تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     31-01-2016

نواب زادہ صاحب، یادیں اور باتیں

نواب زادہ کی قیام گاہ کے حوالے سے گزشتہ کالم پر اندرون و بیرون ملک متعدد دوستوں نے پسندیدگی کے ساتھ ساتھ تشنگی کا بھی اظہار کیا۔ کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے۔ کالم آرائی کے لیے تازہ ترین واقعات کے حوالے سے بہت سے موضوعات ہیں۔ فیض صاحب کے بقول، سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا۔ لیکن خیالِ خاطر احباب کے لیے نواب زادہ صاحب کے حوالے سے کچھ اور یادیں، کچھ اور باتیں۔ 
مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح اور فیلڈ مارشل ایوب خان میں صدارتی انتخاب، متحدہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم باب تھا۔ 32 نکلسن روڈ پر ''شامِ غریباں‘‘ کی ایک نشست میں ہم نے اس بارے میں کچھ پس پردہ جاننے کی کوشش کی تو نواب صاحب گویا ہوئے‘ ایوب خاںکے مقابلے میں حزبِ اختلاف کے صدارتی اُمیدوار کے طور پر دو تین نام ذہن میں آتے تھے، ایک مادرِ ملّت ۔ لیکن سوال یہ تھا، کیا وہ پیرانہ سالی میں اس بھاری ذمہ داری کے لیے تیار ہو جائیں گی؟ دوسرا نام جنرل اعظم خان کا تھا‘ جنہوں نے ایوب خان کے ابتدائی برسوں میں مشرقی پاکستان کے گورنر کے طور پر وہاں مقبولیت حاصل کی اور نیک نامی کرائی۔ گورنری سے برطرفی نے مغربی پاکستان میں بھی ان کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے تھے۔ اسی دوران نیشنل عوامی پارٹی کے ''مولانا‘‘ عبدالحمید بھاشانی نے پارٹی میٹنگ بلا کر قرارداد منظور کرا لی‘ جس میں حزب اختلاف کے ایسے اُمیدوار کی مخالفت کا اعلان کیا گیا تھا‘ جو ایوب خان کا رفیقِ کار رہا ہو۔ قرارداد میں حزبِ اختلاف کے نو نکاتی انتخابی منشور سے اسلامی معاشرے کے قیام کا نکتہ حذف کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ نواب زادہ صاحب کی زیر صدارت حزبِ اختلاف کے اجلاس میں بھاشانی اِن دونوں نکات پر ڈٹے ہوئے تھے۔ آخرکار نواب زادہ نے نو نکاتی منشور کا مسودہ نکالا اور کہا ''یہ اس صفحے کے ایک سرے سے دوسرے تک آپ ہی کے دستخط ہیں‘‘؟ (بھاشانی انگریزی میں بہت لمبے دستخط کرتے تھے، اپنا پورا نام لکھتے)۔ ''لیکن ایک سیکولر جماعت کی حیثیت سے، میری پارٹی اسلامی معاشرے والا نکتہ نہیں مان رہی‘‘۔ نوابزادہ کا جواب تھا، ''یہ ہمارا نہیں، آپ کا دردِ سر ہے۔ آپ اپنی پارٹی کو منائیں، ورنہ اس کی صدارت سے مستعفی ہو جائیں‘‘۔ بھاشانی لاجواب ہو کر اس مطالبے سے دستبردار ہو گئے لیکن وہ اعظم خان کے خلاف اپنے ''اصولی مؤقف‘‘ سے دستبرداری پر تیار نہ تھے۔ وہ دراصل ایوب خان کا کھیل کھیل رہے تھے، انہیں یقین تھا کہ مادرِ ملت کسی صورت اُمیدوار بننے پر آمادہ نہ ہوں گی۔ رات گئے یہ قافلہ مادرِ ملّت کی رہائش، فلیگ سٹاف ہاؤس روانہ ہوا۔ پریس بھی تعاقب میں تھا۔ مادرِ ملّت اس اچانک ''پیشکش‘‘ پر حیرت زدہ تھیں اور فیصلے کے لیے کچھ وقت چاہتی تھیں لیکن نواب زادہ صاحب کی دلیل کارگر رہی کہ پریس ہمارے تعاقب میں یہاں تک پہنچ گیا ہے۔ ہم نے باہر نکل کر اسے ''اچھی خبر‘‘ نہ دی تو صبح کے اخبارات میں کچھ اس طرح کی شہ سرخیاں ہوں گی، ''مادرِ ملّت نے ایوب خاں کے مقابلے سے معذرت کر لی‘‘۔ اس سے قوم میں جو مایوسی پیدا ہو گی اور ڈکٹیٹر کو جو نفسیاتی تقویت ملے گی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ مادرِ ملّت رضامند ہو گئیں، وہ حزبِ اختلاف کے قائدین کے ساتھ باہر تشریف لائیں۔ گروپ فوٹو کے لیے فلیش گنیں چمکیں۔ اخبار نویس اس عہد کی سب سے بڑی خبر کے ساتھ اپنے دفاتر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ڈکٹیٹر اور اس کے ساتھیوں کے لیے ایک بم شیل تھا، ادھر عوام میں، پشاور سے کراچی اور ڈھاکا سے چٹاگانگ تک جذبوں اور ولولوں کا سیلاب تھا جو اُمنڈ آیا تھا۔ 
اُن دِنوں کے مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے، ایک عجب کیفیت تھی، نواب زادہ جس سے دوچار تھے۔ پلکوں پر ہلکی سے پھوار برس گئی تھی، ضعیف چہرے کی جھریاں اور نمایاں ہو گئی تھیں۔ ڈھاکا سے چٹاگانگ تک ریل کا سفر چار پانچ گنا زیادہ وقت لے گیا۔ ارضِ بنگال نئی کروٹ لے کر اُٹھ کھڑی ہوئی تھی، مادرِ ملّت کے بنگالی بیٹے ماں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پٹڑی پر لیٹ جاتے اور تقاضا کرتے کہ ماں دروازے پر تشریف لائیں اور انہیں خطاب فرمائیں۔ اُسی دوران بھاشانی نے بیماری کی چادر اُوڑھ لی اور مادرِ ملّت کی انتخابی مہم سے لاتعلق ہو گئے۔ چند روز بعد ایوب خان اپنی انتخابی مہم کے لیے مشرقی پاکستان گیا تو بھاشانی کے نائب، مسیح الرحمن ہوائی اڈے پر انہیں ہار پہنا رہے تھے۔ نواب زادہ کے بقول اس ''سودے بازی‘‘ میں بھٹو صاحب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 
ادھر مغربی پاکستان میں بھی مادرِ ملّت کی انتخابی مہم نے طوفان اُٹھا دیا تھا۔ ڈکٹیٹر اور اس کے حواریوں کے لیے یہ اعصاب باختگی کی کیفیت تھی۔ نواب زادہ بتا رہے تھے، ہم مادرِ ملّت کے ساتھ ملتان میں تھے کہ لاہور سے میاں محمود علی قصوری کا پیغام ملا۔ مغربی پاکستان کا باجبروت گورنر نواب آف کالاباغ استعفے کی پیشکش کر رہا تھا اور جاننا چاہتا تھا کہ مادرِ ملّت برسر اقتدار آکر اس کا کیا صلہ دیں گی؟ نواب زادہ یہ پیـغام پاتے ہی ریسٹ ہاؤس کی جانب لپکے جہاں مادرِ ملّت مقیم تھیں۔ علما کا ایک وفد اُن سے ملاقات کر رہا تھا۔ نواب زادہ نے اندر داخل ہو کر مہمانوں کو توجہ دلائی کہ مادرِ ملّت کی کچھ اور مصروفیات بھی ہیں۔ علما کرام روانہ ہو گئے تو مادرِ ملّت نے قدرے سختی سے کہا، یہ لوگ غیر اہم تھے تو میرا وقت کیوں ضائع کیا اور اگر ان کی کوئی اہمیت تھی تو پھر یہ سلوک کیوں؟ نواب زادہ نے معذرت چاہی کہ گورنر کالاباغ کا پیغام اتنا اہم تھا کہ انہیں روایتی آداب کا خیال نہ رہا۔ نواب زادہ کہہ رہے تھے کہ گورنر کے استعفے کے ساتھ ہی ایوب خان کی شکست پر مہر ثبت ہو جائے گی ۔ بیوروکریسی اور سرکاری مسلم لیگ کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ 
''تو ٹھیک ہے، وہ استعفیٰ دے دے‘‘ مادرِ ملّت کا جواب تھا۔ ''لیکن وہ اپنے ''مستقبل‘‘ کے لیے یقین دِہانی چاہتا ہے‘‘ نواب زادہ نے کہا۔ ''میں کوئی یقین دِہانی نہیں کرا سکتی ۔ آپ اپنے طور پر اسے مطمئن کرنا چاہیں تو کر دیں‘‘۔ نواب زادہ نے عرض کی کہ نواب کالا باغ کے ساتھ تو ان کی بول چال تک بند ہے۔ گورنر نے کچھ عرصہ قبل اُن کے قتل کا باقاعدہ حکم جاری کیا تھا لیکن راز فاش ہونے پر منصوبے پر عمل نہ ہو سکا۔ مادرِ ملّت کسی ''سودے بازی‘‘ پر آمادہ نہ ہوئیں اور تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔
یہ ضیاالحق کے مارشل لا کے ابتدائی ماہ و سال تھے۔ وہ اکتوبر 1977ء کے انتخابات ملتوی کر چکے تھے۔ بھٹو، نواب محمد احمد خان قتل کیس کا سامنا کر رہے تھے۔ جنرل ضیا نئے انتخابات کے لیے فضا کو سازگار بنانے کے نام پر حکومت میں پی این اے کی شمولیت پر اصرار کر رہے تھے۔ پی این اے نے بعض یقین دہانیوں کے بعد آمادگی ظاہر کر دی۔ اب ضیاالحق کا اصرار تھا کہ نواب زادہ صاحب وزارتِ عظمیٰ یا سینئر منسٹر کی ذمہ داری خود قبول کر لیں۔ بابائے جمہوریت خود تو زیر دام نہ آئے، البتہ اپنے دو وزیر دے دیے۔ بہاولپور حادثے کے بعد ایک شام ضیاالحق کا ذکر چھڑا تو نواب زادہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گویا ہوئے: ''میاں طفیل محمد کے صاحبزادے کی دعوتِ ولیمہ میں جنرل ضیا بھی مدعو تھے۔ میں اور محمود علی قصوری ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ جنرل ضیا کی ہم پر نظر پڑی تو سیدھے اِدھر آ گئے اور دیر تک یوں ہی کھڑے کھڑے ہم سے گپ شپ کرتے رہے۔ وہ دوسری بار الیکشن ملتوی کر چکے تھے جس پر میں نے اُن کے خلاف بڑے تند و تیز بیانات دیے تھے لیکن ان کے رویّے میں وہی اخلاق اور مروت تھی۔ جنرل ضیا آگے بڑھ گئے تو قصوری صاحب نے کہا، ''اس شخص سے لڑنا بہت مشکل ہو گا۔ میری بیوی روز ہی مجھ سے لڑتی ہے کہ بھٹو کے بعد ایک شریف آدمی آ گیا ہے، تو تم سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا، اسے تو معاف کر دو‘‘۔
اسلام، پاکستان اور جمہوریت، نواب زادہ کی سیاست کے بنیادی اصول تھے جن پر وہ کسی ''مصلحت‘‘ سے کام نہ لیتے۔ ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تشکیل کے مراحل میں میر غوث بخش بزنجو نے مشترکہ اعلامیہ کے لیے یہ نکتہ پیش کیا کہ آئندہ مارشل لا کی صورت میں صوبوں کو ''اعلانِ آزادی‘‘ کا حق حاصل ہو گا۔ نواب زادہ تڑپ اُٹھے اور کہا، ''میں اس تجویز کو چمٹی کے ساتھ پکڑنے پر بھی آمادہ نہیں‘‘۔
1988ء کے عام انتخابات کے بعد، جب فوجی قیادت بعض شرائط اور تحفظات کے ساتھ بے نظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سونپنے پر آمادہ ہوئی، اس نے نواب زادہ کی صدارت کے ''آپشن‘‘ پر بھی غور کیا۔ اس کے لیے نواب زادہ صاحب سے ملاقات کا اہتمام ہوا (جسے کوئی ستم ظریف ''مطلوبہ اہلیت جانچنے کے لیے انٹرویو‘‘ بھی کہہ سکتا ہے)۔ وہ ضیا دور کی افغان پالیسی اور 8ویں ترمیم کی اسلامی شقوں کو برقرار رکھنے کے حامی تھے ''لیکن 58/2B‘‘؟ ''یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے تمام عمر پارلیمانی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے جس میں حکومتوں اور اسمبلیوں کی برطرفی جیسے صدارتی اختیار کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ بابائے جمہوریت اپنے لیے بھی وہ صدارتی اختیارات قبول کرنے پر تیار نہ تھے جو ان کے سیاسی مؤقف سے متصادم تھے۔ اور آخر میں امجد اسلام امجد؎
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا
اُٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیان
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved