تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     31-01-2016

بَن باس

نسرین انجم بھٹی سے میری پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان کی راہداری میں ہوئی۔ ان کی اردو اور پنجابی شاعری پڑھ رکھی تھی اس لیے بھی نسرین آپا سے مل کر بے حد خوشی ہوئی کہ اچھا یہ ہیں وہ خاتون جنہوں نے اپنے ایک ایک مصرعے میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو اس طرح سمویا ہے کہ قاری ان کی نثری نظمیں پڑھتے ہوئے درد کی عجیب سی موسیقیت محسوس کرتا ہے۔
اپنی شاعری کی طرح وہ خود بھی بہت گہری، سنجیدہ اور اثر انگیز شخصیت کی مالک تھیں۔ سانولی رنگت، سوچتی ہوئی آنکھیں، درمیانہ قد اور خوبصورت سے خد و خال۔ میں جب بھی ان سے ملتی مجھے ایسے لگتا کہ ان کے اندر ایک دنیا آباد ہے جس کے ساتھ وہ جڑی ہوئی ہیں اور باہر کی دنیا کے ساتھ ان کا رابطہ کم کم ہے۔ کبھی ان کی آنکھوں میں ان تمام خوابوں کی کرچیاں نظر آتیں جو نارسا ہی رہے، جن خوابوں کو قریۂ تعبیر تک لانے کے لیے نسرین انجم تمام عمر جدوجہد کرتی رہیں۔ وہ نظریاتی طور پر سوشلسٹ انقلاب کی حامی تھیں اور سماج میں روپے کی تقسیم سے ہونے والی خوفناک عدم مساوات کے خلاف جدوجہد نہ صرف انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے کی بلکہ عملی طور پر بھی وہ اس میں حصہ لیتی رہیں۔ ریڈیو پر سرکاری ملازمت کی وجہ سے وہ کھلے عام بہت سارے کام نہیں کر سکتیں تھیں‘ اس کے باوجود، بقول ان کے جہاں تک ہو سکا وہ ڈھکے چھپے ہی سہی مگر پوری کمٹمنٹ کے ساتھ سماج کی بہتری کے 
لیے آواز اٹھاتی رہیں۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود انہوں نے ضیا مارشل لا کے خلاف لکھا اور اپنے احتجاج کو اپنی نظموں کے ذریعے آواز دی۔ وہ بھی شاعروں اور ادیبوں کے اس قبیلے سے تھیں جنہوں نے مارشل لا کے مقابل بھٹو کی بیٹی سے ایک عقیدت اور رومان کا رشتہ قائم کیا مگر پھر اپنے آدرشوں اور خوابوں کو بے نظیر کی دو ناکام حکومتوں کی صورت بکھرتے ہوئے دیکھا۔
نسرین انجم بھٹی اپنے نظریات سے ایسی کمٹڈ تھیں کہ شادی بھی انہوں نے ایک کامریڈ صحافی زبیر رانا سے کی۔ وہ کبھی ماضی کا ذکر کرتیں تو اس بات کا اعتراف کرتی تھیں کہ زبیر رانا کے ساتھ ان کی محبت دراصل سوشلزم کے رومانس سے ہی پھوٹی اور یوں ایک ہی جیسے خیالات اور نظریات کے حامل دو افراد نے زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ صحافت سے وابستہ لوگ زبیر رانا کے نام سے خوب واقف ہیں، ایک زمانے میں اخبار میں ان کے سیاسی تجزیے بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ زبیر رانا کو جاننے والے یہ بھی جانتے ہوں گے وہ اپنی طرز کے ایک اکھڑ مزاج شخص تھے اور جون ایلیا کے الفاظ میں صورت حال کچھ یوں تھی کہ... میں بھی بہت عجیب ہوں... اتنا عجیب ہوں کہ بس... خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں... ایسے مشکل شخص کے ساتھ نسرین انجم بھٹی نے زندگی یوں گزاری کہ خود وفا کو اس پر پیار آ گیا۔ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی ان سے سوال کر لیا کہ آپ نے بہت مشکل زندگی گزاری ہے زبیر رانا کے ساتھ، کیا آپ کو کبھی اپنے فیصلے پر ہلکا سا بھی پچھتاوا ہوا۔ میرا سوال انہیں ناگوار گزرا اور بولیں، میں نے یہ زندگی پوری سچائی کے ساتھ اپنے نظریات کے لیے جدوجہد کرتے اور لکھتے ہوئے گزاری ہے۔ زندگی کی مشکلات مجھے اس کا حسن محسوس ہوتی ہیں۔ ان کا جواب سن کر میں نے سوچا کہ وہ ایک خالص آئیڈیلسٹ خاتون ہیں جو آج کے دور میں نایاب ہی 
ہیں۔ وہ ایک سچی تخلیق کار بھی تھیں۔ شہرت اور نام کے لیے کبھی انہوں نے پی آر اور خوشامد کے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے۔ آج جو ادبی ادارے ان کی وفات کے بعد تعزیتی ریفرنس کرنے میں لگے ہوئے ہیں‘ انہوں نے نسرین انجم بھٹی کی بیماری میں ان کی خبر تک نہیں لی۔ وہ پنجابی زبان کی مہان شاعرہ تھیں تو اردو میں بھی ان کی کتاب بن باس پُر تاثیر نثری نظموں پر مشتمل ہے۔ وہ کم و بیش ایک برس تک شدید بیمار رہیں۔ ان کا مرض کینسر تشخیص ہوا تھا جس کا علاج انتہائی مہنگا ہوتا ہے۔ پچھلے برس گرمیوں میں جب مجھے ان کی شدید بیماری کا پتا چلا تو ہم ان کے گھر گئے۔ اتنی بڑی دانش کی مالک تخلیق کار کے گھر کی کسمپرسی دیکھ کر دل بہت دکھا۔ وہ اس وقت بھی سخت تکلیف میں تھیں۔ کراچی سے ان کے بھائی اور بھابھی ان کی تیمارداری کے لیے موجود تھے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ سرکاری سرپرستی میں کام کرتے کسی ادبی ادارے کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس قدر تکلیف میں مبتلا ایک سچی لکھاری کی عیادت کے لیے ہی وقت نکالتے۔ پنجاب میں بظاہر پنجابی زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے پلاک (پنجابی انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر) کے نام سے ایک بڑا ادارہ موجود ہے جس کے فنڈ پنجابی ادبی بورڈ سے زیادہ ہیں، اس کے باوجود پنجابی ادبی بورڈ کی ڈائریکٹر پروین ملک نے تو نسرین آپا کے گھر جا کر ان کی عیادت کی اور بیماری میں ان سے رابطہ رکھا مگر پلاک کو یہ توفیق نہ ہوئی۔ اگر انہوں نے کچھ کیا ہو تو ہمارے علم میں نہیں۔
نسرین آپا نے ایک پورا سال بیماری کے ساتھ بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے گزارا۔ وہ ساری عمر خوددار عورت کی طرح زندگی گزارتی رہیں، سو اپنی عمر کے مشکل اور تکلیف دہ دور میں بھی انہوں نے کسی طرف امداد کے لیے نہیں دیکھا۔ نسرین انجم بھٹی کی کتاب بن باس کے فلیپ پر انیس ناگی نے بجا طور پر لکھا کہ ''نسرین انجم بھٹی ناقدری کے دور کی شاعرہ ہے۔ وہ اس عہد میں نظمیں لکھ رہی ہے جب لفظ اپنی حرمت کھو چکا ہے اور جب شاعر اور ادیب معاشرے کا سب سے بے وقعت اور راندہ ہوا طبقہ ہے۔ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے شاعرانہ اظہار ایک حوصلہ مند ہونے کی علامت ہے۔‘‘
اور نسرین انجم بھٹی نے واقعی ایک حوصلہ مند کی طرح نظمیں بھی لکھیں اور پھر تمام عمر بے وقعتی کا درد بھی سہا۔ وہ اپنے حصے کا بن باس گزار کر اگلے جہان سدھار چکی ہیں۔
اب ان کی یادیں، تعزیتی ریفرنس ان کی مجبوری ہے جنہیں اپنی دکان چلانے کا کوئی جواز تو چاہیے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved