سات سال سے امریکہ کی کرسی صدارت پر براجمان بارک اوباما نے سٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران افغانستان اور پاکستان کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا: '' اگر داعش کو ختم کر دیا جائے تب بھی اگلی دہائی تک ان میں امن نہیں آ سکے گا‘‘۔ اس خطاب کے بعد بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت کے بارے میں ان کے خیالات اور پاکستان پر تبرا، امریکی پالیسیوں اور پاکستان کے خلاف اُن کے عزائم سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔ اپنے انٹرویو میں اوباما کو پٹھان کوٹ نے تو رنجیدہ کیا لیکن چارسدہ کا ذکر ان کی زبان پر بھاری گزرا۔ یہ امریکہ کا دوہرا معیار ہے جسے ہم ہمیشہ سے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں، شاید اس لیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ لیکن جو بیڑیاں ہم نے خود اپنے پائوں میں باندھ رکھی ہیں وہ کوئی اور آ کر کیسے کھولے گا۔ امریکی صدر کا یہ پیغام اس کے با وجود آیا کہ ان کا ملک افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات میں بطور ضامن شامل ہونے جا رہا ہے۔ اگر ان کو اپنے اداروں کی دی جانے والی بریفنگ کی روشنی میں اگلی دو دہائیوں تک افغانستان اور پاکستان میں داعش کے خاتمے کے باوجود امن و استحکام دکھائی نہیں دے رہا تو پھر ان مذاکرات کا ڈرامہ کس لیے رچایا جا رہا ہے؟ کیا امریکہ کا اندرون خانہ ایجنڈا کچھ اور ہے جو اس نے اگلے د س برسوں کے لیے تیار کر رکھا ہے؟ کیا اسی لیے جنرل راحیل شریف اور ان کی سوچ کے فوجی افسروں کو ابھی سے کونے میں لگا ئے جانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں؟
امریکی صدر نے جو کچھ کہا، اس کی روشنی میں ہمیں اس رپورٹ کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو سلیگ ہیریسن نے لکھی تھی۔ ہو سکتا ہے یہ رپورٹ اس وقت ہمیں کسی دیوانے کا خواب لگے لیکن ایسا سوچتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ 1964ء میں اسی امریکن سنٹر برائے انٹر نیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور نامور جرنلسٹ سلیگ ایس ہیریسن نے ہی 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی پیش گوئی کی تھی جو حقیقت بن کر سامنے آئی۔ فارن پالیسی میگزین میں افغانستان میں روسی فوجوں کے قبضے کی خبر بھی اسی سنٹر نے ایک سال قبل دے دی تھی۔ امریکہ کے اس طرح کے ادارے کسی بھی ملک کے متعلق جاری کی جانے والی رپورٹس اپنے اندر بہت سے منصوبوں کی گہرائیاں لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز میں اس کے لکھے ہوئے مضمون کے ان الفاظ کو نظر انداز کرنے سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا:
''Likely break up of Pakistan along ethnic lines as result of ''ethnic difference'' must be viewed in the wider context of geopolitical ambitions''.
انڈیا ڈیفنس ریویو کے ایڈیٹر کی وہ رپورٹ بھی سامنے رکھنی ہو گی جس میں وہ لکھتا ہے کہ ''مضبوط پاکستان‘‘ کسی بھی صورت میں بھارت کے مفاد میں نہیں ہو گا‘‘۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ شروع ہونے کے بعد اسے تہ تیغ کرنے کے لیے ہمارے دشمنوں کی جانب سے کروڑوں ڈالر مختص کیے جانے کی خبریں دن بدن پھیلتی ہی نہیں جا رہیں بلکہ نظر بھی آ نا شروع ہو گئی ہیں۔ اگر قوموں اور ملکوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے کے ذمہ داروں کی طرف دیکھیں تو آج سے 13 سال پہلے کی یہ رپورٹ جو دسمبر 2000ء میں امریکی سی آئی اے کے توسط سے باہر آئی، اس میں 2015 ء تک دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی متوقع تبدیلیوں اور پاکستان کو پیش آنے والے واقعات کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ 2015 ء تک پاکستان آپس کی لڑائی سے لاوارث اور مکمل طور پر دنیا بھر کے عالمی مالیاتی اداروں کا باجگزار بن کر رہ جائے گا اور پاکستان کی سلامتی کا انحصار اس کے قومی اداروں پر نہیں بلکہ اسے قرض اور امداد دینے والے ممالک کی صوابدید پر ہو گا ( پاکستان پر آج قرضوں کے بوجھ نے اس رپورٹ کو سچ ثابت کر دیا ہے۔) اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کئی دہائیوں سے جاری سیا سی اور مالی بد انتظامیوں، سیا سی جھگڑوں، لاقانونیت، کرپشن، لسانی اور مذہبی فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کے طوفان سے پاکستان بمشکل سنبھل پائے گا۔ اس کے چھوٹے صوبوں میں دن بدن بڑھتے ہوئے داخلی خلفشار اس حد تک پہنچ جائیں گے کہ لوگوں کو پر امن زندگی گزارنے کے لیے پنجاب کا رخ کرنا پڑے گا۔ پورے پاکستان میں صرف کراچی اور پنجاب ہی معاشی حب بن کر رہ جائیں گے ا ور باقی حصے کاروباری نشو و نما کے لیے عضو معطل بن جائیں گے ( آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لاہور بھر میں پھیلی ہوئی مارکیٹیں کن کے پاس ہیں۔) اس رپورٹ میںآگے چل کر پاکستان اور بھارت کے بارے میں سی آئی اے کے ایک پیرا گراف کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطا بق 2000 ء کے بعد اگلے پندرہ برسوں میں دونوں ممالک کے باہمی جھگڑے اس حد تک بڑھ جائیں گے کہ دنیا بھر میں رونما ہونے والے دیگر تمام واقعات کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جائے گا، بلکہ دنیا دیکھے گی کہ افغانستان اور پاکستان میں پھیلی ہوئی تباہی اور انارکی کا رخ کشمیر اور بر صغیر کے کچھ دوسرے حصوں کی طرف ہو جائے گا اور حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ کنونشنل جنگ میں بھارت کو حاصل نفسیاتی برتری نئی دہلی کو پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کے لیے اکسانا شروع کر دے گی۔
2005ء میں بھارت کے مشہور انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے امریکن نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ کا سی آئی اے کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے ''YUGOSLAVIA-LIKE FATE'' کے عنوان سے پاکستان کے بارے میں لکھا تھا کہ2015 ء تک پاکستان ایک نا کام ریا ست میں تبدیل ہو جائے گا، خانہ جنگی کی وجہ سے خون ریزی بڑھ جائے گی، صوبائی تعصب قابو سے باہر ہو جائے گا اور پاکستان کی تمام تر توجہ اور وسائل طالبان سے خود کو بچانے اور اپنا ایٹمی پروگرام بچانے پر مرکوز ہو کر رہ جائے گی ( آج کی یہ صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔) نومبر 2008 ء میں امریکن نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے 2025ء ''GLOBAL TRENDS '' کے عنوان سے دنیا بھر کے ممالک کے بارے میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے کے حوالے سے لکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں اس حد تک بڑھ جائیں گی کہ ہر کوئی ان کے نتیجے میں خطے میں جنگ کے حالات جیسی سنگینی کا اندازہ کرنے لگے گا اور پھر اچانک ایک دن ایسا آئے گا کہ افغانستان اور پاکستان کے مغربی حصے کے پشتون قبائل کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کو ختم کرتے ہوئے افغانستان اور خیبر پختونخوا کے پشتونوں پر مشتمل ایک نئے ملک کی بنیاد رکھنے کی ڈیمانڈ سامنے آ جائے گی تاکہ پاکستان سے پنجابی اور افغانستان سے تاجک بالا دستی کا خاتمہ کیا جائے۔ اپریل2009ء میں سابق امریکی صدر بش اور موجودہ صدر اوباما کے مشیر David Kilcullen کی طرف سے جاری کیا جانے والا وہ بیان بھی سامنے رکھنا ہو گا جس میں اس نے پاکستان کی چند ماہ میں تباہی کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے دنیا کو متنبہ کیا تھا اگر پاکستان میں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تو دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی وہ ہار جائے گی۔ امریکہ کے مستند تھنک ٹینکس فریڈ رک اور مائیکل او ہینلن نے پاکستانی لیڈروں کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ نادان ابھی تک امریکہ کی جانب سے مسلط کیے جانے والے سربراہان کو اپنا اور پاکستان کا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتے جا رہے ہیں جس طرح شاہ ایران 1979ء میں اپنے آخری وقت تک سمجھتا رہا، لیکن 197ملین افراد اور 100 سے زائد ایٹمی ہتھیار رکھنے اورامریکہ سے بھی بڑی فوج کے حامل ملک میں کسی ایک کو بھی اس کا احساس نہیں ہو رہا!