دنیا میں سب سے زیادہ سامراجی قوتیں یورپ میں پائی جاتی ہیں۔ ایک زمانے تک یورپی استعماری قوتوں نے کئی خطوں کے درجنوں ممالک پر راج کیا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ کا وجود دوسروں کو برباد کرنے کے لیے ہے یعنی اُسے محض آگ لگانا آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ع
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا
کے مصداق یورپ والوں کو آگ بجھانا بھی آتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے یورپی ماہرین کے تیارکردہ ایک خصوصی بم کا وڈیو کلپ دیکھا۔ ہم اب تک یہی سمجھتے آئے تھے کہ بم کا کام پھٹ کر انسانوں اور چیزوں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے مگر اس وڈیو کلپ کو دیکھ کر ہم اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے۔ یورپی ماہرین نے ایک ایسا بم تیار کیا ہے جو پھٹ کر آگ بجھاتا ہے! یہ بم گیند کی شکل میں بنایا جاتا ہے۔ جہاں آگ لگی ہو وہاں یہ گولا بم پھینکا جائے تو دو تین سیکنڈز میں پھٹ کر آگ بجھا دیتا ہے۔ بم کے اندر ایسے مادّے بھرے گئے ہیں جو پلک جھپکتے میں آگ بجھا دیتے ہیں۔ اب یہ بم بہت سی عمارتوں میں فائر ٹینڈرز کی جگہ رکھے جا رہے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فائر ٹینڈرز کو تو استعمال کرنا پڑتا ہے یعنی آگ بجھانے کے لیے اسپرے کیجیے تو بات بنتی ہے مگر آگ بجھانے والے بم آگ کی زد میں آتے ہی پھٹیں گے اور وہ کام کر گزریں گے جو فی زمانہ فائر فائٹرز کرتے ہیں۔ گویا آگ بجھانے والے بموں کی بدولت مستقبل کے فائر فائٹرز چَین کی بنسی بجاتے ہوئے ہماری طرح کالم نگاری کیا کریں گے! ہم نے ایسی کسی ایجاد کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں تھا۔ دن رات تحقیق کے ذریعے ایجادات و اختراعات کا بازار گرم رکھنے والوں نے ساری دنیا کو حیرت سے دوچار کر رکھا ہے۔
ماہرین نے آگ بجھانے کا یہ انوکھا طریقہ منظر عام پر لاکر بہت سوں کو حیران کیا ہے۔ آگ بجھانے کے لیے لوگ پانی یا مٹی استعمال کرتے آئے ہیں۔ بہت سے لوگ آگ سے بچنے کے لیے بھگوئی ہوئی رضائی بھی استعمال کرتے ہیں۔ آگ بجھانے کا یہ انوکھا طریقہ سامنے آیا ہے تو بہت سے لوگوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا۔ مگر جناب، آج کے انسان کا ایسا نصیب کہاں کہ سکون کا سانس لیتا رہے، ڈھنگ سے زندگی بسر کرتا رہے؟ آگ بجھانے کا انوکھا طریقہ تو ماہرین نے وضع کر لیا اور آگ بجھانے والے بم بہت جلد آپ کو جگہ جگہ اپنا کام کرتے دکھائی دیں گے مگر آپ کا اور ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آگ لگانے کے طریقے بھی بہت ہیں! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آگ کیسے لگتی ہے۔ کہیں چنگاریاں ہوں تو تیل یعنی آتش گیر سیال پھینکنے سے آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ آپ سوچیں گے اِس میں حیرت کی بات کیا ہے، جلتی پر تیل چھڑکیے تو آگ بھڑکتی ہی ہے۔ ٹھیک ہے، مگر ہم ایک ایسے ملک میں جی رہے ہیں جہاں لوگوں کو پانی سے بھی آگ لگانا آتا ہے! ع
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے!
ہماری سیاست پسندی نے ایسے سیاسی قائدین پال رکھے ہیں جو عشروں سے پانی پر سیاست کرتے آئے ہیں اور اِس سیاست کے ریلے میں ہمارے بہت سے قومی مفادات یوں بہہ گئے ہیں کہ پھر اُن کا نشان تک نہ ملا۔ جو پانی ہماری اور زمین کی پیاس بجھانے کے لیے خلق کیا گیا ہے اُسے ہمارے ہاں آگ لگانے کے لیے اتنی مہارت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ پانی سے آگ اس طور لگائی جاتی ہے کہ بہت کچھ بھسم ہو جاتا ہے مگر دُھواں نظر آتا ہے نہ چنگاری! یہی وہ فن ہے جس کے لیے کلیم عاجزؔ کہہ گئے ہیں ع
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!
ہر انسان میں طرح طرح کی خامیاں اور برائیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم بھی اِس کلیے سے مستثنٰی نہیں۔ دوسری برائیوں کا ذکر پھر کبھی سہی، ہماری ایک بڑی خامی یا برائی یہ ہے کہ جب بھی تحقیق کی بدولت کسی کارگر چیز کے بنائے جانے کے بارے میں پڑھتے ہیں تو فوراً تصوّر کی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں خوش گمانی اِس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے بہت سے مسائل کو چشمِ تصوّر کی مدد سے حل ہوتے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب ہم نے آگ بجھانے والے بم کا وڈیو کلپ دیکھا تو ہمارے میں بھی ایک تصوّر کا بم پھٹا۔ خیال آیا کہ آگ بجھانے والے بم کی مدد سے ہم بہت سے معاملات کو بھسم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ بیشتر سیاسی معاملات نے آگ لگاتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ آگ بجھانے والا بم ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو بہت سے قومی مفادات کو راکھ کا ڈھیر بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ہم نے سوچا ایسی زبردست چیز مارکیٹ میں آئی ہے تو کیوں نہ مرزا تنقید بیگ سے بھی شیئر کی جائے۔ یہی سوچ کر ہم ان کے گھر پہنچے۔ اُنہیں وڈیو کلپ دکھایا تو وہ بھی حیران ہوئے۔ انہوں نے اب تک ایسا کوئی بم نہیں دیکھا تھا جو آگ بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ جب کسی بات پر حیران ہوتے ہیں تو بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری طرح وہ بھی خیالوں کی دنیا میں کھو گئے۔ ہم نے انہیں جھنجھوڑا تاکہ حقیقی دنیا میں واپس لائیں۔ وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آئے تو ہم نے انہیں بہت سے معاملات میں آگ بجھانے سے متعلق اپنا آئیڈیا بتایا تو وہ پھر خیالوں میں کھو گئے! بڑی مشکل سے دوبارہ واپسی ہوئی تو مرزا بولے: ''آگ بجھانے والے بم سے تم جو کام لینا چاہتے ہو وہ ہو نہیں سکتا۔ ماہرین تو اُسی آگ کو بجھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس سے وہ بخوبی واقف ہوں۔ اُنہیں کیا پتا ہمارے ہاں کس کس طرح کی آگ پائی جاتی ہے۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر کہا کہ آگ تو آگ ہوتی ہے۔ اور جب آگ کی اقسام کی وضاحت چاہی تو مرزا کہا : ''بھائی میاں! بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذرا مختلف طریقوں سے آگ لگائی جاتی ہے۔ مثلاً فرض کیجیے آپ صاف ستھرے کپڑے پہن کر گلی سے گزر رہے ہیں۔ کسی مکان کی اوپر کی منزل سے کسی نے جُوس پینے کے بعد خالی ڈبّا کھڑکی سے باہر اُچھالا اور آپ پر آ گِرا۔ اور پھر آپ کے کپڑوں کا جو حشر ہوگا اُسے دیکھ کر آپ کے تن بدن میں جو آگ لگے گی اُسے بجھانے والا بم کسی نے بنایا ہے؟ یا فرض کیجیے آپ نے موٹر سائیکل میں کسی ضرورت کے تحت تین چار لیٹر پٹرول ڈلوایا ہے۔ کوئی ساتھی بس ذرا ساتھ والی چورنگی تک جانے کے لیے موٹر سائیکل لے جاتا ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آکر آپ کو چابی واپس کرتا ہے۔ جب آپ موٹر سائیکل پر گھر کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو تین چار کلومیٹر کے بعد ٹنکی جواب دے جاتی ہے! یعنی آپ کے ساتھ آپ کے خرچ پر شہر کی سیر کر آئے اور آپ کو موٹر سائیکل پٹرول پمپ تک گھسیٹ کر لے جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ صورت حال آپ کے پورے وجود میں جو آگ بھڑکاتی ہے اُسے بجھانے والا کوئی بم دستیاب ہے؟ اِسی طور آپ کوئی چیز بڑے چاؤ سے بنوا کر یا خرید کر لائے ہوں اور ابھی کھانے کی تیاری ہی کر رہے ہوں کہ کوئی مفت خور آ دھمکے اور آپ سے اجازت لینے کی رسمی کارروائی پوری کیے بغیر ہی از خود نوٹس کے تحت تر مال کو ہڑپنا اور ڈکارنا شروع کردے تو؟ تب آپ کے دل و دماغ میں جو شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اُنہیں ٹھنڈا کرنے کی سکت آگ بجھانے والے بم میں ہوگی؟‘‘
ماہرین نے آگ بجھانے والا بم تیار کرنے سے قبل ہم سے مشاورت نہ کی اِس لیے وہ کیا جانیں کہ اُن کی ایجاد اِس خطے میں کچھ زیادہ کارگر ثابت نہ ہو سکے گی۔ بہتر ہوگا کہ نیا ورژن بنانے کے لیے پہلے ہم سے آگ کی نوعیت کے بارے میں مشاورت کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم سے مل کر وہ آگ کی نوعیت بہتر طور پر سمجھ سکیں گے اور اِس کے بعد وہ جو بم بنائیں گے وہ کہیں ناکام نہ ہوگا!