آج وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے اپنی پریس کانفرنس میں قابل غور گفتگو کی۔ ان کے الفاظ تھے: ''سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ شدت پسندوں کے خلاف بندوق سے لڑی جانے والی جنگ تو جیت رہے ہیں لیکن نفسیاتی جنگ میں شدت پسندوں کو برتری مل رہی ہے۔‘‘ چوہدری صاحب کے ذرائع اطلاعات ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ تمام داخلی ایجنسیوں کی رپورٹیں ان کی نگاہوں سے گزرتی ہیں‘ لیکن کوئی ادارہ اور کوئی ذمہ دار فرد‘ اصل مسئلے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا۔ ابھی تک دہشت گردوں کو ان کی جنگی صلاحیتوں کی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے‘ لیکن وہ صرف روبوٹ نہیں جو ایک مشن کے لئے گروپ تیار کر کے اپنے ٹارگٹ پر حملہ کرتے ہیں اور عمومی طور پر خودکشی کر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان کے رہنما استعمال کر لیتے ہیں‘ لیکن رہنمائوں کی اپنی منزل کیا ہے؟ اگر میدان عمل میں سرگرم مختلف گروہوں کو دیکھیں تو کسی کے پاس واضح نظریہ حیات نہیں۔ وہ ملائوں کی روایتی سوچوں کو جذباتی انداز میں دہراتے ہیں اور نوجوانوں کے جذبات ابھار کے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب میران شاہ پر پاک افواج نے قبضہ کیا تو وہاں مختلف کمروں میں نقشے اور تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ یہ تصویریں نوجوانوں کو دکھا کر بتایا جاتا تھا کہ جنت کے مناظر ایسے حسیں ہوں گے۔ حوریں اتنی خوبصورت ہوں گی اور جنت کے پھل اس طرح کے ہوں گے۔ یہ تصویریں انتہائی بھدی اور مصوری سے ناواقف لوگوں کی بنائی ہوئی تھیں۔ جن نوجوانوں کو یہ تصویریں دکھا کر قتل و غارت گری اور خود کشی پر آمادہ کیا جاتا تھا‘ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی نظریہ حیات پر یقین رکھتے ہوں گے۔ اپنی حالیہ زندگی میں کیا چاہتے ہوں گے؟ اور آخرت سے ان کی امیدیں کیا ہوں گی؟ مگر ہمارے وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ ''نفسیاتی جنگ میں شدت پسندوں کو برتری مل رہی ہے‘‘۔ اگر خوف پیدا کرنا برتری کی نشانی ہے‘ تو یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ جو خوف دہشت گرد پیدا کرتے ہیں‘ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
ہمارے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے مختلف بستیوں پر قبضہ کر کے‘ اپنا نظام چلایا تھا۔ وہاں جو کچھ لوگوں نے دیکھا اور بھگتا‘ اس کی کہانیاں بھی ہم نے سن رکھی ہیں۔ ان کے تمام امیروں اور رہنمائوں کے پاس خوف کے سوا دوسرا کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ وہ آخرت کے عذابوں سے ڈراتے اور انہیں مختلف مشن سونپ کر انسانی جانیں لینے اور اپنی جان دینے پر اکساتے تھے اور جو ان کے احکامات نہیں مانتے تھے‘ انہیں دوسروں کے سامنے بے رحمی سے قتل کر دیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ بازاروں میں ایسے نافرمانوں کی لاشیں کئی کئی دن تک لٹکا کے رکھی جاتی تھیں تاکہ ناپختہ نوجوان ذہن اس سزا کو اپنے گناہوں کا نتیجہ سمجھیں۔ وہ اپنے انجام سے خوفزدہ ہو کر ان کے احکامات کی تعمیل کرنے لگتے۔ چوہدری نثار نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ''دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے ان کے گروپ ٹوٹ چکے ہیں اور اب وہ آسان ہدف تلاش کرتے ہیں۔ جہاں وہ اپنی کارروائیاں کر سکیں‘‘۔ وزیر داخلہ کو غالباً یاد نہیں رہا کہ دہشت گردوںکی کبھی بھی کوئی بڑی تنظیم نہیں رہی۔ وہ ابتدا ہی سے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم رہتے تھے۔ ان کے لیڈروں کے مابین تبادلہ خیال ضرور ہوا کرتا تھا‘ جو اب بھی ہوتا ہے‘ لیکن وہ کوئی ایک بڑی پارٹی یا منظم قیادت تشکیل نہیں دے سکے تھے۔ ان کا سب سے بڑا لیڈر اسامہ بن لادن تھا اور اس کے بعد افغانستان میں ملا عمر۔ یہ دونوں لیڈر‘ یقینی طور پر اپنے پیروکاروں کی اندھی وفاداریوں پر بھروسہ کر سکتے تھے اور کرتے رہے ہیں‘ لیکن یہ دونوں بڑے لیڈر مختلف گروہوں کی صورت میں الگ الگ مقامات پر رہتے تھے اور انہیں چھاپہ مار کارروائیوں کے لئے جو ہدایات ملتی تھیں ان پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا کرتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ ویت کانگ یا چینی انقلابیوں کی طرح کسی بڑے مقصد کے لئے ایک ہی لیڈر کی طے شدہ پالیسیوں کے مطابق جاری کئے گئے احکامات پر عمل کرتے ہوں۔ حقیقت میں افغانستان اور پاکستان کے اندر یہ مختلف قبائلی گروہوں کا اجتماع تھا‘ جو قتل و غارت گری اور لوٹ مار میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے اور تجربے کے ساتھ ساتھ یہ مالی وسائل کے مالک بنتے گئے۔
اسامہ بن لادن اور ملا عمر‘ اپنی طرز کے ایک اسلامی فلسفے کا پرچار ضرور کرتے اور اسی کی بنیاد پر یہ مالدار عربوں سے بھاری عطیات وصول کیا کرتے۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمر دونوں کی غیر فطری اور اچانک موت کے بعد‘ یہ سارے گروہ تتربتر ہو گئے۔ اس کے بعد انہیں کوئی بڑا لیڈر نہیں مل سکا۔ ابھی تک اپنے اپنے گروہوں کی قیادت کرنے والوں نے خود کو مجاہدین یا طالبان جیسے نام دے رکھے ہیں‘ مگر اجتماعی طور پر انہیں کوئی لیڈر میسر نہیں آیا۔ پاکستان اور افغانستان‘ دونوں ملکوں میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے بہت سے مسلح گروہ موجود ہیں‘ لیکن یہ کسی ایک تنظیم کو معرض وجود میں نہیں لا سکے‘ جس کی طاقت سے یہ اپنی کوئی ریاست قائم کر سکیں۔
یہی صورتحال شرق اوسط کے ملکوں کی ہے۔ وہاں بھی ریاستی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ حکمران سعودی خاندان اور ایران کی حکمران جماعت ابھی تک بڑی افرادی قوت کے اعتماد اور وفاداری پر بھروسہ کر سکتے ہیں‘ لیکن جن بنیادوں پر دو ریاستوں کی آبادیوں کو انہوں نے اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے وہ نظریات یا عقائد کا مجموعہ نہیں۔ ایران میں اسلام کا ایک مخصوص تصور پایا جاتا ہے‘ جس پر یقین رکھنے والوں کو اہل تشیع کہتے ہیں۔ رسولﷺ کے سوا‘ بیشتر معاملات میں ان کے عقائد مختلف ہیں اور آگے چل کر اہل تشیع میں بھی ایک تقسیم ہے۔ عراق کے شیعہ مسلمان اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور ایران کے الگ۔ عراقی شیعہ خود کو‘ ایرانیوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ عربی النسل اہل تشیع‘ سعودی حکمران خاندان کی طرف جھکائو رکھتے ہیں‘ جبکہ ایرانی شیعہ اپنی قومی اور تہذیبی شناخت کو اہمیت دیتے ہیں۔ شرق اوسط کی سیاست کو انہی دو فرقوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ ان سے علیحدہ ایک نیا گروپ سامنے آ رہا ہے جو اپنے مقاصد کے لئے تشدد پر یقین رکھتا ہے۔ اسے داعش کہا جاتا ہے۔ اس کا سربراہ ابوبکر البغدادی ہے‘ جو خود کو خلیفہ قرار دیتا اور اپنے ہاتھ پر بیعت لیتا ہے۔ یہ اسامہ بن لادن سے آگے کی چیز ہے۔ عقائد خدا جانے کیا ہیں؟ لیکن اپنے گروپ کو پھیلانے کا طریقہ واردات جداگانہ ہے۔ اس نے تیل کے ذخیرے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بظاہر ساری عالمی طاقتیں اس کے خلاف ہیں‘ لیکن اس سے تیل خریدنے والوں کو کوئی نہیں روکتا۔ یہ تیل اور مالدار عربوں سے حاصل کردہ دولت کے بل بوتے پر کرائے کے جنگجو بھرتی کرتا اور ان کی طاقت کو استعمال کر کے اپنے گروہ میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ پاکستانی حکمران یہ بات نہیں مانتے۔ عام طور سے کہا جاتا ہے کہ داعش نے پاکستان میں بھی اپنے اثرات پھیلانا شروع کر دیئے ہیں۔ ہمارے لئے داعش کا خطرہ افغانستان سے ابھر رہا ہے۔ اسے دولت اسلامیہ کہا جاتا ہے یا عالمی میڈیا میں اسے داعش لکھا جاتا ہے۔ یہ گروہ مشرقی افغانستان میں اپنا مرکز قائم کر چکا ہے۔ اس کے کارندوں میں زیادہ لوگ افغانستان اور پاکستان سے بھرتی کئے گئے ہیں۔ صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے بہت سے مایوس طالبان بھی داعش میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ بھی ظلم اور بربریت کے ذریعے اپنا دبدبہ قائم کرتے ہیں۔ شرق اوسط اور مغربی ملکوں کے متعدد باشندوں کو گرفتار کر کے اپنے کیمپوں میں لے جاتے ہیں اور دہشت پھیلانے کے لئے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا کر ویڈیوز بناتے ہیں جو انٹرنیٹ پر لوڈ کر دی جاتی ہیں۔ دہشت پھیلانے کا یہ طریقہ بڑا موثر ثابت ہو رہا ہے۔ یہ گروہ ظلم کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتا ہے۔ قیدیوں کو قطار میں بٹھا کر ان کے سروں میں گولیاں ماری جاتی ہیں‘ جبکہ افغانستان میں یہ زمین کے اندر بم دبا کر ان کے اوپر قیدیوں کو بٹھاتے ہیں اور بم کا دھماکہ کر کے قیدیوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے جاتے ہیں۔ یہ گروہ اپنا ایک مرکز قائم کرنا چاہتا ہے‘ جہاں سے وہ گردونواح کے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے‘ اپنی نام نہاد خلافت کو وسیع کر لے۔ افغانستان سے اس کی نظریں پاکستان کی طرف ہیں اور دوسری جانب یہ شام اور عراق کے جن حصوں کو ملا کر خلافت قائم کئے بیٹھا ہے‘ وہاں سے ان دونوں ملکوں کی مزید زمین پر قبضہ کر کے ''خلافت‘‘ کو وسعت دینا چاہتا ہے‘ مگر اس طرح کے بوسیدہ اور ٹھکرائے ہوئے دقیانوسی خیالات کی بنیاد پر کوئی مملکت یا طاقت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ ان بنیادوں پر ماضی قریب میں دو افراد خلیفہ بن چکے ہیں‘ مگر آج ان دونوں کی خلافتوں کا کوئی وجود نہیں رہ گیا۔ اسی طرح یہاں بھی جو لوگ اپنے اپنے گروہ بنا کر خلافت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ عراق‘ شام اور افغانستان‘ اس تہذیب کے قریب سے ہو کر نہیں گزرے‘ جہاں پاکستان آ چکا ہے۔ جدید اسلحہ اور تعلیم و تربیت سے لیس
پاکستانی فوج‘ دہشت گردوں کی کمر توڑ چکی ہے۔ اب اس کے شکست خوردہ گروہ‘ کہیں کہیں خودکش حملے کر کے دہشت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ساتھ ہمارے عوام بھی دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کرنے پر تیار ہو رہے ہیں۔ چارسدہ میں جس طرح عوام خود بندوقیں لے کر فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے نکل آئے تھے‘ یہ سلسلہ اب آگے بڑھے گا۔ ہمارے سیاستدان بے ہمت اور بے حوصلہ ہیں‘ لیکن عوام اور فوج کے حوصلے بلند ہیں اور یہی دو طاقتیں ہیں جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دہشت گردوں کا صفایا کریں گی۔ ہمارے سیاستدان تو خونخوار درندوں کو دہشت گرد کہنے سے بھی ڈرتے ہیں اور انہیں ''شدت پسند‘‘ کہہ کر اپنی جان بچاتے ہیں۔