پچھلے تین ماہ میں پاکستان نے بیرونی ممالک او ر غیر ملکی مالیاتی اداروں سے 1.42بلین ڈالرز کی خطیر رقوم بطور قرضہ وصول کی ہیں۔ کیا پاکستانی میڈیا میں سے کوئی جرأت کر کے نواز حکومت سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ یہ رقم آخر گئی کہاں؟ ظاہر ہے یہ ان منصوبوں میں تو نہیں لگائی گئی جنہیں فنڈز کی ضرورت ہے۔ یہ سارا روپیہ حکمران جماعت اور اس کے حامیوں کے ہاتھوں میں ہی گردش کر رہا ہے۔ بے تحاشا خرچوں کے لئے ان لوگوں کی یہ بھوک لامتناہی معلوم ہوتی ہے۔ پھر فوج کا بھی اپنا الگ ہی بجٹ ہے جس کے بارے میں کسی کو کوئی خبر ہی نہیں۔ یہ بات تو کہے بغیر بھی سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ دفاع کے شعبے پہ خرچ ہوتا ہے اور اس پہ کوئی سوال بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ پچھلے ہفتے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے ہمیں بجا طور پر کافی متاثر کیا۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کو سرکاری خرچے پہ ایک بلٹ پروف گاڑی کے استعمال کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے پر حکومت سے جواز طلب کیا ہے۔ سرکاری وسائل کی اس بد استعمالی کی طرف عوامی توجہ مبذول کرانے کے لئے سینیٹ کے چیئرمین داد کے مستحق ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک پورا پاکستان تقویٰ اور دیانت کے مینار کے طور پر سابق چیف جسٹس کو سر آنکھوں پہ بٹھا رہا تھا۔ ہمارے لئے وہ ایک ''مسٹر کلین‘‘ کا نمونہ تھے۔ ہم سمیت میڈیا والے انہیں سراہتے نہیں تھکتے تھے۔ اپنے سپر ہیرو کے طور پر ہم نے انہیں بلندیوں تک پہنچا دیا تھا؛ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ بھی دوسروں ہی کی طرح ثابت ہوئے۔ دسمبر 2013ء میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ صاحب چھ ماہ کے لئے اپنی پرانی سرکاری رہائش گاہ کے عین مقابل ایک اور سرکاری مکان میں منتقل ہو گئے تھے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس عارضی رہائش گاہ کی تزئین نو اور آرائش پر سرکاری خزانے سے کتنا پیسہ خرچ کیاگیا؟ ستر لاکھ روپے سے زائد! نیا فرنیچر ، نئے پردے اور قالین بھی خریدے گئے۔ چوبی فرش بنوانے اور باتھ روموں میں بھی نئی فٹنگ کروائی گئی۔ پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ پروٹوکول، سکیورٹی اور نمود و نمائش کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب کے شوق سے سبھی واقف ہیں‘ اس لئے ہمیں اس امر پہ کوئی حیرت نہیں ہوئی؛ تاہم وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب ان سب اخراجات کے سوال سے کنی کترا گئے۔ دو سال قبل جس طرح چیف جسٹس کی عارضی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر ہونے والے اخراجات کا سوال موجودہ حکومت نے طاق پر دھر دیا تھا‘ اسے دیکھتے ہوئے تو ہمارا خیال یہی ہے کہ سرکاری خرچے پہ ان کے زیر استعمال بلٹ پروف گاڑی کا جواز جاننے کے لئے چیئرمین سینیٹ کی جانب سے جو تقاضا کیا گیا ہے اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ معاملہ سینیٹ میں پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اٹھایا تھا۔ سینیٹ کے چیئرمین نے قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق سے کہا کہ اس بارے میں حکومت کی جانب سے باقاعدہ جواب دینے کے لئے وہ پارلیمانی امور کے لئے وزیر مملکت کی ایوان میں موجودگی کو یقینی بنائیں۔ نواز لیگ جسٹس چودھری کا نقصان نہیں چاہتی کیونکہ زرداری صاحب کے دور میں جسٹس چودھری کی عدالتی سرگرمیوں کا زیادہ تر فائدہ اسی نے اٹھایا تھا۔ دو سال قبل چیف جسٹس کی عارضی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر ستر لاکھ روپے کے اخراجات کا معاملہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اٹھایا تھا اور اس بار سرکاری خرچے پر سابق چیف جسٹس کے زیر استعمال رہنے والی بلٹ پروف گاڑی کا معاملہ بھی انہوں نے ہی اٹھایا ہے۔ ایوان کی معمول کی کارروائی کے بعد عوامی اہمیت کے ایک معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ سرکاری خرچے پر سابق چیف جسٹس کو اس قدر مہنگی بلٹ پروف گاڑی کے استعمال کی اجازت کی منطق اور جواز آخر کیا ہے؟ حالانکہ سابق چیف جسٹس اب اپنی ایک سیاسی جماعت بھی بنا چکے ہیں اور سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اپنی سیاسی جماعت بنانے کے بعد ظاہر ہے کہ سابق چیف جسٹس صاحب اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے مختلف جگہوں کے دورے کرتے رہیں گے اور اس دوران سرکاری گاڑی کا استعمال سرکاری خزانے پہ ایک غیر منصفانہ اور بے جواز بوجھ ڈالنے کا سبب بنے گا۔ سینیٹر بابر کہتے ہیں کہ انہیں علم ہے کہ حکومت کا جواب یہ ہو گا کہ یہ گاڑی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد انہیں فراہم کی گئی ہے لیکن سابق چیف جسٹس کی جانب سے ایک سیاسی جماعت بنانے کے بعد اب حکومت کو اس فیصلے پہ نظرثانی کر لینی چاہئے۔ یہ وہی فرحت اللہ بابر ہیں جو خود پی پی پی کے دورِ حکومت میں اپنے باس زرداری کی مثالی کرپشن کا دفاع کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے اربابِ اختیار میں دیانت دار آدمی صرف ایک ہی ہے یعنی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ملازمتی توسیع پہ یقین نہیں رکھتے ہیں اور مقررہ تاریخ پہ وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ پی پی پی کی حکومت نے جولائی 2010ء میں متعلقہ قواعد میں نرمی کرتے ہوئے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی۔ جنرل کیانی چھ برس تک فوجی سربراہ رہے۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کہتے تھے کہ چونکہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ جاری ہے اس لئے تسلسل کی بقا کی خاطر جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع ضروری تھی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں آرمی چیف جنرل راحیل نے کہا ہے کہ ان کے لئے قومی مفاد سب سے زیادہ اہم ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کی میعاد میں توسیع کے حوالے سے تمام تر افواہیں بے بنیاد ہیں۔ اس بیان کی وجہ یہ تھی کہ جنرل مشرف نے فوجی قیادت میں تبدیلی کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کی میعاد میں توسیع کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے بعد قیاس آرائیاں زور پکڑتی جا رہی تھیں۔ جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف اس وقت جو کر رہے ہیں‘ وہی مناسب ہے اور اسے تسلسل کی ضرورت ہے۔ اگر فوجی قیادت بدل دی گئی تو جتنا اچھا کام اب تک ہوا ہے وہ سب ضائع ہو جائے گا۔ جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ آپریشن ضربِ عضب اسی طرح زور و شور سے جاری رہے گا۔ جنرل صاحب شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میجر شبیر شریف ان کے بھائی تھے اور میجر عزیز بھٹی بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ یہ دونوں بہادر فوجی نشانِ حید ر پا چکے ہیں۔ خود جنرل راحیل شریف پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین اور مقبول ترین فوجی سربراہوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کا آخری مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب کے نام سے فوجی آپریشن جنرل راحیل شریف نے ہی شروع کیا ہے۔ جنرل صاحب 29 نومبر 2016ء کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