کوئی بھی کیا کہتا۔ بس یہ کہ صبر ہے اور صدقہ ہے ۔ مرنے والے کی یاد یںہیں اور ان یادوں سے اکتسابِ نور ہے ؎
زمیں کے اندر بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
یہ ایک عجیب ہستی کی حکایت ہے ، جو دولت کے انبار پر بیٹھ کر بھی ایک عام آدمی کی زندگی جیا۔ ستائش کی تمنّا اور نہ صلے کی پروا۔ نام و نمود کی خواہش اور نہ داد و تحسین کی آرزو۔ ایسے لوگ دنیا میں کمیاب نہیں ہوتے بلکہ نادر و نایاب ۔ کہیں کہیں ، کبھی کبھی، شاذ ہی آپ ایسے ایک شخص کو دیکھتے ہیں اور حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی توجیہ ممکن نہیں ہوتی کہ کبھی کسی پر اللہ کی رحمت ٹوٹ ٹوٹ کر برستی ہے ۔
اپنے خالہ زاد بھائی میاں محمد خالد حسین سے کئی بار میں نے کہا : کسی دن مجھے بھی ساتھ لے جائیے۔ لیکن افسوس۔ جو لوگ صبح سویرے جاگ نہیں اُٹھتے، بعض سعادتوں سے وہ محروم رہ جاتے ہیں ۔ کبھی یہ خیال آتا ہے کہ تقدیر ہی یاور ہے۔ کہاں کہاں آدمی کو رکنا اور ٹھہرنا ہے۔ کس کس سے ملنا اور کیا کرنا ہے، شاید یہ مقسوم کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یہ ستمبر 1969ء کے آخری ہفتے کی ایک شام تھی، جب ریلوے روڑ رحیم یار خان کے عالمگیر ہوٹل میں یہ طالبِ علم میاں محمد حفیظ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایف اے کا امتحان دے چکا تھا اور اس کا ارادہ یہ تھا کہ لاہور جا کر صحافت میں قسمت آزمائے۔ خاندان اس پر خوش نہ تھا اور اجازت دینے پر ہرگز آمادہ نہ تھا۔ عالمگیر ہوٹل کے ایک بڑے سے عقبی کمرے میں میاں حفیظ صاحب ہمیشہ کسی کتاب
یا بین الاقوامی جریدے کے اوراق میں آسودہ نظر آتے۔ مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوتی تو اپنے کمرے سے وہ باہر نکلتے اور دو فرلانگ دور مدنی مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے۔ وہ ایک طویل قامت آدمی تھے۔ گندمی رنگت اور چہرے پر ہمہ وقت نرمی اور سنجیدگی۔ اس کے باوجود کہ وہ ایک حیرت انگیز حد تک شفیق شخص تھے، ان سے بات کرتے ہوئے لوگ مؤدب ہو جایا کرتے۔ میں بھی ان کے سامنے مؤدب بیٹھا رہا اور پھر یہ کہا: آپ جانتے ہیں میاں صاحب، دھن دولت سے نہیں، پڑھنے لکھنے سے شغف ہے۔ لاہور جانا چاہتا ہوں مگر اجازت نہیں ملتی۔ ہمیشہ کی نرم آواز میں انہوں نے یہ کہا: شوق سے جائو۔ اللہ تمہیں عزت بخشے گا، روپیہ پیسہ بھی۔ پچھلے ڈیڑھ عشرے میںجب بھی تنخواہ بڑھی‘ میاں صاحب کو یاد کیا۔ جب بھی میں نے کسی کو کہتے سنا: زمین کا وہ ٹکڑا، دوسرے ٹکڑے کے مقابل اس بات پہ فخر کرتاہے کہ اللہ کا ذکر کرنے والا کوئی بندہ اس پر سے گزر رہا ہے تو اکثر میاں صاحب کا خیال آیا۔ ان کے چہرے پہ نقش شرافت، شائستگی اوراٹوٹ نجابت کا۔
میاں محمد حفیظ مرحوم ماڈل ٹائون میں مقیم میاں ظہور الحق کے سگے چچا تھے۔ خود میاں ظہور الحق کیسے تھے، کل شام جب بعض دوستوں کو میں نے ان کے بارے میں بتایا تو ان میں سے ایک نے کہا: جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، ناقابلِ یقین ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ رتّی برابر مبالغہ نہیں تھا۔ میری معلومات کا ذریعہ بھی وہ آدمی
تھا، جس کی روایت پہ ہمیشہ اعتبار کیاجا تا ہے۔ میاں محمد خالد حسین ہر پیر کی صبح ٹھیک گیارہ بجے، ڈی بلاک ماڈل ٹائون کے اس گھر میں، اس کمرے میں حاضر ہوا کرتے۔ کم از کم ایک گھنٹہ وہ ان کے پاس بیٹھے رہا کرتے۔ لوٹ کر آتے اور بتانے کی کوئی بات ہوتی تو کبھی بتا بھی دیا کرتے۔ کچھ زیادہ نہیں۔ پیر کی صبح میاں ظہور الحق کا انتقال ہوا تو کہانی انہوں نے کہہ دی۔ ایک ایک لفظ پوری صداقت کے ساتھ ۔ جان ایف کینیڈی کی موت پر ان کے بھائی ٹیڈ کینیڈی نے کہا تھا: مرنے والے میں اتنی خوبیاں تھیں کہ مبالغہ آرائی کی ضرورت ہی نہیں ۔ میاں محمد خالد حسین نے ایک مختلف بات کہی۔ بولے: میں نے سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو یاد کیا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ دنیا سے اٹھے تو جنابِ علی ابن ابی طالبؓ نے فرمایا: یہ وہ شخص ہے، جس سے اپنا نامۂِ اعمال بدل لینے کی میں نے ہمیشہ آرزو کی ۔ خالد صاحب خود بھی نیک نام ہیں اور اللہ کے فضل سے بہت نیک نام مگر انہوں نے یہ کہا: میرے بس میں ہوتا تو میں میاں صاحب کے نامۂِ اعمال سے اپنا نامۂِ اعمال بدل لیتا۔
صبح سویرے وہ جاگ اٹھتے اور پیدل چل کر مسجد جایا کرتے۔ دن میں پانچ بار، تا آنکہ بزرگی نے آلیا اور فرزند کے ساتھ گاڑی میں جانے لگے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا: میری امّت کے لوگ سواریوں پر عبادت گاہ جایا کریں گے۔
ہر کہیں ایسے کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ ہر بستی میں، ہر قریہ میں۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے۔ پھر ایک وقت آئے گاکہ زمین پر اللہ کا ایک نام لیوا بھی نہیں ہوگا۔ قیامت اس وقت آئے گی۔ اگرچہ اس کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہو چکیں۔ مکّہ کے پہاڑ اکھاڑ دیے گئے۔ ننگے پیروں والے عظیم الشان عمارتوں کی تعمیر میں مقابلہ کرنے لگے۔ عرب سرسبز ہونے لگا۔ اجاڑنے والی مکروہ چیزیں نصب کر دی گئیں۔ میاں صاحب مگر عام عبادت گزاروں سے کچھ مختلف تھے۔کچھ بڑھ کر، کچھ سوا بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت کچھ سوا۔ بارہ تیرہ صدیاں پہلے بلاد شام کے مرغزاروں سے وادی ٔسندھ کا رخ کرنے والے ان کے اجداد میں سے شاید کوئی صاحب سعادت ہو، شاید کسی نے اصحابِ رسول کی صحبت اٹھائی ہو۔ میاں صاحب مسجدجاتے تو ان کی جیب میں ہمیشہ کچھ نقدی ہوتی۔ کچھ نہیں صاحب، بہت سی۔ گھر لوٹنے سے پہلے حاجت مندوں میں بانٹ دیتے ۔ ایک نہیں ، تین مسجدوں میں جایا کرتے۔ شاید اس خیال سے کہ کسی خاص مکتبِ فکر سے وابستگی کی چھاپ نہ لگے۔ ایک سچا مسلمان تعصبات سے آزاد ہوتاہے۔ شاید اس لیے بھی کہ کوئی ضرورت مند محروم نہ رہ جائے۔ ایک بار کسی نے بڑھتے ہوئے ہجوم کا ذکر کیاتو فقط یہ کہا: جو بھی چلا آئے، کچھ نہ کچھ اسے ملنا ہی چاہیے۔ گاہے اس پر تعجب ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے لیے داتا گنج بخش کے لقب پر اعتراض ہے۔ اب اگر ایک محدود مفہوم میں مرحوم کو حاجت روا کہا جائے تو کیا یہ غلط ہوگا؟ اللہ کے آخری رسولؐ نے یہ ارشاد کیا تھا: جو دوسروں کے کام میں لگا رہے، اس کے کام اللہ خود نمٹا دیتا ہے۔ میاں محمد خالد حسین نے یہ کہا: سبھی کا حق جانے والے نے ہمیشہ ادا کیا۔ مفلسوں اور محتاجوں کا، افتادگانِ خاک کا، ملک اور ملت کا۔ قرض اتارو، ملک سنوارو سکیم میں بھی خوش دلی سے انہوں نے حصہ لیا تھا۔ زلزلوں اور سیلابوں میں بھی۔ نیو یارک سے میاں محمد مشتاق آئے اور شرقپور روڈ پر یتیم خانے کی عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تو روپیہ ان کے پاس موجود تھا۔ میاں صاحب نے مگر بیس پچیس لاکھ روپے ان کی نذر کیے۔ پھر یہ کہا: اگلے ماہ بچّوں کے لیے جب کلاسوں کا اجرا ہو گا تو وہ کچھ وقت ان کے ساتھ گزاریں گے، ان کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔
ان کے فرزند نے کل یہ کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا، میں اب کیا کروں گا۔ میں تو ان کا عادی تھا۔ جی ہاں، با پ کے کام بیٹا خود نمٹایا کرتا۔ ان کے پائوں دباتا اور مودب رہتا۔ کوئی بھی کیا کہتا۔ بس یہ کہ صبر ہے اور صدقہ ہے ۔ مرنے والے کی یاد یںہیں اور ان یادوں سے اکتسابِ نور ہے ؎
زمیں کے اندر بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے