میں ابھی کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نعیم اختر خان کہنے لگا، ''تم پڑھے لکھے آدمی ہو، کہاں صحافت میں جھک مارنے آ گئے، چلو اب آ گئے ہو تو کام سے لگو، ہر شعبے میں ایک آدھ دن کام کرو، ہفتے بعد بتا دینا کہ تمہیں کس شعبے میں جانا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ فون کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے فون پر بات کرنے کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ میرا مستقبل کا باس کچھ اکھڑ مزاج معلوم ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ ابھی وہ دفتر میں کسی شخص کو بلاکر اسے میرے بارے میں ہدایات دے گا۔ میرے سفارشی طارق کلیم تھے اور میری پہلی صحافتی نوکری کے معاملات انہی کے سامنے طے ہو رہے تھے۔ خیر نعیم نے فون پر بات ختم کی، طارق بھائی نے کوئی جملہ کسا، جس کا جواب نعیم سے نہ بن پڑا۔ نجانے کس طرح بات سیاست تک آن پہنچی۔ میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تھے، نعیم کا خیال تھا کہ وہ یعنی نواز شریف کشتوں کے پشتے لگا دیں گے اور آخر کسی پشتے سے ٹکرا کر اقتدار سے باہر ہو جائیں گے۔ اب یاد نہیں بحثا بحثی کے کس مقام پر میں بھی گفتگو میں کود پڑا۔ یہ دھیان بھی نہ آیا کہ میں نوکری کا خواہشمند ہوں اور نعیم اختر خان اخبار کا مالک ایڈیٹر ہے؛ البتہ اتنا یاد ہے کہ بحث کے دوران چائے پیتے ہوئے اس نے چٹکی والا ایک گتہ میرے سامنے کیا‘ جس میں کٹے ہوئے اخباری کاغذ پھنسے ہوئے تھے۔ میں نے گتہ ہاتھ میں لے کر ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے کہا ''اداریہ لکھ دو‘‘۔ میں نے ہڑبڑا کر طارق بھائی کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کمرے سے باہر نکل جاؤ اور زبان سے
بولے، ''اب لکھو بھی نا‘‘۔ میں کمرے سے باہر آیا۔ اس دن کے اخبار کا اداریہ پڑھا، پھر دو تین قومی اخباروں کے اداریے دیکھے اور لکھنے بیٹھ گیا۔ دل میں خوف بھی تھا اور تھوڑا سا فخر بھی کہ میں سرگودھا کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار کا اداریہ لکھ رہا ہوں۔ اس ملی جلی کیفیت میں اداریہ لکھا، پڑھا، کمپوز کرایا، پھر پڑھا اور لے کر ایڈیٹر کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اس نے اداریہ پڑھا، طارق کلیم کو دکھایا، میری طرف تعریفی نظروں سے دیکھا اور کہا: آئندہ سے اداریہ تم ہی لکھا کرو گے۔ میری نوکری کا پہلا دن ختم ہوا تو نعیم اختر خان سے دوستی شروع ہو چکی تھی۔
دوستی ہوئی تو معاملات کچھ عجیب سے ہوگئے۔ دفتر میں میری متعین حیثیت کوئی نہیں تھی لیکن نعیم سے تعلق کی وجہ سے اخبار سو نہیں تو ننانوے فیصد میرے کنٹرول میں تھا۔ ایک ایسا اخبار جس کی اشاعت ہزاروں میں ہو، جس میں چھپنے والی خبریں ڈویژن بھر کی انتظامیہ اور سیاست کو پریشان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں، اس کا انتظام و ادارت کسی نو آموز صحافی کو سونپ دینے کے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں‘ وہ ہوئے۔ نعیم اختر خان کو کئی بار میری ناتجربہ کاری کی وجہ سے مصیبتیں اٹھانا پڑیں‘ لیکن اس نے میری آزادی محدود کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میری تنخواہ کا معاملہ بھی عجیب تھا اور مکمل طور پر میری صلاحیت پر منحصر تھا۔ وہ اس طرح کہ میں ایک مہینے میں ایڈیٹر کو جتنا بلیک میل کر سکوں وہ میری تنخواہ کے حساب میں لکھ دیا جاتا اور یہ رقم ہر مہینے بدلتی رہتی تھی۔ وہ تمام اخراجات جو میں دفتر کے اندر یا ایڈیٹر کے ساتھ ہوتے ہوئے کرتا تھا وہ بذمہ ادارہ تھے اس لیے وہ رقم جسے میں تنخواہ کہتا تھا نعیم اسے بھتہ خوری میں شمار کرکے ہنسی خوشی ادا کر دیتا تھا۔ نعیم اختر خان سے جس کھلے انداز میں روپے پیسے کا معاملہ اس زمانے میں ہوا کرتا تھا، زندگی میں اس سے پہلے کسی کے ساتھ پیش آیا نہ اس کے بعد۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ مالی معاملات ہمیشہ دوستوں کے درمیان بیٹھ کر طے پاتے اور وہ سب ہماری تکرار کا مزا لیتے۔ ایک بار اخبار کے اکاؤنٹنٹ نے کسی کھاتے میں میرے ذمے ڈھائی ہزار روپے نکال کر ایڈیٹر کے نام نوٹ بھیجا کہ یہ رقم مجھ سے وصول کرائی جائے۔ نعیم نے وہ پرچی بٹوے کے اندر رکھی اور اکاؤنٹنٹ کو منع کر دیا کہ مجھ سے اس بارے میں کوئی بات نہ کی جائے لیکن خود اس نے دوستوں کی ہر مجلس میں ادارے میں بدعنوانی کا ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیا اور تحریری ثبوت کے طور پر وہ پرچی بٹوے سے نکال کر سب کو دکھاتا۔ ظاہر ہے میں بھی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا تھا۔ اس کے بعد ہمارے درمیان ہزاروں روپے کا لین دین ہوا لیکن میں ڈھائی ہزار کا مقروض ہی رہا۔
مجھے اس کے اخبار میں کام کرتے چھ مہینے ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اس نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور بھاری لہجے میں بولا، ''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں نوکری سے نکال دیا جائے‘‘۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، میرا خیال تھا کہ وہ ڈرامہ کر رہا ہے لیکن اس کے چہرے کی سنجیدگی کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ میں نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے روک دیا۔ تھوڑا ٹھہر کر پھر کہنے لگا، ''تمہیں صحافت کرنی ہے تو کسی بڑے شہر میں کرو، تم سرگودھا جیسے شہر میں جتنی صحافت کر سکتے تھے کر لی، جتنا کچھ میرے اخبار سے سیکھ سکتے تھے سیکھ لیا، اب تم اگلی منزل کی طرف بڑھو، کامیاب رہے تو خوب، ناکام ہوئے تو واپس آ کر میری کرسی پر بیٹھ جانا‘‘۔ میری حالت عجیب و غریب تھی۔ مجھے میری پسندیدہ نوکری سے نکال دیا گیا تھا اور صرف ناکام ہونے کی صورت میں ہی اس نوکری پر واپس آ سکتا تھا۔ میں نے کراچی جا کر صحافت میں ہاتھ پاؤں مارنا شروع کیے تو نعیم کے ساتھ کام کرنے کے ششماہی تجربے کی بدولت معاملات آسان ہوتے چلے گئے۔
وہ سر تا پا ایک صحافی تھا اور خدمت اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں وہ واحد آدمی دیکھا ہے جو دوسروں کی مدد کے لیے تن کے کپڑے اتار کر دینے کا بھی حوصلہ رکھتا تھا۔ مال و متاع اگر وافر ہو تو بھی اس میں سے دیتے ہوئے لوگوں کے کلیجے منہ کو آتے ہیں‘ لیکن کسی دوسرے کی مدد کرنے کے لیے اپنی ضرورتوں کو محدود کر لینا کتابوں میں پڑھا ہے یا اس میں دیکھا۔ کسی مظلوم کے حق میں ڈٹ جانا کسے کہتے ہیں، یہ کوئی نعیم سے سیکھے۔ سترہ اٹھارہ برس ہوتے ہیں کہ سرگودھا کے ایک صحافی کو مقامی ایم این اے نے تشدد کا نشانہ بنایا‘ اس پر نعیم نے جس انداز میں ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت سے ٹکر لی‘ وہ ایک ناقابلِ یقین کہانی ہے، اس وقت دباؤ اتنا تھا کہ تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی کی قوتِ برداشت بھی جواب دے گئی اور نعیم اکیلا رہ گیا لیکن اس وقت بھی اسے کوئی ڈرا سکا نہ خرید سکا۔
نعیم خان کوئی تاریخ شخصیت نہیں ہے اور یوں بھی دوستی، وفا شعاری، دلیری اور وضع داری جیسے اوصاف کی جگہ تاریخ میں نہیں دلوں میں ہوتی ہے؛ 'جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘ کا مضمون۔ نعیم کی تعزیت کے لیے اس کے گھر کے سامنے بچھی دری پر بیٹھے مظہر خان نے کہا: ''میں اپنے ہاتھوں سے نعیم کو دفنا کر آیا ہوں، لیکن یوں لگتا ہے کہ وہ ابھی کہیں سے ہنستا ہوا آ جائے گا‘‘۔ مظہر کی بات سن کر ایک لمحے کو سب خاموش ہو گئے، یوں لگا واقعی نعیم بس آنے ہی والا ہے، آنکھیں تب بھیگیں جب وہ نہیں آیا۔