تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-02-2016

بولو جی …تم کیا کیا خریدو گے؟

صرف چند عشرے پہلے ایشیاء کے زرعی وسیب میں دودھ بیچنے کو بہت غلط حرکت سمجھا جاتا تھا۔تب دودھ اللہ کا نور کہلایا۔لوگ باگ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کے گھر دودھ کی بالٹیاں ، کوزے اور گھڑے بھر کر لاتے۔تب زمین بیچنے والوں کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات تھے۔بلوچستان میں اسی قدیم روایت کو یوں بیان کیا جاتا ہے۔ ''زمین وہ ماں ہے جو گِرے ہوئے کو اٹھنے میں سہارا دیتی ہے۔اس پر ہاتھ رکھو تو کمر کوسیدھا کر دے گی۔‘‘اس محاورے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ زمین سے محبت کرنے والے اور اسے آباد رکھنے والے کو غیر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا۔نہ ہی زمین اسے بھوکا مرنے دے گی۔
پھر کمیشن ایجنٹ آ گئے۔دلالی کو نیا نام مل گیا''بار گیننگ ‘‘۔یہ عالمی سرمایہ داری نظام کا ایک ایسا کارپوریٹ تحفہ ہے‘ جس نے دودھ میں رنگ و روغن اور یوریا کھاد کی ملاوٹ کروا دی۔ اس نظام میں، انسان اور انسانیت منافع خوری کے علاوہ کچھ بھی اور سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔زمین،ہماری دھرتی ماں یا زرعی شعبہ پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس کی جگہ''پلاٹستان‘‘کا کلچر ایسا ڈویلپ ہوا کہ شیطان کی آنت کو بھی مات دے دی۔
پوٹھوہاری،ہندکو ،پہاڑی اور ہزارے کی زبان میں نومولودیا نوجوان اونٹنی کو'' ٹوڈی ‘‘کہتے ہیں۔جس کی قیمت آج کل بھی لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔چند سال پہلے میرے گاؤں سے معتبر حضرات کا جرگہ آیا۔ ان کے ساتھ ایک نیم خواندہ خوش پوش نوجوان تھا۔جرگہ کہنے لگا‘ آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔میں نے کہا ‘ بتائیں کیا کرسکتا ہوں؟نوجوان بولا، تھانہ کہوٹہ والے میری ٹوڈی نہیں چھوڑ رہے۔پھر کہا زمین بیچ کر بڑی مشکل سے ٹوڈی خریدی تھی۔مسلسل8دن ہو گئے وہ تھانے میں بند ہے۔مجھے بہت برا لگا۔فوراََ خیال آیا یہ بے زبان دوچار دن اور تھانے میں بند رہی تو بھوک سے مر جائے گی۔میں نے پریشان ہو کر نوجوان سے پوچھا، تھانے میں کوئی چارہ یاسبزہ پہنچاتے ہو...؟اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا سر جی، کاریں کب چارہ کھاتی ہیں۔پھر مجھے پتا لگا اس نے ''2 ڈی‘‘ گاڑی زمین کے بدلے خریدی۔زمین پر بلڈوزر چل گیا اور بار گیننگ ایجنٹ نے اسے دو نمبر گاڑی تھما دی۔
اسی دور میں خبر کی تصدیق کے فرض کی نفی اوراخبارات کی رپورٹنگ کے بجائے داستان نویس پہلے صفحے پر چھپنا شروع ہوئے۔اس کو شفافیت TRANSPARENCY) ( کا نام دیا گیا۔اخبار آج بھی ایڈیٹوریل کے ادارے کی وجہ سے بہت معتبر ہے۔اگرچہ زبان بندی کا دور گزرچکا۔لیکن زبان و بیان کا لنڈا بازار لگ گیا۔خریدار کے ساتھ ساتھ ،انویسٹر کے پورٹ فولیو (مالی حیثیت)کے حساب سے روایت تجارت میں ڈھل گئی۔کہتے ہیں مشورہ امانت ہے۔دشمن بھی مشورہ مانگے تو خیانت کی اجازت نہیں۔اسی طرح سروے اور تحقیقاتی رپورٹیں بھی ۔اب ہر چیز میں ٹریڈنگ شروع ہے۔چند ماہ پہلے ایک ادارے نے لاہور کے مالکانِ اقتدار کی گود میں بیٹھ کر حکومت کے لیے قصیدہ لکھا اور اس پر سروے کا ٹائیٹل لگانے کی کوشش کی۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کی ایسی ٹھکائی ہوئی کہ الامان و الحفیظ۔اس حرکتِ شریف کا زیادہ نقصان دومزید اداروں کو پہنچا۔جس کی ایک ایک رکنی تحقیقاتی ''ٹیم‘‘نے پچھلے ڈھائی سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ ''بار گیننگ سروے‘‘جاری کر کے عوام سے زبردست مرمت کروائی۔شفافیت تجارت بنی اور اب ضرورت مند حکومتیں یا لیڈر مناسب سرمایہ کاری کے ذریعے شفاف بھی کہلا سکتے ہیں اور ''راہ نما‘‘بھی۔
اہم سوال یہ ہے، شفافیت ہے کیا...؟پاکستان کی نامعقول حکمرانی کو شفاف قرار دینے والے ایک ادارے نے کہا ں بیٹھ کرتازہ سروے تخلیق کیا ‘معلوم نہیں۔لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے اس کے لیے فرمائش کہاں سے آئی اور سرمایہ کاری کِدھر سے...؟
ٹرانسپیرنسی ہے کیا بَلا ...یہ جاننا ضروری ہے۔لیکن اس سے بھی پہلے اس عشرے کی دو خبریں ایسی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے ، دنیا میں اب ہر چیز برائے فروخت ہے۔ہماری اکلوتی قومی سٹیل مل،اکلوتے ریاستی جھنڈا بردار ائیر لائن پی آئی اے اور انشورنس کے ادارے سٹیٹ لائف کی طرح۔اس میں ایک خبر ذرا پرانی ہے۔اور وہ یہ کہ برطانیہ کے ایوانِ بالا، ہاؤس آف لارڈز کی رکنیت کے لیے رشوت اور بار گیننگ استعمال ہوئی۔دوسری خبر کے مطابق بھارت کی فوج کے اعلیٰ ترین عہدے بھی ''بیچ ڈالو‘‘کی لِسٹ میں آ گئے۔بھارت کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا، اس کی فوج بڑی مضبوط ہے۔اب بھارت کا ہی انکشاف سامنے آ گیا، انڈین فوج میں میجر جنرل بننے کے لیے کرپشن کوکرپشن کے ذریعے چھپایا گیا۔جبکہ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے لیے دو جر نیلوں نے باقاعدہ رشوت دے ڈالی۔بھارتی ریاستی اداروںکے مطابق جرنیل اور ان کی ترقی کے لیئے 3 ہی ممکنہ ذرائع ہیں۔پہلا بھارت کا وزیر دفاع۔دوسرا ذریعہ بھارتی وزیراعظم اور تیسرا ذریعہ چیف آف آرمی سٹاف یا اس کا نامزد کردہ ترقی دینے والا بورڈ۔سوال یہ ہے ، تینوں میں سے کوئی ایک یا تینوں رشوت لے گئے ہیں۔مگر مودی راج میں اس سوال کا جواب کون دے گا...؟
ہماری موجودہ بادشاہت میں شفافیت آخری حدوںسے بھی گزر گئی۔خارجہ پالیسی یا نیکٹا وغیرہ کو جانے دیں۔شفافیت کا عروج دیکھیں۔ہمیں ہماری حکومت ایل این جی ٹھیکہ اور اس کے ریٹ بتانے کو تیار نہیں۔تمام میگا پراجیکٹ ایک ہی گروپ کے مختلف ارکان کو دیئے جا رہے ہیں۔کِک بیک کا ریٹ 40سے42فیصد تک پہنچ گیا۔تمام بڑے پراجیکٹ کے اوپن اور انٹرنیشنل ٹینڈر دینے سے ادارے کتراتے ہیں ‘کس کے کہنے پر سب جانتے ہیں۔اگر حکمران مودی ماڈل سے بہت متاثر ہیں تو وہ امرتسر میٹرو بس 2013ء کی نقل کرنے میں کیوں ناکام رہے...؟ 
ایک تقابلی جائزہ یہ بھی چل رہا ہے۔امرتسر میٹرو بس اور لاہور میٹرو شریف دونوں 2013ء میں بنے۔امرتسر میٹرو ،فاصلہ31کلو میٹر۔ لاہور میٹرو ،فاصلہ 27کلو میٹر۔امرتسر میٹرو پل 12کلو میٹر۔لاہور میٹروپل8کلو میٹر۔امرتسر سیمنٹ 480پاکستانی روپے۔لاہور سیمنٹ 450 پاکستانی روپے۔امرتسر فی کلو میٹر لاگت 29کروڑ روپے پاکستانی۔لاہور فی کلو میٹر لاگت ایک ارب10کروڑ روپے پاکستانی۔امر تسر سریا فی ٹن 69ہزار پاکستانی روپے۔لاہور سریا67ہزار پاکستانی روپے۔امرتسر میٹرو بس ٹوٹل لاگت9ارب پاکستانی روپے۔لاہور میٹر و بس لاگت30ارب پاکستانی روپے ۔ جبکہ پنڈی میٹرو بس کی لاگت لاہور سے بھی زیادہ ہے۔امریکن پبلک ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے ماہر نے کہا ‘پاکستانی میٹرو منصوبہ دنیا کے مہنگے ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ہر سال لاہور سے ترک کمپنی کو اربوں کی سالانہ سبسڈی اس کے علاوہ دی جاتی ہے۔
نابینا شہری سڑکوں پر لاٹھیاں اور دھکے کھا رہے ہیں۔ 12سال سے کنٹریکٹ والے اساتذہ دھرنے میں بیٹھے ہیں۔ پٹرول 85ڈالر بیرل سے26پر آ گیا۔عوام کوڈھائی روپے کا ریلیف۔پنجاب کے حاتم طائی کا شکریہ۔ہمارے ایم پی اے کی تنخواہ 44ہزار روپے سے بڑھا کر85ہزار ماہانہ کی منظوری دے دی۔ہمارا نظام واقعی ٹرانسپیرنٹ ہے یعنی بالکل برہنہ۔
شمع روشن ہوئی، محفل میں پتنگے ناچے
واہ رے تہذیب، تری بزم میں ننگے ناچے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved