تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-02-2016

الٹی گنگا

عام آدمی کی تو خیر یہاں اوقات ہی کیا ہے‘ بڑے بڑے پھنے خان اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کے دعویداروں سے پوچھیں کہ کیا ہو رہا ہے تو آئیں بائیں شائیں کرکے ٹال دیتے ہیں۔ بعض تو صرف مسکرا کر ہی کام چلانے پر آ گئے ہیں کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اس کی عقلی دلیل دینا، منطقی نتیجہ اخذ کرنا اور سوجھ بوجھ سے جواب دینا ناممکنات میں سے ہے۔ اب اسی تعلیمی اداروں کی بندش کا معاملہ دیکھ لیں‘ آپ کو پتا چل جائے گا کہ سرکار کتنی کنفیوژ ہے اور اٹکل سے کام چلا رہی ہے۔ ایک زمانے میں ہماری ہر بات کا ایک ہی حل ہوتا تھا کہ ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جائے۔ اس پر ایک لطیفہ بنا کہ اگر نائن الیون جیسا کوئی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو حکومت نے پہلا حکم یہ جاری کرنا تھا کہ ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
سکولوں کی بندش کا فیصلہ باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے سانحے کے بعد حفاظتی اقدامات کے طور پر کیا گیا تھا مگر اپنی انتظامی ناکامی کے خوف میں مبتلا حکمران اپنی نااہلی اور ناکامی کا اعتراف کرنے سے خوفزدہ ہیں اس لئے کہا گیا کہ سردی کی شدت کے باعث تعلیمی ادارے بند کیے گئے ہیں۔ اس سردی کی شدت کو کم کرنے کی غرض سے پرائیویٹ سکولز کو پابند کیا گیا کہ وہ سکول کے سامنے مورچے بنائیں تاکہ سردی مین گیٹ سے تو کم از کم سکول میں داخل نہ ہوسکے۔ دیواریں اونچی کروانے اور ان پر خاردار تاریں لگوانے کا حکم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ سرد موسم دیوار پھاند کر سکول میں داخل نہ ہوسکے۔ اضافی گارڈز کا معاملہ بھی اسی سلسلے میں بہتری لانے کے لئے تھا۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے پر یعنی ضرب عضب کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ سو فیصد درست قدم ہے مگر یہ اس کا مکمل حل نہیں کہ ایسے آپریشنز کے بعد دہشت گرد بکھرجاتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے گروپ خود مختار ہو کر اپنے زور بازو پر کچھ کر دکھانے پر آ جاتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہوتی ہے کہ ان منتشر الذہن دہشت گردوں سے کچھ بھی کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے یہ گروہ کسی مرکزی قیادت سے تو محروم ہوتے ہیں مگر اپنا بنیادی مقصد فراموش نہیں کرتے اور ہر طرف سے گھیرے میں آئے ہوئے جنگلی جانور کی طرح کسی طرف بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال بالکل ایسی ہی ہے اور بے شمار خود مختار گروہ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے ٹارگٹس پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ یہ چراغ کی بجھتی ہوئی لُو کی طرح ہوتے ہیں جو بجھنے سے پہلے ایک بار زور سے بھڑکتی ہے؛ تاہم یہ معاملہ ایسے اوقات میں بہت زیادہ سمجھداری سے ہینڈل کیا جاتا ہے اور ان بکھرے ہوئے گروہوں کو صبر، حوصلے اور یکسوئی سے تلاش کرکے گھیر کر اورکھدیڑ کر مارا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمران ایسی سوجھ بوجھ سے عاری ہیں‘ لہٰذا وہ دہشت گردوں کے خلاف کوئی جامع حکمت عملی بنانے کے بجائے تعلیمی ادارے بند کرنے جیسے احمقانہ فیصلے کر دیتے ہیں۔ دہشت گردی کا یہ حل شاید دنیا میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ امریکہ وغیرہ میں دہشت گردی کی ممکنہ کارروائی کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند کرنے کا رواج ضرور ہے مگر اس دوران وہ اس خطرے کا قلع قمع بھی کر دیتے ہیں‘ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے رہتے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کو روکنے کا اور کوئی طریقہ نہیں کہ پہلے دہشت گردی کے اڈے تباہ کیے جائیں اور پھر بکھرنے والے دہشت گردوں کو چن چن کر مارا جائے۔ یہ کام فوج، نیم فوجی ادارے، سول سکیورٹی کے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں باہم اور مربوط نظام قائم کرکے ہی کر سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک یہ کلچر شروع ہی نہیں ہوا۔ سارا بوجھ ایک ادارے پر ڈال کر حکمران خود غیر ملکی دوروں پر نکل چکے ہیں اور عوام ان حکمرانوں کی عقل سے منصوبہ بندی کے طفیل ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ سکول ، کالج بند ہیں‘ یونیورسٹیاں بند ہیں۔ دشمن کے بچوں کو خاک پڑھانا ہے‘ یہاں اپنے بچوں کی پڑھائی بند ہو چکی ہے۔
اب سکولوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ یہ کریں وہ کریں... مورچے بنائیں، دیواریں اونچی کریں،خاردار تاریں لگوائیں‘ گارڈز کی تعداد بڑھائیں۔ سکیورٹی کیمرے لگائیں۔ بھلا یہ کوئی حل ہے؟ کیا اس سے دہشت گردی کا سدباب ہوگا؟ بپھرے سانڈ کو مارنے یا قابو کرنے کے بجائے لوگوں کو اپنے دروازے مضبوط کرنے کی ہدایات دینا کیا مسئلے کا حل ہے؟ آج دہشت گرد تعلیمی اداروں پر حملہ آور ہیں‘ کل کلاں کسی اور جگہ کو ٹارگٹ بنالیں گے ، کیا وہاں پھریہی سب کچھ کیا جائے گا؟ اگر دہشت گرد گھروں پر حملے شروع کردیں تو کیا ہر گھر والا یہی سب کچھ کرے گا کہ مورچے بنوائے، دیواریں اونچی کروائے، خاردار تاریں لگوائے، سکیورٹی کیمرے لگوائے اور گارڈز رکھے؟ بازاروں، گلیوں، محلوں اور مارکیٹوں میں یہی کچھ ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سلسلہ تو کہیں ختم نہیں ہوگا۔ دہشت گردوں کے آگے لگ کر بھاگنا مسئلے کا حل نہیں، دہشت گردوں کا خاتمہ مسئلے کا حل ہے۔
سری لنکا اور دیگر کئی ممالک اس تجربے سے گزرے ہیں اور عشروں کی دہشت گردی کا خاتمہ مسلسل جاری آپریشنز کے ذریعے ہی ممکن ہوا۔ محض حفاظتی انتظامات سے یہ مسئلہ نہ تو کہیں حل ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی آپ ہمہ وقت کتنے چوکس رہ سکتے ہیں؟ کیا کبھی کسی حفاظتی گارڈ نے گولی چل جانے کے بعد اپنے مالک کو بچایا ہے؟ حملہ آور ہمیشہ تیاری سے آتا ہے اور محافظ اس سے لاعلم ہوتا ہے‘ لہٰذا حملہ آور کا پلہ ہمیشہ بھاری رہتا ہے‘ خاص طور پر جب وہ چھپ کر آئے۔ چھپے حملہ آور کا مقابلہ دفاع سے نہیں اس کے خاتمے سے ہی ممکن ہے اور ہم اس معاملے میں ابھی تک کچھ نہیں کر پائے کہ ضرب عضب کے نتیجے میں بکھرنے والے دہشت گردوں کو شہروں میں کیسے تلاش کرنا ہے اور ان کا خاتمہ کس طرح کرنا ہے؟
تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کتنی بھی بڑھالی جائے ، کیا یہ سکیورٹی مہران بیس سے بہتر ہوگی؟ کیا یہ سکیورٹی کراچی ایئر پورٹ پر موجود سکیورٹی سے زیادہ ٹائٹ ہوگی؟ کیا یہ حفاظتی انتظامات جی ایچ کیو کے حفاظتی انتظامات سے بہتر ہوں گے؟ جواب نفی میں ہے۔ اگر مہران بیس، کراچی ایئرپورٹ اور جی ایچ کیو دہشت گردوں کے حملے سے محفوظ نہیں رہ سکے تو ہم یہ کیا کر رہے ہیں؟ بنیادی سکیورٹی ضروری ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ سارے ملک کے تعلیمی اداروں کو ایسی فول پروف سکیورٹی سسٹم سے لیس کیا جا سکے جو دہشت گردی کو روک سکے۔
آج حکومت تعلیمی اداروں کو کہہ رہی ہے کہ آپ اپنا انتظام خود کریں‘ اپنی حفاظت خود کریں، ہم ذمہ دار نہیں، الٹا انہیں سکیورٹی کا مناسب بندوبست نہ کرنے پر جرمانے کرنے پر اتر آئی ہے۔ کل کلاں وہ شہریوں کو بھی کہے گی کہ اپنی حفاظت خود کریں‘ ہم آپ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں۔ حکمران خود تو بلٹ پروف گاڑیوں اور محافظوں کی فوج ظفر موج کے حفاظتی حصار میں سفر کرتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ اپنی حفاظت خود کریں۔ عجب حکومت ہے اور اس سے زیادہ عجیب حکمران ہیںکہ عوام کو کہتے ہیں کہ اپنی حفاظت خود کریں اور خود اسی مظلوم اور بے کس عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے اپنے لئے محافظوں کی فوج لئے پھرتے ہیں۔
پاکستان کا آئین عوام کی جان و مال کے تحفظ کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے اور دنیا بھرمیں ایسا ہی ہوتا ہے‘ یہ صرف مملکت خداداد پاکستان ہی ہے جہاں سرکار اپنی یہ بنیادی ذمہ داری پوری کرنے سے انکاری ہے اور وہ یہ ذمہ داری آگے منتقل کر رہی ہے۔ اگر عوام نے اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنا ہے تو حکمران بھی اپنی حفاظت کا بندوبست اپنے پلے سے کریں نہ کہ عوام کے ٹیکسوں پر موج میلا کریں۔
ایک بادشاہ تھا جسے باز کے شکار کا بڑا شوق تھا۔ اس کے پاس کئی باز تھے مگر ایک باز اس کا بہت چہیتا تھا۔ بازدار اسے لے کر جا رہا تھا کہ وہ اچانک اڑ کر سامنے درخت پر جا بیٹھا اور بازدار کے لاکھ بلانے پر بھی واپس آنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بازدار شاہی باز پرس اور سزا کے خوف سے کانپ رہا تھا۔ اسے اور تو کچھ نہ سوجھا‘ اس نے ساتھ سے گزرنے والے فقیر کا کان کاٹا اور اسے طعمہ بنا کرباز کو دکھایا۔ باز اس طعمے کی لالچ میں واپس آیا۔ بازدار نے اسے پکڑا اور اس کی آنکھوں پر چمڑے کا خول چڑھایا اور اسے بازو پر بٹھا کر شاہی محل چلا گیا۔ صبح وہی فقیر دربار میں آیا اور فریاد کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت! اللہ نے آپ کو بادشاہی دی، دولت دی، خزانہ عطا فرمایا‘ باز رکھنے کا شوق بھی دیا‘ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنا باز فقیروں کے کانوں پر مت پالیں۔ سو‘ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنے خزانے سے براہ راست کروڑوں اور عوام کی وساطت سے حکمرانی کے طفیل اربوں روپے عطا کیے ہیں‘آپ کم از کم اپنی حفاظت تو اپنے پلے سے کریں‘ ہماری جیبوں سے تو نہ کریں۔ ویسے بھی آپ نے ہماری حفاظت کا حلف اٹھایا تھا، ہم نے آپ کی حفاظت کا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved