تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     29-01-2016

حاکم، محکوم اور غلامانہ ذہنیت

غلامی جسمانی ہو یا ذہنی، تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہے ۔ یہ محکوم افراد کو اس حد تک مفلوج کردیتی ہے کہ نہ وہ جیتا ‘نہ ہی مرتا ہے۔ اُس کی کرب ناک مایوسی اُس کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنادیتی ہے۔ کسی فرد کی موت یا قوم کی تباہی اُسے کم از کم اذیت سے نجات دلا دیتی ہے لیکن غلامی ایک ایسی قید ِ بامشقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ طویل عرصے تک محکومی غلامانہ ذہنیت کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس مزاحمت امید کے دیپ جلاتی ہوئے آزادی کے حصول کو اصل منزل قرار دیتی ہے۔جب کسی قوم پر آمرانہ تسلط کا غلبہ ہوجائے تو اس سے نجات آسانی سے نہیں ملتی۔ اگر اسے عارضی طور پر شکست ہوبھی جائے تو بھی وہ اپنے پراکسی گروہوں، خوشامدیوں اور وفاداروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر اپنی گرفت جما لیتا ہے۔ 
آزادی کے بعد ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ پاکستان کی اشرافیہ نے اسے استعماریت کی صف ِاوّل کی ریاست بنادیاجبکہ عوام کو اختیارات دینے کی آڑ میں ان کی حق تلفی شروع کردی گئی۔ جنرل ایوب خان نے امریکی قیادت میں بننے والے سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ''سرخ ایشیا‘‘ سے نمٹنے کی کوشش میں عوام دشمن پالیسیاں بنائیں۔ جنرل ضیا اور مشرف نے بھی انہی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان کو مغرب کی سیارچہ ریاست بنا دیا۔یہ افسوس ناک صورت ِحال پاکستان کے علاوہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں دیکھنے میں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس صورت ِحال کو ''افسانوی آزادی‘‘ قرار دیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ موجودہ فوجی قیادت اور جنرل راحیل شریف کے جانشین ملک کو دوبارہ اس افسانوی التباسات کا شکار نہیں ہونے دیںگے۔جنرل صاحب کا پچیس جنوری کو کیا گیا اہم اعلان بہت سے افراد کی افسانوی خواہشات کا خون کرگیا۔ 
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بھی نوآبادیاتی طاقتیں اپنے ایجنٹوں(جو اُن کے مقامی پٹھو ہوتے ہیں) کے ذریعے محکوم اقوام پر حکمرانی کرتی رہی ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان کو ملٹری اشرافیہ اور مطلق العنان بیوروکریسی نے دبائے رکھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت( جسے ناقدین عدالتی قتل بھی قرار دیتے رہے ہیں)کے بعد ہر حکمران نے طاقتور افسران ، گیریژن سٹیٹ، کی مرضی کے سامنے سر ِ تسلیم ختم کرنے کی پالیسی اپنائی۔ عسکری اشرافیہ نے سیاست دانوں کی صفوں میں موجود اپنے چمچوں کے ذریعے ملکی سیاست کو کنٹرول کرنا شروع کردیا۔آزادی کے بعد پیش آنے والے بہت سے واقعات نے پاکستان کو ایک ''سکیورٹی سٹیٹ ‘‘بنا دیا۔ اس دوران سیاست دانوں کا کردار بھی عوام دشمن ہی دکھائی دیا۔ جب بھی اُنہیں موقع ملا، اُنھوں نے اپنے مفادات پروان چڑھائے اور عوام کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے بھی غیر ملکی آقائوں کی منشا کی پیروی کی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک سپیکر نے بہت فخر سے ایک انگریز افسر کو بتایا۔۔۔''میرے آبائو اجداد برطانوی ملکہ کے ادنیٰ ملازم تھے اور میں بھی آپ کا ادنیٰ خادم ہوں۔‘‘(حسن این گردیزی کی کتاب''Neocolonial Alliances and Crisis of Pakistan‘‘ میں اس کا حوالہ موجود ہے)
