لاہور میں امریکی قونصل جنرل زیکرے ہارکین رائیڈر کی اقامت گاہ پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے سرگرم رکن شاہد احمد خان جب فخر سے یہ بتا رہے تھے کہ امریکہ میں مذہب‘ رنگ‘ زبان اور نسل کے بناء پر کسی سے امتیاز برتنا سنگین جرم ہے اور اس حوالے سے فلاں فلاں شخص جیل میں پڑا سڑ رہا ہے تو میں پنجاب حکومت کی طرف سے نجی اور سرکاری اداروں کو جاری ہونے والی ہدایات کی وجہ سے شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔
قونصل جنرل نے صحافیوں کو بار بار یقین دہانی کرائی کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو ہمیشہ سراہا ہے۔ افپاک کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان کی عینک سے دیکھتا اور اسی سطح پر ڈیل کرتا ہے جبکہ شاہد احمد خان نے ری پبلکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ کے مذہبی و نسلی امتیاز پر مبنی منشور کو امریکہ کے لیے خطرناک قرار دیا ان کا اصرار تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو سپورٹ کرنے والے لوگ عام امریکی شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتے یہ افسوسناک بات ہے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے اخلاق سے گر کر اسلام اور مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں مگر ان کے حامیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر وہ نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب رہے تو یہ امریکہ کی بدقسمتی ہو گی۔
امریکہ میں اسلامو فوبیا قابل فہم ہے گزشتہ سولہ سترہ سال سے امریکی اور یورپی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کا جو چہرہ پیش کیا ہے اس کی وجہ سے تنگ نظر لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کی باتوں پر توجہ دینے لگے ہیں اور خدانخواستہ ٹرمپ کو نامزدگی ملی تو یہ رجحان اور بڑھے گا مگر حیرت مجھے اپنے آپ پر‘ اپنے حکمرانوں اور قومی اداروں پر ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ کی افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ مصر اور شام میں غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے انہیں دہرانے پر تُلے ایک مضطرب معاشرے میں مزید تفریق و امتیاز پیدا کررہے ہیں۔
سرکلر کے مطابق تبلیغی جماعت کے وفود پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں واقع مساجد میں قیام کر سکتے ہیں نہ وہاں انہیں تبلیغ کی اجازت ہو گی۔ پولیس کی طرف سے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ فی الفور تین تین سکیورٹی گارڈ متعین کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان محافظوں کا تعلق شانگلہ‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ چکوال‘ جنوبی پنجاب یا شمالی پنجاب سے نہ ہو خاص طور پر کوئی پٹھان سکیورٹی گارڈ نہیں ہونا چاہیے۔ابتدا میں مجھے یقین نہیں آیا مگر جب میں نے محکمہ پولیس میں اپنے بعض کرم فرمائوں اور مختلف سکولوں کے منتظمین سے معلوم کیا تو پتہ چلا پورے پنجاب میں یہی صورتحال ہے اور یہ کسی ایک مہتمم تھانہ کی کارستانی نہیں۔
پاک فوج سے بغاوت کر کے مکتی باہنی اور علیحدگی پسند عوامی لیگ کا حصہ بننے والے شریف الحق دالیم نے اپنی کتاب میں یحییٰ حکومت کے غلط فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فوج اور بیورو کریسی میں بنگالی افسروں اور اہلکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات بیان کئے ہیں جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور نفرت و تعصب کی چنگاریوں کو مزید بھڑکایا۔ مغربی پاکستان میں مقیم بنگالیوں کو یقین ہو گیا کہ انہیں پاکستانی نہیں سمجھا جا رہا۔ پولیس اور انتظامیہ چاہے تو تمام سکیورٹی ایجنسیوں کو یہ ہدایت جاری کر سکتی ہے کہ وہ گارڈ بھرتی کرنے سے پہلے ان کی سکیورٹی کلیئرنس کرائیں‘ ان کی فہرستیں مع جملہ کوائف تھانوں میں جمع کرائیں اور کسی ایسے شخص کو بھرتی نہ کریں جس کا کردار مشکوک اور تعلق کسی انتہا پسند گروپ سے ہو۔ سکولوں پر بھی ہر گارڈ کے بارے میں پولیس کو پیشگی آگاہ کرنے کی پابند ی عائد کی جا سکتی ہے مگر پورے جنوبی پنجاب‘ شمالی پنجاب (ممکن ہے شمالی وزیرستان کی جگہ شمالی پنجاب لکھا گیا ہو) شانگلہ‘ بنوں‘ کوہاٹ‘ چکوال سے تعلق رکھنے والے شہریوں اور پٹھان سکیورٹی گارڈز کو حفاظتی فرائض سے روکنا ... ؎
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
اوّل تو باقی علاقوں کے سکیورٹی گارڈز کے بارے میں کس کو یقین ہے کہ اس کا تعلق کسی عسکریت پسند تنظیم سے نہیں ہو سکتا دوسرے یہ کیسے فرض کیا جا سکتا ہے کہ سرکلر میں مذکور علاقوں کے سکیورٹی گارڈ لازماً دہشت گردی کے ساتھی اور خطرناک طور اطوار کے مالک ہوں گے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سرکلر کے جاری ہونے کے بعد جب سکیورٹی ایجنسیاں ان علاقوں کے سکیورٹی گارڈز کو بیروزگار کریں گی تو وہ واپس اپنے گائوں‘ شہر اور علاقے میں جا کر اپنی برادری اور دوست ‘احباب کو ملازمت سے اپنی فراغت کی کیا وجہ بتائیں گے ؟نسلی‘ علاقائی اور لسانی تعصب یا کچھ اور؟ کیا یہ سرکلر جاری کرنے والی پولیس اور انتظامیہ کو احساس ہے کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر معاشرے کو کن بنیادوں پر تقسیم کرنے کے درپے ہے اور ان علاقوں کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے‘ جبکہ پٹھان محافظوں‘ چوکیداروں‘ ڈرائیوروں اور خانساموں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ جفاکش‘ وفادار اور بڑی حد تک ایماندار ہوتے ہیں۔
بلاشبہ ان علاقوں میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جو عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے ہمدرد‘ ساتھی یا سہولت کار ہو سکتے ہیں۔ ایک مچھلی پورے جل کو گندا کرتی ہے مگر جل کو صاف کرنے کا یہ طریقہ معقول نہیں کہ ساری مچھلیوں کو گندا سمجھ کر ان پر تیزاب انڈیل دیا جائے‘ یہ وقت دہشت گردوں کو تنہا کرنے اور گھیرے میں لے کر بدترین سزا دینے کا ہے انہیں احمقانہ اقدامات سے فکری غذا اور پروپیگنڈے کا ایک نیا ہتھیار فراہم کرنے کا نہیں۔ ایک امریکی دانشور نے پچھلے دنوں لکھا کہ جب امریکی یا روسی طیارے دہشت گردوں کے شبے میں کسی بستی پر بم پھینکتے اور ایک دہشت گرد کے ساتھ درجنوں معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تو داعش کو گھر بیٹھے درجن ڈیڑھ درجن رضاکار مل جاتے ہیں۔ یہ غلطی پرویز مشرف دور میں ہم نے مختلف قبائلی ایجنسیوں میں دہرائی اب پنجاب میں سراسیمگی پھیلائی جا رہی ہے۔
لاہور‘ غریب نواز‘ فراخدل ‘ بے تعصب اور زندہ دل شہریوں کا مسکن ہے جہاں داخل ہونے والوں سے زبان‘ نسل‘ علاقے اور مسلک کی بنا پر نہیں صرف اور صرف اہلیت و صلاحیت کے مطابق حسن سلوک کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ بدترین حالات میں کراچی اور بلوچستان سے لاشیں وصول کرنے کے باوجود لاہوریوں نے کسی غیر پنجابی سے کبھی برا سلوک نہیں کیا۔ صبر و شکر سے ان لاشوں کو دفنایا اور دشمنوں کے لیے ہدایت کی دعا کی مگر اب یہاں چودھری نثار علی خاں کے بقول نفسیاتی جنگ ہار کر ایسے فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کے نتائج ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتنے ہوں گے۔ کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان علاقوں کے سکیورٹی گارڈز اور چوکیدار ناقابل اعتبار ہیں تو وین ڈرائیور‘ خانسامے اور دیگر چھوٹا موٹا کام کرنے والے لوگوں پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے اور خدانخواستہ ان لوگوں نے پولیس کے خوف سے اپنے علاقوں کا رخ کر لیا تو اتنی بڑی تعداد میں سکیورٹی گارڈز‘ ڈرائیور اور چوکیدار کہاں سے آئیں گے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق لاہور میں نجی و سرکاری سکولوں کی تعداد پچیس ہزار سے زائد ہے کالج اس کے علاوہ ہیں‘ یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ بیروزگاری کا مقابلہ یہ لوگ کیسے کریں گے جنہیں اسلحہ چلانے کے سوا کچھ نہیں آتا۔
تبلیغی جماعت پر ہمیشہ الزام لگتا رہا ہے کہ ایک بے ضرر تنظیم کے طور پر یہ ملکی معاملات میں دخل دیتی ہے نہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر صدائے احتجاج بلند کرتی ہے ع
تو فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو‘ اللہ ہو
اس کا دائرہ اثر اگرچہ ہماری فوج اور اعلیٰ بیورو کریسی تک وسیع ہے مگر یہ کبھی سیاسی بکھیڑوں میں پڑی نہ مسلکی تنازعات میں‘ جہاد اور خلافت کا تو یہ نام ہی نہیں لیتی۔ اس بنا پر اس کی ہم مسلک مذہبی جماعتوں نے بھی ہمیشہ اس سے فاصلہ رکھا۔ تعلیمی اداروں میں جا کر بھی یہ نوجوانوں کو کلمہ طیبہ کی تجدید اور نماز روزے کی تلقین کرتی ہے مگر مسلم لیگ کی حکومت نے اس کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر ان دہشت گردوں کے بیانیے کو تقویت پہنچائی ہے جو موجودہ جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کو اہل مذہب و اہل مدرسہ کے علاوہ مذہب کو دیس نکالا دینے کی تدبیر قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ ریاست کی بھرپور طاقت اور انتہا پسندی کا مقابلہ اعتدال پسندی سے ممکن ہے‘ سراسیمگی‘ نفسیاتی ہیجان اور غیر محتاط اقدامات سے نہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ سیکولر انتہا پسندی سے کرنے کی ترکیب جس نے بھی سوچی وہ موجودہ حکومت کا دشمن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بدترین مخالف ہے‘ یہ اقدام اگر کوئی امریکہ میں کرتا تو جیل میں ہوتا یا پاگل خانے میں ۔کیونکہ یہ ریاست اپنے اندر نسلی امتیاز‘ لسانی تفریق اور مسلکی و مذہبی بنیادوں پر تعصب و نفرت کی ترویج سے زندہ نہیں رہ سکتی اسی بنا پر شاہد خان کو یقین ہے کہ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی سے نامزدگی حاصل کر سکتا ہے نہ صدارتی امیدوار بننے کے قابل۔ واللہ اعلم بالصواب۔