تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-01-2016

کُچھ ان کی‘ کُچھ اپنی

سب سے پہلے یہ نہایت افسوسناک خبر ہے کہ نثری نظم کی بادشاہ اور اُردو و پنجابی کی نامور شاعرہ نسرین انجم بھٹی کا اگلے روز کراچی میں انتقال ہو گیا۔ یہ خبر ہمیں ناصر بشیر نے دی اور اس کے بعد کشور کا بھی فون آ گیا۔ مرحومہ کافی عرصے سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھیں۔ ان کی پہلی کتاب ''میں نیل کرائیاں نیلکاں‘‘ ادبی حلقوں میں بیحد مقبول ہوئی۔ رہائش لاہور میں تھی اور اب بیمار ہو کر اپنی ہمشیرہ کے پاس کراچی گئی ہوئی تھیں۔ خدا ان کی مغفرت کرے۔ 
کُچھ دوست مُجھے اپنی شاعری مسیج بھی کیا کرتے ہیں جو زیادہ تر جناب ذاکر حسین ضیائی کی جانب سے ہوتی ہے۔ اس میں سے جو شعر میرے حساب کتاب میں آتا ہے وہ میں آپ کے ساتھ بھی شیئر کر لیتا ہوں۔ اس سلسلے کے کُچھ تازہ نمونے :
جُدا ہو کر بھی دونوں جی رہے تھے
کوئی تو ایک مرنا چاہیے تھا
(احمد رضا راجہ‘ راولپنڈی)
عکس کو آنکھ میں تھاما ہے سرِآبِ رواں
چاند پانی میں بسایا تو نہیں جا سکتا 
(میجر شہزاد نیرّ‘ گوجرانوالہ)
سب دُعائوں میں یاد رہتے ہیں
خود کو اکثر میں بُھول جاتا ہوں
(ڈاکٹر ندیم بخاری‘ مظفر گڑھ)
اُس کو الجھی ہوئی چیزوں سے بہت رغبت ہے
وہ مرے مسئلوں کو حل نہیں ہونے دیتا
(ڈاکٹر مختار مغل‘ آزاد جموں و کشمیر)
وہ جو آس کا پیش خیمہ تھی
وہی دیوار گر پڑی مُجھ پر
(شاہین بیگ‘ فیصل آباد)
سحر ہوئی تو کہیں جا کے محویت ٹوٹی
میں اُس کو دیکھ رہا تھا دیا جلاتے ہوئے
(انجم سلیمی‘ فیصل آباد)
حالت جو ہماری ہے تمہاری تو نہیں ہے
ایسا ہے تو پھر یہ کوئی یاری تو نہیں ہے
جتنی بھی بنا لی ہو‘ کما لی ہو یہ دُنیا
دُنیا ہے تو پھر دوست تُمہاری تو نہیں ہے
تحقیر نہ کر یہ مری اُدھڑی ہوئی گدڑی
جیسی بھی ہے‘ اپنی ہے‘ اُدھاری تو نہیں ہے
یہ تُو جو محبت کا صلہ مانگ رہا ہے
اے شخص تُو اندر سے بھکاری تو نہیں ہے
میں ذات نہیں بات کے نشے میں ہوں پیارے
اس وقت مُجھے تیری خُماری تو نہیں ہے
تنہا ہی سہی‘ لڑ تو رہی ہے وہ اکیلی
بس تھک کے گری ہے‘ ابھی ہاری تو نہیں ہے
مجمع سے اُسے یوں بھی بہت چڑ ہے کہ زریون
عاشق ہے مری جاں‘ مداری تو نہیں ہے
(علی زریون‘ فیصل آباد)
خوبصورت شاعر منصور آفاقی نے لندن سے مُجھ سے منسوب شدہ اپنی ایک غزل عزیزی عدنان خالد کو میسج کی ہے جنہوں نے صرف فون پر بتایا ہے‘ ابھی مُجھے نہیں بھیجی۔ مُجھے تو اس کا انتظار ہے ہی‘ آپ بھی کر لیں!
مندرجہ بالا اچھے اشعار کے مقابلے میں اُمید ہے کہ آپ حسب معمول میری شاعری بھی برداشت کر لیا کرتے ہیں‘ چنانچہ یہ تازہ غزل :
دُور کھڑا ہی ڈرتا اور جھجکتا ہوں
میں جو بظاہر تیری سمت لپکتا ہوں
مُجھے نکال کے باہر جو کرنا ہے کر
کب سے تیرے جال میں بڑا پھڑکتا ہوں
گالیاں بھی دیتا ہوں تُجھے خاکم بدہن
جانے تیرے ہجر میں کیا کیا بکتا ہوں
جو کُچھ مانگتا ہوں دے دے مُجھ کو، ورنہ
آگے بڑھ کر تُجھ سے چھین بھی سکتا ہوں
رہتا ہوں تیرے ہی دھیان میں شام و سحر
لیکن رستہ اور کسی کا تکتا ہوں
تیرا سورج بھی رکھتا ہے مُجھے روشن
اپنے اندھیروں میں کُچھ اور چمکتا ہوں
کسی اور سے کیا لینا دینا ہے مُجھے
کانٹا سا اپنے ہی دل میں کھٹکتا ہوں
میرے جیسے کئی اور ہیں‘ مُجھ سے بڑھ کر بھی
کبھی جو یہی سمجھتا تھا میں یکتا ہوں
مُجھے دکھاتے ہیں جو سیدھی راہ ظفر
میں ایسوں کے پاس بھی نہیں پھٹکتا ہوں
لیجنڈ ادیب انتظار حسین بعارضۂ نمونیہ داخل ہسپتال ہیں، ان کے لیے دعائے صحت یابی کی اپیل ہے۔
آج کا مطلع
گانے لگے گئے کہ ترانے لگے گئے
جو کچھ بھی تھے بہانے بہانے لگے گئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved