فرمایا: ''کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام‘‘ زمین پر جو کچھ ہے فنا ہو جانے والا ہے‘ بس باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ بے حد بزرگی اور بے پناہ عظمت والا!
اول و آخر فنا ظاہر و باطن فنا
نفسِ کہن ہو کہ نَو، منزلِ آخر فنا
پیپلزپارٹی نے اپنا کھیل خوب کھیلا۔ چوہدری نثار علی خان ایسے جہاندیدہ سیاستدان کو گھیر گھار کر وہ ایسی جگہ لے آئے ہیں، جہاں سے غنیم پر بھرپور وار کرنا ان کے لیے نسبتاً مشکل ہے۔ حریف نے‘ جو دراصل صدر آصف علی زرداری ہی ہو سکتے ہیں‘ بظاہر تہیہ کر لیا ہے کہ چوہدری کے خلاف ایک بھرپور اور نتیجہ خیز جنگ لڑی جائے۔ میرا خیال ہے کہ جمعرات کی پریس کانفرنس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کر لیا ہے۔ ایسی جنگ میں اہم ترین چیز یہ ہوتی ہے کہ اپنے دفاع کا بندوبست کر کے مقابلے کا آغاز کیا جائے۔ اس نکتے کو شاید انہوں نے فراموش کر دیا اور اس کا سبب غالباً وہ بیزاری ہے جو بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کا انسداد ان کے اختیار میں ہے اور نہ ان کے یارِ غار جناب شہباز شریف کے ہاتھ میں۔ پارٹیاں نہیں، پاکستان میں لیڈر ہوتے ہیں۔ نون لیگ اصل میں نواز شریف ہیں۔ اپنے بھائی پہ وہ اس سے زیادہ شفیق ہیں، جتنے کہ عام طور پر سیاستدان ہوا کرتے ہیں۔ خود شہباز شریف بھی بڑے بھائی کے سامنے مودّب رہتے ہیں۔ اپنے مرحوم والد کی زندگی ہی میں انہوں نے نواز شریف کو ''میاں صاحب‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ میاں صاحب انہیں شہباز کہہ کر بلاتے ہیں۔ خاندان میں حفظ مراتب بہت ہے اور یہ اس کی کامیابیوں کا ایک سبب ہے۔ میاں محمد شریف مرحوم حیات تھے تو فرزند ان کے سامنے سعادت مندی کی تصویر بنے پرائمری سکول کے شاگردوں کی طرح کھڑے رہتے۔ ضرورت پڑتی تو آخری فیصلہ وہی صادر کیا کرتے۔
اپنے غیر معمولی تحرک سے میاں شہباز شریف نے خواہ کتنے ہی سنگ میل عبور کیے ہوں، ووٹروں میں خواہ کم و بیش وہ اتنے ہی مقبول ہوں، جتنا کہ بڑا بھائی‘ پارٹی میں نواز شریف کی پذیرائی مگر بہت زیادہ ہے۔ شہباز شریف برہم ہو جاتے ہیں۔ پارٹی کے لیڈروں اور ارکان اسمبلی ہی نہیں، سرکاری افسروں پر بھی۔ فرض کیجیے کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جس میں وہ پارٹی کے سربراہ ہو جائیں تو نواز شریف ایسی گرفت اور کامیابی ان کے لیے مشکل ہو گی۔ ربع صدی ہوتی ہے، ایک تقریب کے ہنگام محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے ایک افسر سے جھلا کر انہوں نے کہا: کرسی اٹھا کر لائو، وہ وہیں جما کھڑا رہا، درآں حالیکہ وہ ان کا حامی تھا اور سبکدوشی کے بعد بھی رہا۔ مخالفین کو نواز شریف معاف نہیں کرتے۔ ہر چیز وہ اپنے ہاتھ میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے معاملے میں وہ ایک سخت گیر محتسب بہرحال نہیں۔
وہ بات انہوں نے بہت پہلے سمجھ لی تھی، جو اس معاشرے میں سیاست کی کلید ہے۔ ذاتی سرپرستی، ذاتی تعلقات، انگریزی میں جسے Kinship کہا جاتا ہے۔ یہ قانون کی بالاتری سے محروم، یہ عدم تحفظ کا مارا ہوا معاشرہ ہے۔ جمہوریت آئی ہے مگر معاشرے کے مزاج کا حصہ نہیں بنی۔ قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ پارٹی کا سربراہ درحقیقت ایک قبیلے کا سربراہ ہوتا ہے۔ ترکی اور ملائشیا کی طرح ایسی جدید سیاسی جماعت یقیناً تشکیل پا سکتی ہے، جس میں نچلی سطح تک عہدیدار منتخب ہوں۔ اس مقصد کے لیے مگر جس خلوص اور بے غرضی کی ضرورت ہے، قائد اعظمؒ کے بعد وہ کسی رہنما میں نہیں تھا۔ جہاں تک بابائے قوم کا تعلق ہے، ان کو سارا وقت طوفانوں میں کشتی چلانا پڑی۔ 59 برس کے تھے جب ٹی بی کا شکار ہو گئے۔ ان کی ساری توانائی کانگریس، قوم پرست مسلمانوں اور انگریزی استعمار سے نمٹنے میں کھپ گئی۔ پارٹی ان کی اتنی مددگار نہ تھی جتنی کہ ہو سکتی۔ نوجوانوں پر وہ بھروسہ کرتے اور رائے عامہ پر۔ اکثر پارٹی لیڈر تو عمر بھر ان کے لیے مسائل ہی پیدا کرتے رہے؛ بایں ہمہ وہ ایک مکمل طور پر جمہوری آدمی تھے؛ اگرچہ ڈسپلن کے معاملے میں گاہے سخت گیر بھی ہو جاتے۔ وہ عظیم اخلاقی صفات کے حامل تھے۔ جھوٹ کبھی نہ بولا، غیبت کبھی نہ کرتے، وعدہ ہمیشہ پورا کرتے، بدترین مخالف بھی ان پر ذرا سی خیانت کا الزام کبھی عائد نہ کر سکا۔ ان کے بعد کوئی بڑا لیڈر ہمیں نصیب نہ ہوا، جو ایسا متوکل، اس قدر صاحب حکمت اور تمام وقت اس قدر چوکس ہوتا۔ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ معلوم نہیں بعض بزرجمہر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ 1895ء میں پہلی بار یہ اصطلاح منظر عام پر آئی۔ اس وقت جناح کی عمر 19 برس تھی ۔ ان کی زندگی ہی میں یہ ایک نعرہ بن گئی مگر انہوں نے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کیا۔ ایک نہیں‘ دو نہیں‘ بار بار انہوں نے کہا کہ قرآن مسلمانوں کا دستور ہے۔ 11ستمبر 1948ء کی ایک تقریر دانشوروں نے رٹ لی ہے‘ جیسے کوئی اقبال کے اشعار میں سے ایک شعر کو پکڑے اور اس پر ان کی تمام فکر کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرے۔
سچی بات یہ ہے کہ قائد اعظم اس طالب علم کی کمزوری ہیں۔ اس لیے کہ خاندانی روایت میں نہیں‘ اپنے مطالعے اور غور و فکر سے اس نے انہیں دریافت کیا۔ حریفوں سے ان کا موازنہ کیا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا یہ جملہ اس کے دل پر دستک دیتا رہتا ہے: وہ بیسوی صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔
بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ خورشید شاہ پر ''مک مکا‘‘ کا الزام لگا کر چوہدری نثار علی خان نے ایک طرح سے وزیر اعظم کو بھی قصوروار ٹھہرا دیا ہے۔ ابھی چند برس پہلے تک چوہدری صاحب پوٹھوہار کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کی مرضی کے بغیر راولپنڈی میں ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے ہلتا نظر نہ آتا تھا‘ ان کی سیاسی بصیرت پر شریف برادران کو اعتماد تھا۔ کہا جاتا ہے پچھلی بار ان سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اب مگر پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ۔ وزیر اعظم ان کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ شہباز شریف اگر نہ ہوتے اور عمران خان اگر نہ ہوتے تو شاید وہ اس سے کمزور تر ہوتے۔ شہباز شریف اس لیے کہ ان کے دوست ہیں اور ایسے دوست کہ جیسے لنگوٹیے ہوا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رازدار‘ ایک دوسرے کے غم خوار اور ہم نفس۔ عمران خان اس لیے کہ ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ہے۔ فرض کیجیے چوہدری نثار علی خان عمران خان سے جا ملیں؟ میں نہیں کہتا کہ تحریک انصاف غالب دکھائی دینے لگے گی۔ نون لیگ کے لیے مگر مسائل بہت بڑھ جائیں گے۔ پیپلز پارٹی میں ظاہر ہے کہ چوہدری کبھی جا نہ سکتا تھا۔ تحریک انصاف بھی اسے پسند نہیں۔ وہ اسے پارٹی ہی نہیں سمجھتا۔ اگر وہ ایک گھلنے ملنے والا آدمی ہوتا تو شاید ایک پارٹی بنانے کی سوچتا‘ مگر وہ ایسے ہیں کہ آسانی کے ساتھ کوئی ان سے رابطہ بھی نہیں کر سکتا۔ آخری تجزیے میں نون لیگ ہی انہیں سازگار ہے اور وہ نون لیگ کو۔ میاں محمد نواز شریف کے مزاج کا مگر کیا کیجیے اور چوہدری صاحب کے مزاج کا کیا کیجیے۔ انسان کی افتاد طبع ہی اس کی تقدیر ہے اور جیسا کہ جرمن فلسفی ہیگل نے کہا تھا: تضادات آخرکار اپنا جلوہ دکھاتے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کھیل شروع ہو چکا۔ بہت سے لوگ شاید اس میں کھیت رہیں۔
فرمایا: ''کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام‘‘ زمین پر جو کچھ ہے فنا ہو جانے والا ہے‘ بس باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ بے حد بزرگی اور بے پناہ عظمت والا!
اول و آخر فنا ظاہر و باطن فنا
نفسِ کہن ہو کہ نَو، منزلِ آخر فنا