تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-01-2016

مِلا جُلا کام

سب سے پہلے تو ایک وضاحت : اگلے روز میں رفیع رضا کو بھارتی شاعر قرار دے بیٹھا تھا‘ اب ہمارے دوست اور شاعر جناب ناصر علی نے تصحیح کرائی ہے کہ وہ باقاعدہ پاکستانی ہیں اور چنیوٹ یا ربوہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ قارئین اور شاعر دونوں سے معذرت!! 
ایک ملتان کے شاعر کا بھی ذکر ہو جائے یعنی جناب راشد نثار جعفری‘ ایک مستقل کرم فرما جناب ذاکر حسین ضیائی نے جن کا تازہ کلام میسج کیا ہے‘ ملاحظہ ہو :
خرید لو کہ ہے تازہ غزل برائے فروخت
مرے سُخن کے ہیں سارے کنول برائے فروخت
میں اپنے بچوں کا دیکھوں کہ آخرت کا صلہ
کہ ہے اناج کے بدلے عمل برائے فروخت
غریب ماں جسے افسر مزاج کہتی تھی
لگائے بیٹھا ہے ریڑھی پہ پھل برائے فروخت
سجے ہیں برسر بازار سربُریدہ بدن
فصیلِ شہر پہ لکھ دو اجل برائے فروخت
میں ساری عُمر کے بدلے خرید لوں اس کو
ہو تیرے قُرب کا گر ایک پل برائے فروخت
سُنا ہے آج تو بازار سرد ہے یارو
متاع دِل کو ہی رکھوں گا کل برائے فروخت
کہاں کہاں سے خریدار آ گئے راشد
شکستہ گھر پہ جو لکھا محل برائے فروخت
عزیز القدر علی اکبر عباس نے اپناتازہ مجموعہ کلام بھجواتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں عزیزم آفتاب اقبال کا فون آیا جس پر آپ کا شفقت آمیز سلام پیار بھی دیا گیا۔ یوں تو آپ سے روزانہ ملاقات ہو جاتی ہے۔ کالم اور مطلع و مقطع کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی پُوری غزل مگر حاضری کا اپنا لُطف ہے‘ سو میں یہ لُطف شاید پہلی بار حاصل کر رہا ہوں‘ عُمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے۔ اس خط کی نوبت یوں آئی کہ میں نے عزیزم عباس تابش کے ہاتھ لگ بھگ دو سال پہلے اپنی تاحال تازہ ترین کتاب ''دیار آئینہ‘‘ آپ کو پیش کرنے کے لیے بھجوائی تھی۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ آپ تک نہیں پہنچی یا پھر عباس تابش اپنی بین الاقوامی مصروفیات کے باعث وقت نہیں نکال پائے ورنہ ایسا تو نہیں کہ آپ اس کی رسید نہ دیتے۔ خیر یہ کتاب پیش خدمت ہے جس کی رسید مطلوب ہے۔ آئندہ کتاب گیتوں کا مجموعہ انشاء اللہ جلد پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ میں آپ کی صحت و سلامتی کے لیے ہمیشہ دُعا کرتا ہوں۔ آپ سلامت رہیں تاکہ مُجھے ''اوئے منڈیا‘‘ کی آواز سنائی دیتی رہے۔ آپ کی شاعری تکرار بسیار کے باوجود پڑھ کر خوش ہو جاتا ہوں۔ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہوں کیونکہ آپ نے کون سا باز آ جانا ہے۔ آپ کا چھوٹا بھائی۔ 
موصوف کا یہ خط رسید کے طور پر نقل کر دیا ہے ورنہ میں موصولہ کتابوں کی رسیدیں نہیں دیا کرتا کہ اُن پر میرا کالم ہی رسید ہوتی ہے‘ سو جلد ہی اس پر خیال آرائی پیش خدمت ہو گی‘ میرا ماحول قصباتی بلکہ دیہاتی ہے۔ کبھی عرض کیا تھا ؎ 
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
سو‘ پیڑ اور پرندے میری کمزوری اور ان کا ذکر میری مجبوری ہے۔ آج صبح سُرخاب صاحب کی پھر زیارت ہوئی لیکن یہ کوئی خبر نہیں ہے۔ خبر تو وہ بُھوری‘ سیاہی مائل چڑیاںہیں جو باہر رونق لگائے رکھتی ہیں‘ خاص طور پر شدید دُھنداور سردی کے دنوں میں بھی انہوں نے ناغہ نہیں کیا جبکہ کوے‘ کبوتر‘ شارقیں‘ فاختائیں اور چڑیاں ایک دم غائب ہو گئی تھیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ اکیلی نہیں بلکہ جوڑوں کی شکل میں آتی ہیں جبکہ آوارہ مزاج ممولہ زیادہ تر اکیلا ہی آتا جاتا رہا ہے۔ اب پھر کئی روز سے غائب ہے۔ تاہم ایک افسوسناک اطلاع یہ ہے کہ مالی نے میرے علم میں لائے بغیر سٹرس کے پودوں کی نچلی شاخیں کاٹ دی ہیں جس سے وہ سمارٹ تو ہو گئے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ جو شاخیں نکلیں گی اس برس ان پر پھول پھل نہیں آئیں گے۔ 
اُوپر میری شاعری میں تکرار اور تسلسل کا ذکر آیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ عزیز یہ نشان دہی بھی کر دیتے کہ یہ واقعہ کہاں کہاں رونما ہوا ہے کیونکہ اگر میں دوسروں کے حوالے سے یہ کام کرتا رہتا ہوں تو انہیںبھی چاہیے کہ مجھے اس سے آگاہ کر دیا کریں۔ غزل اساسی طور پر محبت کی شاعری ہے اور ہمارے ہاں جتنے زور و شور سے محبت کی جاتی ہے‘ اسی حساب سے محبت کی شاعر ی بھی؛ چنانچہ اس میں وہی باتیں کی جاتی ہیں جو ہزارہا بار پہلے کہی جا چکی ہوتی ہیں اور شاعر پہلے سے کہی ہوئی بات! تھوڑا بہت زاویہ بدل کر اُسے تازہ اور نیا کر دیتا ہے اور کبھی مکھی پر مکھی نہیں مارتا‘ اتنی عقل کم و بیش ہر شاعر میں ضرور ہوتی ہے۔ چنانچہ شاعری میں کسی مضمون کا بار بار آ جانا تکرار نہیں کہلاتا جبکہ مضامین کی تعداد ویسے بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی‘ اور 
شاعر اتنی سمجھ ضرور رکھتا ہے کہ پہلے سے کہی ہوئی بات کو ہُو بُہو اس طرح سے نہ کہے جیسی وہ پہلے کہی جا چکی ہوتی ہے۔ سو شاعر کے ہاں اگر ایک مضمون بار بار آتا ہے تو اپنی شکلیں بدلتا ہوتا آتا ہے جبکہ سربسر تکرار قاری کو بھی بے مزہ کر دیتی ہے اور اچھے بھلے شاعر کے بارے میں بھی اس کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے۔ عزیزی علی اکبر عباس جو میرے ساتھ اس قدر برخورداری کا دعویٰ کرتے ہیں تو تھوڑا وقت نکال کر میری شاعری میں سے تکرار زدہ اشعار نکالنے کی زحمت کیوں نہیں اٹھاتے‘ اگر وہ ایسا کر کے مجھے بھی آگاہ کریں تو میں نہ صرف ان کا شکر گزار ہوں گا بلکہ ان کی تصریحات اپنے کالم میں چھاپ بھی دوں گا اور شاید تکرار کرنے سے باز بھی آ جائوں۔موصوف ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کر دیں کہ میں صرف اپنے آپ کو دہراتا ہوں یا کئی دوسروں کو بھی دہرانا شروع کر دیا ہے۔ تاہم بسیار گو شعراء کے بارے میں یہ بات فیشن کے طور پر بھی کہی جا سکتی ہے کہ اگر وہ اتنا لکھتا ہے تو اس کے ہاں تکرار بھی اسی پیمانے پر ہو گی نیز میں یہ بھی کروں گا کہ اپنے دہرائے ہوئے اشعار اپنی شاعری سے نکال دوں‘ یعنی علی اکبر عباس کی تسلی کے مطابق ع
کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانۂ تست
آج کا مطلع
اپنا آپ بکھرتے دیکھتا رہتا ہوں
کیا کچھ ڈرتے ڈرتے دیکھتا رہتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved