جنرل راحیل شریف کی توسیع یا ریٹائرمنٹ کا مسئلہ اپنی پوری دلچسپی کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے‘ یعنی اس کا ایک نیا دور دراصل اب شروع ہونے جا رہا ہے جس میں بُنیادی بات یہ ہے کہ یہ بات آئندہ کے حالات پر منحصر ہے کہ بالآخر یہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا جبکہ اس سے بہت سوں کے اندازے اگر غلط ثابت ہوں گے تو بہت سوں کے درست بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریٹائرمنٹ کی صورت میں نیا آرمی چیف بھی جاری آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی سر توڑ کوشش کرے گا اور یہ کہ فوج میں مرکزی کمانڈ ایک ہی ہوتی ہے‘ تاہم آدمی‘ آدمی میں بھی فرق ہوتا ہے اور جو اس سے ظاہر ہے کہ یہی آپریشن سابقہ آرمی چیف جنرل کیانی بھی شروع کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا اور اس سے دہشت گردوں کو پھولنے پھلنے کی جو مہلت دستیاب ہوئی وہ ایک الگ چشم کُشا داستان ہے۔
مستقبل میں حالات کی پیش رفت یا تبدیلی کا انحصار اس پر بھی ہو گا کہ توسیع نہ لینے کے اعلان سے جنرل راحیل شریف کو جو اخلاقی کامیابی اور طاقت میّسر آئی ہے اس کے بل بوتے پر وہ پہلے سے زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ بعض ایسی کارروائیاں بھی کر گزریں گے جو وہ ابھی تک نہیں کر سکے تھے‘ جن میں کڑے احتساب کا عمل سرِفہرست ہے اور جس کا مرکزی ہدف کرپشن کا ناسور ہو گا جسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی ضرورت پر زور نہ صرف صدرِ مملکت اور چیف جسٹس بار بار دیا کرتے ہیں بلکہ اس میں زبانی کلامی ہی سہی‘ حکمرانوں نے بھی اپنی آواز شامل کر دی ہے جو کہ سراسر فریب کاری اور ہوشیاری کی مظہر ہے۔
یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بلا امتیاز احتساب اس وقت ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی مُتّفقہ خواہش اور آواز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جبکہ کرپشن کے رشتے دہشت گردی کے ساتھ بھی جڑے صاف نظر آ رہے ہیں اگرچہ نیب کے کان بھی کسی حد تک کھینچے جا چکے ہیں اور وہ کم و بیش اپنی کارکردگی کا بھی مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے‘ لیکن اس کے ہاتھ پھر بھی بندھے ہوئے ہیں اور جب تک یہ مکمل طور پر کھولے نہیں جائیں گے‘ کسی نتیجہ خیز پیش رفت کی اس سلسلے میں توقع نہیں کی جا سکتی‘ حتیٰ کہ حکمرانوں کی مختلف شعبوں میں جاری کارروائیاں بجائے خود متعلقہ حلقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں‘ اور اگر انہیں جاری رہنے کا موقع دیا جاتا ہے تو ستیا ناس سے سوا ستیا ناس تک نوبت پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
نیا آرمی چیف جتنی بھی خُوبیوں سے متصّف کیوں نہ ہو‘ وہ اس تجربے اور مقبولیت کا دعویٰ نہیں کر سکے گا جو موجودہ آرمی چیف کو حاصل ہیں اور اس بات کا امکان کسی حد تک موجود رہے گا کہ وہ معاملات کو خوش اسلوبی سے جاری نہ رکھ سکے کیونکہ انہیں فوج کا وہ اعتماد نئے سرے سے حاصل کرنا پڑے گا جو جنرل راحیل شریف کو بوجوہ حاصل ہو چکا ہے‘ البتہ اگر صاحبِ موصوف موجودہ جھاڑ جھنکاڑ کو اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے صاف کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نئے آرمی چیف کا راستہ بھی صاف اور ہموار ہو جائے گا‘ لیکن موجودہ آرمی چیف کو کم و بیش جو ایک سٹیٹس مین کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، جس کا عالمی طاقتیں کھلکر اعتراف بھی کرنے لگی ہیں ‘اس مرتبے کو حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل نہ صرف پیچیدہ بلکہ نازک صورت بھی اختیار کر چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو بھی اقتصادی راہداری کا معاملہ ایک تازہ اور گرما گرم موضوع ہے جو ایک مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ بھارت کی اوِلین خواہش تو یہی تھی اور کسی حد تک اب بھی ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح سبوتاژ کیا جا سکے اور اس سلسلے میں اس کی درپردہ کوششیں کوئی راز نہیں رہیں‘ لیکن اس میں اسے زیادہ کامیابی کی توقع نہیں ہے‘ اس لیے اب اس کا سارا زور اس بات پر ہے کہ اس کیک کا ایک بڑا ٹکڑا اُسے بھی ملنا چاہیے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک اس کا سب سے بڑا مسئلہ سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنا تھا جس کی راہ میں بہرحال پاکستان حائل تھا اور ہے‘ جس دوران اس نے پاکستان کی ''موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ ہونے کا درجہ حاصل کرنے کی بھی سرتوڑ کوشش کی لیکن بالآخر ناکام ہُوا۔
اب اُسے نظر آ رہا ہے کہ اقتصادی راہداری بننے سے پاکستان جس ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار ہونے جا رہا ہے‘ اس نے بھارتی حکومت کے خوابوں کو چکنا چور کر کے رکھ دیا ہے اور اگر اس میں اُسے بھی حصہ دار بنا لیا جائے تو وہ یہ کڑوی گولی بھی نگل لے گا‘ لیکن اس کے لیے بھی پاکستان کی رضا مندی حاصل کرنا ہو گی جس کی راہ میں وہ دیرینہ مسائل حائل ہیں جو نہ صرف پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں بلکہ خود بھارت ہی کے پیدا کردہ بھی ہیں۔ اب اس کی کوشش ہے کہ ان مسائل کے حل کے بغیر ہی وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو رضا مند کر کے اس منصوبے میں شامل ہو جائے تاکہ اس کے بے بہا فوائد سے وہ بھی لُطف اندوز ہو سکے۔
اوریہی وہ نازک ترین معاملہ ہے جو ہماری قیادت کے لیے سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔ اس میں بھارت ہماری قیادت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات اور قربت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گااور اگر یہ صرف اور صرف میاں نواز شریف کے اختیار میں ہوتا تو بھارت ان کے ساتھ جھوٹے سچے وعدے کر کے پاکستان کی رضا مندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوتا جس کی راہ میں ہماری عسکری قیادت بری طرح حائل ہے اور جو بھارت کی آنکھ اور دل کا سب سے بڑا کانٹا رہی ہے جبکہ اس کے بغیر بھارت کسی نہ کسی حد تک کشمیر کے معاملہ میں اپنا اُلّو سیدھا کر چکا ہوتا۔ کیونکہ باہمی تجارت بھارت کے ہاتھ میں ایک ایسی شاخ زیتون ہے جس پر ہمارے کاروباری حکمرانوں کی رال ہر وقت ٹپکتی رہتی ہے ۔ اور اس لالچ کا مقابلہ جس عزم و حوصلہ کے ساتھ جنرل راحیل شریف کر سکتے ہیں اس کا مظاہرہ وہ پہلے بھی کئی معاملات پر کر کے بھارت کی کئی چالوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کی حالیہ پاکستان یاترا کی پیشگی اطلاع اگر وزارت خارجہ چھوڑ‘ فوج کو بھی نہیں دی گئی تھی تو اس سے بہت سے رازوں سے خود ہی پردہ اُٹھ جاتا ہے جبکہ یہ ملاقات اچانک اور اتفاقیہ نہیں تھی کیونکہ بھارتی وزیر اعظم اپنے کوئی ڈیڑھ سو ساتھیوں سمیت بغیر ویزا کے آدھمکے تھے اور اپنے ساتھ ہمارے وزیر اعظم کے لیے تحائف کا جو انبار ساتھ اُٹھا لائے تھے‘ اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی یہاں تشریف آوری ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ تھیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور فوج کا ایک صفحے پر ہونے کا جو ڈھول حکومت کی طرف سے بجایا جاتا ہے اُس میں صداقت کتنی ہے۔
سو‘ اس نازک موقعہ پر قوم کو جس قیادت کی ضرورت ہے ‘ سول حکومت اُسے ارزانی کرنے کی ہرگز اہلیت نہیں رکھتی ‘لیکن فکر کی بات اس لیے نہیں کہ اس کا نوٹس بھی لیا جا رہا ہے اور قوم بھی یہ ساری باتیں اچھی طرح سے سمجھتی ہے۔ اور اکثر معاملات مثلاً خارجہ اور دفاعی میں حکومت جس حد تک پسپائی اختیار کر چکی ہے اور اپنے اختیارات سے رضا کارانہ دست کش ہو چکی ہے‘ کسی بھی نازک مرحلے پر اس سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ‘ چنانچہ اُمید ہے کہ حالات خود ہی بہتر رُخ اختیار کرتے جائیں گے۔
آج کا مطلع
کرگل سے دھوئے ہاتھ کہ ڈھاکہ لگا گیا
جو فالتو تھا سارا علاقہ لگا گیا