر بھرے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کا الزام بھارت پر نہیں لگایا‘‘ کیونکہ برادرم نریندرمودی نے ایسا کرنے سے منع کر رکھا ہے کہ آخر وہ بڑے بھائی ہیں‘ ان کی حکم عدولی کیسے ہو سکتی ہے اور اس بات کو وہ خود بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
جنرل راحیل شریف کا توسیع نہ لینے کا 
فیصلہ خوش آئند ہے : آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا توسیع نہ لینے کا فیصلہ خوش آئند ہے‘‘ جبکہ اس اعلان سے ہمارے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی سُکھ کا سانس لیا ہے اور اس سلسلے میں میاں صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے اُن سے یہ مشورہ بھی کیا ہے کہ اس خوشی میں جشن کس طرح سے منایا جائے جبکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ سندھ میں ایک دن کی چُھٹی کا اعلان کر دیا جائے جبکہ خوشی اور مسرت کے حساب سے وفاقی حکومت کو تو پورے مہینے کی چُھٹی کا اعلان کرنا چاہیے۔ آخر انہوں نے جنرل صاحب کو خود ہی توسیع دے کر اپنے پائوں پر کلہاڑا نہیں مارنا تھا اور وہ کبھی یہ حماقت نہ کرتے‘ اگرچہ ان کی فہم و فراست سے اس کی توقع بھی کی جا سکتی تھی‘ لیکن شکر ہے کہ وہ ایک بہت بڑی آزمائش سے بچ گئے اور 
اب مفاہمت کے عمل کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ آگے چلایا جا سکتا ہے،بلکہ اس خوشی میں مجھے ایان کے بارے میں بھی عرض کرنے کا خیال نہ آیا۔ اگر اس کی جان خلاصی ہو جائے تو وہ اسی طرح میاں صاحب کی بھی خدمت کر سکتی ہے اور آئندہ کبھی پکڑی بھی نہیں جائے گی۔ ڈاکٹر عاصم کا بھی فون آیا ہے جو بتاتے ہیں کہ اس خبر سے ان کے سانس میں بھی سانس آیا ہے‘ اگرچہ ہسپتال میں انہیں گھر سے بھی زیادہ سہولیات حاصل ہیں یعنی جیسی سہولیات خاکسار کو جیل میں حاصل رہی ہیں۔ چنانچہ اُمید ہے کہ ملک عزیز میں کسی قابل ذکر سیاستدان یا بیوروکریٹ کو سزا وغیرہ نہ ہونے کی یہ خوبصورت روایت قائم رہے گی تاکہ ملک کا نظام مثالی طریقے سے چلتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''افواج ہمارا سب سے اہم ادارہ ہیں‘‘ اور جو کبھی کبھار اینٹ سے اینٹ بجانے کا خیال آتا ہے تو اسی وجہ سے وہ خیال ہی رہتا ہے اور اس پر عملدرآمد کبھی نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ ''افواج میں توسیع لینے کی روایت کو جڑ نہیں پکڑنی چاہیے‘‘ کیونکہ توسیع صرف اہل سیاست کا حق ہے بلکہ اگر انہیں توسیع لینے کی ضرورت نہ رہے تو اُن کی اولادیں ماشاء اللہ ان کی جگہ لینے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہیں اور یہ ایک اور سُنہری روایت ہے جسے قائم اور پختہ ہونے کا موقع ملنا چاہیے جس دوران اُن کی اگلی نسل بھی ملک و قوم کی خدمت کے لیے تربیت حاصل کرتی رہے اور پاکستان قیادت کے سلسلے میں ہمیشہ خودکفیل رہے۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
تعلیمی اداروں کی سکیورٹی 
بہتر بنائی جائے : شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''تعلیمی اداروں کی سکیورٹی بہتر بنائی جائے‘‘ چونکہ اکثر سکولوں میں اساتذہ موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ دیگر مفید مصروفیات کی وجہ سے سکول میں آنے سے قاصر ہیں‘ اس لیے سکیورٹی پر مامور حضرات حسب توفیق اگر بچوں کو زیور تعلیم سے بھی آراستہ کرتے رہیں تو ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اکثر سرکاری سکول فرنیچر وغیرہ سے بھی بے نیاز ہیں اس لیے سکیورٹی پر مامور صاحبان اپنے بیٹھنے کے لیے کُرسیوں اور لیٹنے کے لیے چارپائیوں کا بندوبست کرنا نہ بھولیں‘ اور یہ سب کُچھ طلبہ کو مہیا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے پائوں پر خودکھڑے ہو سکیں اور انہیں کسی کی محتاجی نہ رہے‘ چونکہ سکول چار دیواری کے بھی بغیر ہیں‘ اس لیے سکیورٹی والوں کو کُھلی فضاء میں سانس لینے اور اپنی صحت بہتر بنانے کا موقع بھی ملے گا۔ چونکہ ان سکولوں میں رفع حاجت کے انتظامات کا رواج ہی نہیں ہے اس لیے طلبہ کی طرح قریبی کھیتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جبکہ یہ کھاد خود کھیتوں کے لیے بھی بے حد مفید رہے گی یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ آپ اگلے روز وزیرستان کے میڈیکل طالب علموں کو تعلیمی اخراجات کے لیے چیک تقسیم کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
اب نسلِ نوکے ساتھ گزارہ ہے، اے ظفرؔ
ہم کیا کریں کہ لوگ پرانے چلے گئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved