مقررہ وقت پر جنرل راحیل شریف کے اعلانِ سبکدوشی سے ایک روز قبل صدر بارک اوباما نے پاکستان سے فیصلہ کن اقدام اور دہشت گردی کے خلاف سنجیدگی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔ نو گیارہ سے شرو ع ہونے والی جنگ کے تیرہ برس بعد ایک بھارتی خبر رساں ایجنسی کے روبرو امریکی صدر نے یہ فرمان جاری کیا ہے۔ عالمی میڈیا میں پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کا جوابی بیانیہ فراہم کرنے والا کوئی نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ ہمہ وقت آرمی چیف کو بریفنگز میں مصروف رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سپہ سالار کا عزم قوم تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پر عائد ہے۔
کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی حکمتِ عملی انتہائی حد تک ناقص رہی ہے۔ کم و بیش ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بڑے شہروں سے باہر اور بالخصوص پاک افغان سرحدی علاقوں میں امریکی افواج عسکریت پسندوں کو کچلنا تو درکنار، مستقل طور پر ان کا کنٹرول حاصل کرنے میں بھی ناکام رہیں۔ پاکستانی کرنسی میں یہ ایک لاکھ ارب روپے بنتے ہیں۔ پاکستانی فوج کا کل بجٹ ہی سات سو ارب روپے کا ہے۔ ایک ٹریلین ڈالر اتنی بڑی رقم ہے، جس میں سارے افغان وارلارڈ دس دس مرتبہ خریدے جا سکتے تھے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ سمیت اس سارے عرصے میں پاکستان کو کم و بیش بیس ارب ڈالر، جی ہاں دو ہزار ارب روپے دیے گئے، جس کا احسان امریکی ہمیں ہماری قبر تک یاد دلانا چاہتے ہیں۔
اس سارے عرصے میں خطے میں امریکی اتحادی بھارت مشرقی سرحد پر چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔ امریکی اسے باز رکھ سکے اور نہ کشمیر میں
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوا سکے۔ ان تیرہ برسوں میں ہمیشہ ہر وقت آدھی پاکستانی فوج مشرقی سرحد پر مصروف تھی۔ جون 2014ء میں آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تو مودی سرکار نے چھوٹے پیمانے کی ایک جنگ چھیڑ دی جو چھ ماہ تک جاری رہی۔ ان تیرہ برسوں میں امریکی کم و بیش سالانہ ساڑھے سات ہزار ارب روپے افغانستان میں خرچ کرتے رہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ پاک افغان سرحد سے دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے میں ناکام رہے بلکہ سات سو ارب روپے سالانہ بجٹ کی اس پاکستانی فوج پر دبائو، دھونس اور دھمکیوں سمیت ہر قسم کے حربے آزماتے رہے، جسے مشرق میں خود سے چھ گنا بڑے دشمن کا سامنا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے باڑ اور بارودی سرنگیں بچھانے کا منصوبہ پیش کیا‘ تو منشیات کی سمگلنگ پہ انحصار کرنے والی کرزئی حکومت سیخ پا ہو گئی۔ امریکی اپنے کٹھ پتلی کو رام نہ کر سکے۔
2009ء میں دہشت گرد سوات سے آگے مردان تک چڑھ آئے تھے۔ عالمی میڈیا چیخ رہا تھا: طالبان اسلام آباد پہ قابض ہو جائیں گے۔ یہ بھی کہ پاکستان کے ایک سو ایٹمی ہتھیار خطرے میں ہیں۔ پاک فوج نے سوات کا صفایا کیا، جنوبی وزیرستان کا کیا۔ وہ شمال میں محدود ہوئے یا افغانستان بھاگ گئے۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے لیے امریکی دبائو بڑھتا چلا گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن، سمیع الحق، عمران خان، میڈیا میں ہمارے نادان دوستوں سمیت سبھی نے شمالی وزیرستان آپریشن کی شدید ترین مخالفت کی۔ سید منور حسن نے تو دہشت گردوں کو شہید اور فوجی جوانوں کو ہلاک کہہ ڈالا۔ قوم کنفیوژ ہو کر رہ گئی۔
شمالی وزیرستان ہی امریکی ڈرون حملوں کا ہدف تھا۔ عمران خان سمیت، حقائق سے بے خبر سبھی لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ ڈرون حملوں میں دہشت گرد نہیں بلکہ معصوم لوگ مارے جاتے ہیں۔ رچرڈ ہالبروک اور ہلیری کلنٹن سمیت امریکی فوج کے چار بڑوں سے جنرل کیانی کی تلخ کلامی ہوتی رہی۔ جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج مناسب وقت پر شمالی وزیرستان جائے گی۔ دہشت گردوں کے حامیوں، ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں اور حقائق سے بے خبر لوگوں کی رٹ یہ تھی ''مذاکرات، مذاکرات، مذاکرات‘‘۔ انہی میں ایک صاحب کو بعد میں پورے اطمینان سے یہ کہتے سنا گیا کہ دہشت گرد قیادت افغانستان فرار ہو چکی ہے۔ یہ صاحب بعد میں یہ دھمکی دیتے بھی پائے گئے کہ قبائلیوں کو سر آنکھوں پر نہ بٹھایا گیا تو جلد ہی ہم آٹھ لاکھ خود کش بمباروں کے نرغے میں ہوں گے۔ امریکی مخالفت میں دروغ گوئی کی آخری حد بھی فراموش کر دی گئی۔ ممتاز تجزیہ کار ظفر ہلالی نے اس پر یہ کہا: مذاکرات کیے جائیں گے۔ وہ ناکام ہوں گے۔ اس کے بعد اس نادان قوم کو یکسوئی ملے گی اور پھر آپریشن ہو گا۔ ایسا ہی ہوا۔ اس دوران یہ جھوٹ پورے تواتر سے بولا گیا کہ ہمیشہ ہر دفعہ ماضی میں ہونے والا ہر معاہدہ دہشت گردوں نے نہیں بلکہ پاک فوج نے توڑا۔ حقیقت یہ تھی کہ کمانڈر نیک محمد سمیت، ہمیشہ ہر دفعہ دہشت گردوں نے وعدہ شکنی کی۔
اندازہ یہ ہے کہ پاکستانی قیادت میں کوئی نہ کوئی صاحبِ حمیت ضرور یہ بول اٹھے گا ''انکل سام! افغانستان میں تو پاکستان آپ کی شکست کا ذمہ دار ہے۔ عراق میں کیا ہوا؟ کیا امریکہ نے عراق سمیت مشرقِ وسطیٰ کو اس عدم استحکام سے دوچار نہیں کیا، جس میں داعش کو سر اٹھانے کا موقع ملا۔ لیبیا میں خانہ جنگی کا ذمہ دار کون ہے؟ دنیا بھر میں انسدادِ دہشت گردی کی امریکی پالیسی ناکام رہی، عراق میں تو مکمل طور پر اور اس کا اعتراف خود امریکی جنرل بھی کرتے ہیں۔ ہمارے مرعوب اور احساسِ کمتری کے مارے دانشوروں کا کہنا یہ ہے کہ امریکی کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ امریکی جنرلوں کا کہنا یہ ہے کہ عراق جنگ کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی تھی۔ یہاں امریکی جنگی اخراجات گیارہ سو ارب ڈالر رہے۔ ایک لاکھ دس ہزار ارب روپے۔
امریکی اگر ایک بے ہنگم، ناتجربہ کار اور تقسیم کا شکار افغان فوج بنانے کی بجائے سالانہ گیارہ ارب ڈالر پاکستانی فوج کو ادا کرتے۔ اگر ان تیرہ برسوں میں پاکستانی سپاہ کی تعداد بتدریج ساڑھے پانچ لاکھ سے بڑھا کر آٹھ، ساڑھے آٹھ لاکھ تک کر دی جاتی اور اگر افغان حکومت تعاون کرتی تو پاکستانی فوج دونوں ممالک میں دہشت گردوں کا ٹیٹوا دبا دیتی۔ اگر ایسا ہو جاتا اور اگر پاکستانی فوج اس قدر طاقتور ہو جاتی تو خطے میں امریکی بچہ جمہورا بھارت کا کیا ہوتا؟
عالمی میڈیا میں پاکستانی فوج، درست الفاظ میں پاکستانی ریاست کا مقدمہ کون پیش کرے گا؟ کیا مقتدر حلقوں میں کوئی صاحبِ حمیت زندہ ہے یا بیرونی دوروں پہ خوشامدی نوٹ تحریر کرنے والے درباری ہی ہمارا مقدر ہیں؟
پسِ تحریر: مقررہ تاریخ پہ سبکدوش ہونے سے متعلق جنرل راحیل شریف کا بیان دس ماہ قبل ہی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تجزیہ کار نے کور کمانڈروں کی سبکدوشی کی تاریخیں اور اگلے آرمی چیف کے بارے میں اشارے بازی شروع کی ہے۔ فوج افسران کے ذریعے، کور کمانڈروں کے ذریعے کمان کی جاتی ہے۔ سپہ سالار کی سبکدوشی کا وقت قریب آتا ہے تو کور کمانڈروں کی نظریں اگلے ممکنہ آرمی چیف پر ہوتی ہیں۔ دس ماہ قبل اعلان کے نتیجے میں اب لابنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے، کمزور دل کے حضرات وفاداری کے پیغامات ارسال کرنا شروع کریں۔ میری ذاتی رائے میں فوج کی طرف سے صرف اتنا پیغام کافی تھا کہ جنرل راحیل شریف کی مدّتِ ملازمت سے متعلق چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں اور وہ کسی غیر معمولی اقدام کے خواہشمند نہیں۔