دوبار محکوم بنائی گئی اقوام کے برعکس پاکستان میں ہر شخص برطانیہ اور امریکہ کے اسلام آباد سفارت خانے کی طرف سے دعوت نامہ ملنے پر فخر کا اظہار کرتا ہے ۔دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے دعوت ناموں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، بسااوقات دعوت رد بھی کردی جاتی ہے، لیکن اس پاک سرزمین کے سیاست دان ایک طرف، مذہبی رہنما ، جو عوام کے سامنے امریکہ اور مغرب مخالف کہلاتے ہیں، دعوت نامہ نہ ملنے پر افسردہ ہوجاتے ہیں۔ وہ امریکی مہمانوں کو بتاتے ہیں۔۔۔''ہمارے ساتھ رابطہ کرکے دیکھیں، صرف ہم ہی آپ کی منشا کے مطابق انتہا پسندی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ ‘‘شاید وہ نہیں جانتے کہ انتہا پسندی کے عفریت امریکہ کی ہی تخلیق تھے ، اور ان میں سے بعض کے ابھی تک ان اس سے خفیہ روابط ہیں۔ حال ہی میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک خفیہ میمو نیویارک کے ایک اہم اخبار میں شائع ہوا۔اس میمو کے مطابق پاکستان کی کسی سیاسی شخصیت نے کبھی امریکی سفارت خانے کے دعوت نامے کو رد نہیں کیا، چاہے کہ نائو نوش کی مخلوط پارٹی کی کیو ں نہ ہو۔ جب یہ رہنما عوام اور پریس کے سامنے جاتے ہیں تو امریکہ اور مغرب کے سامنے مزاحمت کی چٹان دکھائی دیتے ہیں لیکن ذاتی طور پر وہ ان ممالک کے افسران کی حمایت کے لیے چشم براہ رہتے ہیں۔ 
ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی مہمان ہماری عسکری قیادت، وزیر ِ اعظم ، صدر ِ مملکت، وزرا، سیاسی رہنمائوں اور سرکاری افسران سے کس طمطراق سے ملتے ہیں۔ مغرب سے آنے والے مہمانوں کا انداز حکمرانہ ہوتا ہے۔ ہم اُن کے میزبان نہیں، ملازم دکھائی دیتے ہیں اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ملازم لوگ نخرے نہیں کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے زیادہ تر مسائل کی وجہ ہماری یہی غلامانہ روش ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم انہی عطار کے لونڈوںسے دوا لیتے ہیں جن کی وجہ سے ہم بیماری سے گھائل ہوئے۔ افسوس، آزادی ہماری غلامانہ سوچ کا خاتمہ نہ کرسکی۔ 
حکمران اشرافیہ خو د کو عالمی سطح پرجمہوریت کا چیمپئن اور شہری آزادی کا داعی قرار دیتی ہے ،اس نے دنیا میں ایسی افراتفری پھیلا رکھی ہے جس میں ''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا اصول کارفرما ہو، تاکہ وہ اسے آسانی سے کنٹرول کرسکے۔ تاثرہے کہ وہ دنیا کو ''دہشت گردی‘‘ نامی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کر رہے ہیں۔ وہ طاقتور حلقے جو دنیا میں بے پناہ اہمیت رکھتے ہیں، وہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہوئے بہت سی کمزور ریاستوں پر اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ جنگ اس طرح ختم نہیں ہوگی جس طرح اس کا شکار ریاستیں اسے ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ طاقتور ریاستیں اپنے حامیوں کو طاقتور بنا کر مختلف ریاستوں میں افراتفری پھیلاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں فوجی آمر نے این آر او کے ذریعے ایسے افراد کو تقویت بخشی۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ این آر او کو پانچ اکتوبر 2007ء کے صدارتی انتخابات سے چند گھنٹے پہلے کسی خاص مقصد کے لیے متعارف کرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملکی وسائل کی بے پناہ لوٹ مار دیکھنے میں آئی۔ 2008ء کے انتخابات میں روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے ثابت کرکے دکھایا کہ جمہوریت کس انتقام کا نام ہے۔ عوام پر پٹرولیم کی مصنوعات کے ذریعے بھاری ٹیکسز کا بوجھ لادا گیا، اوربھاری اثاثے بنا کر بیرونی ممالک کی طرف روانہ کیے گئے۔ آج اسی جمہوریت کے جانشیں اسی روایت کو دہرارہے ہیں۔
ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی اصل وجہ یہی ہے ۔ غیر ملکی آقائوں کے حامی اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان کے پیش ِ نظر عوامی حمایت نہیں، واشنگٹن کی تھپکی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ ہماری خام خیالی کے سوا اور کیا ہے۔ گزشتہ دنوں باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے نے یہ بات ایک مرتبہ پھر ظاہر کردی ہے کہ ابھی پاکستان کے سُکھ کے دن آنے میں بہت دیر ہے۔چینی سرمایہ کاری اپنی جگہ پر ، لیکن ہمارا سیاسی قبلہ کیسے درست ہوگا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved