تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-01-2016

تین کروڑ بھوکے

آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عام آدمی ریاست کے ساتھ کھڑا ہو گا؟ کیسے کھڑا ہو گا؟... اور اس کے بغیر یہ جنگ آپ جیتیں گے کیسے؟... تین کروڑ آدمی بھوکے ہیں، حضورِ والا، تین کروڑ بھوکے!
جنرل راحیل شریف کی زبان اللہ مبارک کرے۔ خدا کرے کہ اس عفریت کو دفن کرنے میں وہ کامیاب رہیں۔ سوال یہ ہے کہ تنہا فوج کیا کرے گی؟ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ آوے کا آوا ہی۔ 
سب سے سنگین مسئلے پر بات کرنے کی ہمیں توفیق تک نہیں۔ نام نہاد دانشوروں اور نہ لیڈروں کو، جن کے ہاتھ میں ہماری عنان ہے۔ 53 لاکھ آدمی بے روزگار ہیں۔ ایک پاکستانی کنبہ چھ افراد پر مشتمل ہوتا ہے، تین کروڑ آدمی بھوکے ہیں۔
سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ تشریف لائیں۔ چکّی پیستے ہاتھوں پر نشان پڑ گئے تھے۔ آپؐ سے عرض کیا: ایک خادم عنایت فرما دیجیے۔ باپ سے بیٹی کو ایسی محبت تھی کہ عربوں نے انہیں ''امّ ابیہا‘‘ کہا۔ اپنے باپ کی ماں۔ رشتوں ناتوں میں آپؐ بہت حساس تھے۔ چچا امیر حمزہؓ جنگِ احد میں شہید ہوئے تو کہا تھا: حمزہ کو رونے والے کہاں ہیں؟ قربانی کا جانور ذبح کرتے تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی سہیلیوں کو فراموش نہ کرتے۔ کون جانتا ہے کہ خاتونِ جنّت نے حال بیان کیا تو دل پر کیا گزری ہو گی۔ ارشاد مگر یہ فرمایا: میرے پاس تو اصحابِ صفہؓ کے لیے بھی کچھ نہیں۔ 
مہاجرین مدینہ پہنچے تو مواخات قائم کی۔ اوّل ان کے رزق کا بندوبست کیا۔ پھر دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ اپنے مفلسوں اور محتاجوں کو ہم نے حالات کے حوالے کر دیا۔ سپنا یہ ہے کہ مملکتِ خداداد کی خدا حفاظت کرے گا۔ کیوں کرے گا؟ اس کے سچّے رسولؐ کا فرمان تو یہ ہے کہ اللہ اس بستی کی حفاظت سے بے نیاز ہوا، جس میں شب کو کوئی بھوکا سو رہا۔ 
تین، سوا تین کروڑ وہ، جن کا کوئی وسیلہ ہی نہیں۔ جو برسرِ روزگار ہیں، ان کا حال کیا ہے؟ لاہور کی ایئرکنڈیشنڈ بنانے والی ایک فیکٹری میں سات ہزار ملازم ہیں مگر ان میں سے صرف ساڑھے چار سو باقاعدہ، باقی عارضی ہیں۔ وزیرِ اعظم کے ایک چہیتے نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو حکم دے رکھا ہے کہ کوئی وہاں قدم نہ رکھے۔ باقاعدہ ملازم کی کم از کم تنخواہ 13 ہزار روپے ہوتی ہے۔ اس کا سوشل سکیورٹی کارڈ بنتا ہے۔ وہ خود بیمار ہو یا خاندان کا فرد، سوشل سکیورٹی ڈسپنسری میں اس کا علاج کرنا ہوتا ہے۔ سبکدوش ہو گا تو بڑھاپے کی پنشن ملے گی۔ ای او بی آئی نام کا وہ ادارہ ذمہ دار ہو گا، ہر چند برس کے بعد جس کا سرمایہ لٹ جاتا ہے۔ اربوں روپے زرداروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں، دولت کی فروانی جن کے انسانی اوصاف نگل چکی۔ لاہور ہی میں ایک بیکری پاکستان کا سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوا کاروبار ہے۔ اڑھائی سو سے زیادہ شاخیں اور 25 ہزار ملازم۔ ان میں تھوڑے ہیں، جو اپنا حق جتا سکتے ہیں، باقی سب کے سب عارضی۔ نیک لوگ ہیں۔ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال میں سینکڑوں ہزاروں مریضوں کو وہ کھانا فراہم کرتے ہیں۔ مگر خیرات کیا ظلم کی تلافی کر سکتی ہے؟ 
اکثر کارخانوں میں یہی ہے۔ ہر کہیں ظلم، ہر کہیں بھوک۔ لیبر نام کا ایک محکمہ قائم ہے، جس کی ذمہ داری ہے کہ مزدوروں کی نگہداشت کرے۔ دوسرے صوبوں کا پتہ نہیں مگر پنجاب کا معاملہ معلوم ہے۔ لیبر انسپکٹروں کو حکم ہے کہ وہ فقط عمارتوں کا خیال 
رکھیں۔ یہ حکم بھی سندر انڈسٹریل اسٹیٹ والے حادثے کے بعد جاری ہوا۔ حفاظتی انتظامات کی وگرنہ کس کو پروا ہے۔ صرف سالِ گزشتہ فیکٹریوں کے بوائلر پھٹ جانے سے 150 مزدور ہلاک ہوئے۔ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں اور کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ ٹریڈ یونین کبھی موثر تھی۔ اب کسی کی مجال نہیں کہ دخل دے۔ ایسے کئی مزدور لیڈروں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنے ہیں، جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ مطالبات پر اصرار کرنے والے بعض مزدوروں کو پولیس مقابلوں میں مار ڈالا گیا۔ کارخانہ دار حکمران خاندان کے شہزادوں یا دبدبہ رکھنے والے دوسروں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ بیچارے لیبر انسپکٹروں کی کیا ہمت کہ سرتابی کریں۔ فیصل آباد کا ایک لیڈر، جو غلط اور صحیح کی حماقت میں نہیں پڑتا، اس شہر کے رئوسا کا محافظ ہے۔ 
ایک تنظیم ہے آئی ایل او، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن۔ اس کے علاوہ یورپی یونین بھی نگرانی کرتی ہے کہ ہماری صنعتِ پارچہ بافی کو بعض مراعات اس نے دے رکھی ہیں۔ عدنان عادل صاحب سے کہ تحقیق انہوں نے کی ہے، میں نے پوچھا کہ کبھی وہ لوگ یہاں آیا کرتے تھے۔ کہا: اب بھی آتے ہیں۔ کاغذات میں جعلی مزدور انجمنیں قائم ہیں۔ ان کی فائلیں دکھا دی جاتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر بعض ''اداکاروں‘‘ سے شاید ملاقات کا اہتمام بھی ہوتا ہو۔ عدالتِ عظمیٰ کئی بار حکم دے چکی کہ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کرایا جائے۔ کون کرائے؟ حکومت ہی ان کی ہے اور کب نہیں تھی؟ جب فوج برسرِ اقتدار تھی تب یہی زردار پیشوا تھے۔ اپنے ووٹ کی پرچی سے یہ ملک عامیوں نے بنایا تھا مگر اقتدار ان کا ہے، جو آخری وقت تک یونینسٹ پارٹی کے ساتھ تھے۔ قوم کے بانی نے یہ کہا تھا: محنت کش کا خون چوسنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ اپنے اللہ کے پاس چلے گئے تو درندے اور بھی آزادہو گئے۔ آدھی سے زیادہ معیشت غیر دستاویزی ہے، تاریکی میں بیوپار۔ ٹیکس ادائیگی کی شرح 9 فیصد ہے، جو وزیر خزانہ گیارہ فیصد بتاتے ہیں۔ چلیے، گیارہ فیصد ہی سہی، پڑوسی ملک کی طرح 16 فیصد کیوں نہیں؟ باقی ماندہ معیشت کیا ہمیشہ کالی ہی رہے گی؟ 6000 ارب روپے ٹیکس وصول ہو سکتا ہے مگر امسال ہدف 2600 ہے۔ ایف بی آر والے خوشحال ہیں۔ جاگیردار اور کارخانہ دار آسودہ ہیں۔ عام آدمی کچلا گیا۔ کوئی اس پہ رونے والا بھی نہیں۔ پی آئی اے کے مفت خوروں کی سب کو فکر ہے۔
روپیہ میٹرو پر لگے گا یا اورنج ٹرین پر۔ ملازمتیں کیسے پیدا ہوں؟ دو ارب روپے گلبرگ کی مرکزی شاہراہ پہ صرف ہوئے، اب پھر اکھاڑ پچھاڑ۔ رائے ونڈ روڈ پر 6 ارب۔ گلبرگ سے موٹر وے تک نئی سگنل فری روڈ کے لیے اٹھارہ ارب۔ امسال چار ارب میٹرو کی سبسڈی میں چلے گئے۔ اگلے برس؟ میٹرو، موٹر وے اور اورنج ٹرین میں کتنی ملازمتیں پیدا ہوں گی؟ ایک کروڑ کے خرچ سے دو چار۔ چھوٹی صنعتوں میں ایک لاکھ سے ایک ملازمت تخلیق ہو جاتی ہے۔ برآمدات کم ہو گئیں۔ کاشتکار سسک رہا ہے۔ تیل کی قیمت 110 ڈالر سے 25 ڈالر ہو گئی، غریب کا بھلا نہ ہوا۔ 
45 فیصد تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ 2 کروڑ بچّے سکول نہیں جاتے۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پہ تین تین مریض پڑے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ 60 فیصد شہریوں کی آمدن دو ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔ ملک سے وہ کتنی محبت کریں گے؟ وہ اذیت پسند ہو گئے۔ مٹی سے نہیں، انسانوں کو ملک سے محبت ہوتی ہے، اگر وہ ملک ہو۔ آج ویزہ میسر ہو تو 70 فیصد لو گ ہجرت کر جائیں۔ 
اس میں تعجب کیا کہ لوگ اپنے بچّے مدارس کو سونپ دیتے ہیں کہ روٹی بھی ملتی ہے۔ فرقہ پرست اور مذہبی جنونی کیوں پروان نہ چڑھیں؟ کراچی خون میں نہاتا ہے۔ بلوچستان اور قبائلی پٹی بھی۔ جو بھوکا ہے، جسے دھتکار دیا گیا، وہ جرم نہیں تو کیا عبادت کی طرف مائل ہو گا؟انہی میں سے داعش اور طالبان کیا خودکش قاتل نہ چنیں گے؟
اوّل غریب کو نوکری ملتی ہی نہیں۔ ملے تو دس ہزار روپے ماہوار۔ اپنے بچے کو وہ کیسے پڑھائے؟ روٹی کیسے کھائے؟ داتا گنج بخشؒ کے مزار پر؟ سرما کی یخ بستہ ہوائیں، مزدور کے پائوں میں پلاسٹک کی چپل اور ایک بوسیدہ چادر۔ پولیس اور عدالت دولت مندوں کی کنیزیں ہو گئیں۔ 
آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عام آدمی ریاست کے ساتھ کھڑا ہو گا؟ کیسے کھڑا ہو گا؟... اور اس کے بغیر یہ جنگ آپ جیتیں گے کیسے؟... تین کروڑ بھوکے، حضورِ والا، تین کروڑ بھوکے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved