تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-01-2016

موگیمبو خوش ہو گئے !

سپریم کورٹ آف پاکستان میں نہ جانے کس نیت سے اور کس کی خواہش پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست دائر کی گئی۔ جیسے ہی اس کی سماعت کی تاریخ مقرر ہونے کو آئی، آئی ایس پی آر کی جانب سے اعلامیہ جاری ہوگیا کہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند نہیں ہیں، وہ اپنی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیںگے۔ وزیر اعظم کی سوئٹزر لینڈ سے بغیر کسی پروگرام اور سرکاری پروٹوکول کے اچانک لندن روانگی اور وہاں قیام کی طے شدہ مدت میں اڑتالیس گھنٹے کا اضافہ اور اسی دوران یہ سب کچھ پاکستان میں رونما ہونا اگر اتفاقات نہ بھی ہوں تو اسے کچھ لوگوں کا '' آپس میں اتفاق‘‘ کہنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ جو کچھ بھی ہوا پہلے سے ہی کچھ کچھ طے شدہ لگ رہا ہے اور اس اعلان سے بھارت، امریکہ اور برطانیہ کے کارٹل پر مشتمل موگیمبو کی خوشی اور اطمینان دیدنی ہے۔
آئین میں درج تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی شخص دو سے زیادہ بار وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گا، لیکن پھر اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ سب کچھ صرف ایک شخص کے لیے کیا گیا؟ کیا اس سے مستفید ہونے والی شخصیت ملک کے لیے لازم و ملزوم بن گئی ہے؟ اس وقت ملک کی باگ ڈورایسے ہی شخص کے پاس ہے جسے اس ترمیم سے سب سے زیا دہ فائدہ ہوا تو انصاف سے بتائیے کہ اس کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے سے ملک کے کون سے دن بدل گئے ہیں؟ ملک کو بیرونی اور اندرونی قرضوں سے کون سی نجات مل گئی ہے یا ان میں خاطر خواہ کمی آئی ہے؟ کیا ملک میں بجلی، پانی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہے؟ امن و امان کے کون سے دریا بہنا شروع ہو گئے ہیں؟ کراچی سے خیبر تک مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان میں کون سی کمی آ چکی ہے؟ وزیر اعظم کے تیسری بار تخت سنبھال کر ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک پہلے سے زیادہ قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ ملک کی ابتر حالت اور تیسری ٹرم کے لازم و ملزوم ہو نے کی برکات ہیں؟
جیسے ہی آئی ایس پی آر کی جانب سے جنرل راحیل شریف کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ 27 نومبر 2016ء کے بعد فوجی سروس میں توسیع کے خواہش مند نہیں ہیں، آپ سب نے حیرت زدہ ہو کر دیکھا ہو گا کہ سیاستدانوں کی جانب سے مبارک سلامت کے نعرے بلند ہو نے شروع ہو گئے، ہر کوئی بڑھ چڑھ کر بیانات دے رہا ہے کہ جنرل راحیل نے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، جنرل صاحب کے اس اعلان سے فوج کا وقار اور مقام بلند ہو گیا ہے۔ پی پی پی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت سب نے واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ یہ جمہوریت کی جیت ہے، ملک جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اور یہ سب برکات عدلیہ کی مہربانی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں، جس میں کسی طالع آزما کو یا کسی فوجی ڈکٹیٹر کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی ہمت نہیں رہی۔ 
اگر یہ کہا جائے کہ سیاستدانوں کی واہ واہ اور خیر مقدمی بیانات جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ عوام کا خون چوسنے والے یہ سب حضرات امریکہ کے ڈیوٹی روسٹر پر اپنے اپنے کارڈ پنچ کرا رہے ہیں تو غلط نہیں ہو گا اس لیے کہ امریکہ ، بھارت اور برطانیہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، ان کی خواہش ہے کہ فروری مارچ تک ان کے پر کاٹ دئیے جائیں۔ ہو سکتا ہے وہ کسی دوسرے کو قبل از وقت ریٹائر ہونے کا کہہ دیں یا کسی دوسری جگہ بھیج دیا جائے۔ یہ امریکی سی آئی اے، برطانیہ کی ایم آئی سکس اور نریندر مودی کی شدید خواہش ہے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ اس کے بدلے میں پاکستان کو کشمیر کا کچھ حصہ یا جنرل مشرف کے فارمولے کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل بطور تحفہ دے دیں۔ یہ بات سمجھنے کے لیے پندرہ روز قبل جنرل عبدالقادر بلوچ کا وہ بیان سامنے رکھنا ہوگا جو انہوں نے نریندر مودی کی رائیونڈ یاترا کے بعد دیا تھا کہ ''کشمیر کا واحد حل جنرل مشرف فارمولا ہے‘‘۔ کانٹا نکال کر ہو سکتا ہے کہ سیاستدان پر سکون ہو گئے ہوں۔ لیکن آئی ایس پی آر کے اعلامیے کے بعد اب تک رائے عامہ کا سروے بتا رہا ہے کہ 80 فیصد کے قریب لوگوں نے حیرت اور افسوس سے یہ اعلان سنا۔ سوچیے کہ اگر کل کو سپریم کورٹ کی جانب سے یہ حکم آ جاتا ہے کہ جنرل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جانی چاہیے توکیا یہ اس باوقار جنرل کے نشان حیدر سے دو دفعہ فیض یاب ہونے والے خاندان کی عزت و حرمت پر براہ راست حملے کے مترادف نہیں ہوگا؟ کل اگر یہ کہا جانے لگے کہ جنرل کی تو شدید خواہش تھی کہ انہیں توسیع مل جائے لیکن سپریم کورٹ نے ان کی اس خواہش کے آگے بند باندھ کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
جیسے پہلے عرض کیا ہے، سیاستدان خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے آئین میں کیا کیا ترامیم نہیں کر رہے؟ کیا 
وہ ملک کا نظام آئین اور قانون کے مطا بق چلا رہے ہیں؟ کیا انہوں نے اب تک ایسے متعدد افسروں کی مدت ملازمت میں بار بار توسیع نہیں کی کو جو ان کے سامنے سجدہ ریز رہتے ہیں؟ کیا انہوں نے جونیئر کیڈر کے من پسند افسروں کو اونچے عہدوں پر بٹھا کر آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ حق داروں کے ساتھ ناانصافی نہیں کی؟ وہ لوگ جنہوں نے ملک کے وسائل لوٹنے میں ان کا ساتھ دیا،کیا انہوں نے انہیں چھپا کر نہیں رکھا؟ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جنرل راحیل شریف کی مقررہ مدت پر ریٹائر منٹ کا ہی رہ گیا تھا۔ تمام سیاستدان ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر لڈیاں ڈالنے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان سب کا آقا امریکہ بھی جنرل راحیل شریف سے نجات پانا چاہتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ جان گیا ہے کہ یہ جنرل اس ملک کے جوہری اثاثوں پر کسی قسم کا دبائو اور پابندی قبول نہیں کرے گا، وہ بھارت کو یو این سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بنائے جانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور شاید اس لیے بھی کہ جنرل راحیل کے گزشتہ دو برسوں میں پاکستان نے ایٹمی آبدوز سمیت ایٹمی میزائلوں سے بیلسٹک میزائلوں کی ایک لمبی قطار لگانے تک اور پھر ہوا میں پرواز کرنے والے ٹینکوں کی جانب بھی قدم بڑھا دیئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر کوئی ضیاء الدین سامنے لانے والا ہے۔ شاید اسی لیے حکمران بھی فروری اور مارچ کو اہم ترین قرار دے رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved