یہ رپورٹ آپ کی نظر سے گزر چکی ہوگی جس میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں اپ گریڈیشن کے لیے دوہرا معیار کیا کیا گل کھلا رہا ہے‘ جس کے نتیجے میں ادارے بحران کا شکار ہیں‘ جہاں کلرکوں کو تو اپ گریڈ کیا گیا لیکن ہزاروں ہنرمند‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور 15 سال سے زاید تجربے کے حامل ملازم ترقیوں سے محروم ہیں اور کئی محکموں میں افسر‘ ماتحت اور کلرک بابو بن گئے ہیں جس کے باعث اپ گریڈیشن سے محروم سرکاری ملازم فعال نہیں ہو رہے۔ اس ستم رسیدگی کی ایک مثال شاہد قادر بھی ہیں جو ایک اچھے خاصے عرصے تک وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کے شکایت سیل کے انچارج رہے اور دن رات ایک کرتے ہوئے حاجتمندوں کی حق رسی کرکے ایک درخشاں مثال قائم کی بلکہ حکومت کے اعتماد اور اعتبار میں بھی بے پناہ اضافے کا باعث بنے‘ لیکن حاسدوں نے انہیں چلتا کروا دیا‘ ان کے بارے میں ایک تقریب کے دوران جب ان کا ذکر آیا تو پرویز رشید صاحب نے کہا کہ ہمیں ہر روز مٹھائیوں کے ڈبے آتے ہیں جس کی وجہ بہت بعد میں کچھ لوگوں نے بتائی کہ شاہد قادر نے بڑی جانفشانی سے سارا مسئلہ حل کرایا۔ یہ مٹھائی اس خوشی میں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کی بے لوث اور غیرمعمولی خدمات کی تعریف حضرات مجیب الرحمن شامی‘ سلیم بخاری‘ سید ارشاد احمد عارف اور آفتاب اقبال سمیت کئی دیگر معتبر حضرات بھی لکھ کر کر چکے ہیں۔ شاہد قادر سر عبدالقادر کے نواسے ہیں اور اسی نسبت سے یہ ان کے نام کا حصہ بھی ہے۔ حیرت ہے کہ وزیراعلیٰ کی مردم شناس نظر ابھی تک ان پر کیوں نہیں پڑی‘ جس کی بدولت وہ بے اندازہ نیک نامی کما سکتے ہیں‘ کیونکہ ان کی صحیح جگہ تعلقات عامہ اور امیج بلڈنگ کا کوئی اعلیٰ عہدہ ہے تاکہ ان کی خداداد صلاحیتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جا سکے اور ایک انتہائی کارآمد اور محنتی افسر ضائع ہونے سے بچ جائے۔ وزیراعلیٰ انہیں اپنے سیکرٹریٹ میں لگا کر اورایک بارآزما کر تو دیکھیں‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟
بھٹہ مالکان
ایک اور رپورٹ کے مطابق بھٹہ مالکان نے یکم فروری سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹہ انڈسٹری کے خلاف کریک ڈائون دہشت گردی ہے اور جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو اینٹوں کی فروخت بند کر دیں گے۔ نیز یہ کہ اگر بھٹوں کو ختم کرکے کوئی اور کام کیا گیا تو بیس لاکھ مزدور بیروزگار ہو جائیں گے جس کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے ہزاروں مزدور بچوں کو بھٹوں سے اُٹھا کر سکول داخل کیا ہے اور ان کے وظائف‘ مفت کتابیں اور دیگر مراعات و سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بھٹہ مالکان نے اس کریک ڈائون کی اصل وجہ نہیں بتائی اور بچوں سے مشقت کرا کر وہ جو قومی خدمت سرانجام دے رہے تھے‘ اس پر لب کشائی نہیں کی۔ ہمارے ہاں ہڑتال اور کام کی بندش ایک فیشن بن چکا ہے جو بلیک میلنگ تک کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ہر کسی کا حق بھی ہے۔ آخر یہ حضرات بچوں کی جگہ یہ کام بڑوں سے کیوں نہیں لے سکتے‘ کیا اس لیے کہ بڑوں کو انہیں پوری مزدوری دینا پڑے گی؟ ا گر جاہل رہ کر ملک کا مستقبل تباہ اور تاریک ہوتا ہے تو ان کی بلا سے!
کارگزاری
دفاتر میں آج کل کیا ہو رہا ہے اور سرکاری فرائض کس طرح ادا کیے جا رہے ہیں‘ اس کے نمونے یوں تو آپ کو جابجا بکھرے ہوئے نظر آ جائیں گے؛ تاہم اس کا اندازہ آپ کو ایک چھوٹی سی اخباری رپورٹ سے ضرور ہو جائے گا جس کے مطابق اہلکاروں کی طرف سے عالمی یوم کشمیر اس طرح منایا گیا ہے کہ ملزموں سے برآمد ہونے والی اعلیٰ درجے کی شراب اور منشیات تو رکھ لی گئی ہیں؛ البتہ ان کی جگہ بوتلوں میں پانی بھر کر اور گھٹیا قسم کی منشیات پر بلڈوزر چلا کر انہیں ضائع کردیا گیا ہے اور اس طرح اپنی کارکردگی کا ثبوت پیش کیا گیا ہے جبکہ نان کسٹم اشیاء کی فروخت سرعام جاری ہے اور اہلکاروں کی جانب سے صرف خانہ پری کی جا رہی ہے جس سے افسران کی خوشنودی بھی حاصل کی جا رہی ہے اور پیٹ پوجا بھی اور یہ کارگزاری صرف لاہور ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ اور ہر محکمے میں جاری و ساری ہے۔ مزید یہ کہ نان کسٹم گاڑیاں اہلکاروں کے ذاتی استعمال میں چل رہی ہیں اور یہ دھندا چھپ کر نہیں بلکہ کھلے بندوں ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
دیمک کی کارگزاری
لاہور ہی کی ایک خبر کے مطابق سیشن کورٹ کے ریکارڈ کو دیمک چاٹنے لگی ہے اور مقدمات کی لاکھوں فائلیں ضائع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ عملہ کی غفلت کے سبب برسوں سے کیڑے مار ادویات‘ خصوصاً دیمک کے تدارک کے لیے سپرے نہیں کیا گیا اور بیشتر دستاویزات پڑھے جانے کے قابل نہیں رہیں‘ حتیٰ کہ نئی فائلوں کے لیے بھی جگہ دستیاب نہیں ہے۔ نچلی عدالتوں کا تو ویسے ہی براحال ہے‘ جس کا اعتراف خود چیف جسٹس بھی کر چکے ہیں کہ وہاں انصاف رسانی کی ضرورت میں کیا کیا مشکلات حائل ہیں جبکہ انتظامی امور بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ فائلوں کے ضائع ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اپیل میں جانے والے مقدمات اسی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں‘ جبکہ وکلاء حضرات نے بھی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ مسئلہ تو ہے ہی‘ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ بعض رواں مقدمات کی فائلیں بھی گم ہوئی پائی گئی ہیں‘ جس ضمن میں حال ہی میں یہ کام مخصوص مفادات کے تحت دانستہ بھی کیا جاتا ہے اور اس میں دیمک کی کوئی کارفرمائی نہیں ہوتی۔
مُک مکا؟
چوہدری نثار علی خان اور سید خورشید شاہ کے درمیان تلخ کلامی میں کچھ اور رنگ بھی شامل ہونے لگے ہیں اور چوہدری صاحب کے دفاع اور ہمنوائی میں رانا تنویر صاحب بھی لنگرلنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں۔ اگرچہ بعض باخبر حلقوں کی طرف سے اسے نوراکشتی قرار دیا جا رہا ہے؛ تاہم خادم اعلیٰ دونوں کے درمیان صلح کرانے پر بھی مامور کر دیئے گئے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بتائیں کہ اس مُک مکا کی کیا قیمت ادا کی ہے‘ جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مُک مکا نوازشریف اور آصف علی زرداری کی سطح پر ہے اور نیچے محض کھیل تماشا ہو رہا ہے۔ یہ دلچسپ امر بھی بیان کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف والوں کے استعفوں کا منظور نہ ہونا کیا مُک مکا نہیں تھا؟ ع
ہاتھ لا اُستاد کیوں کیسی کہی؟
آج کا مطلع
عجیب ہی کوئی رنگ اب کے آشنائی میں تھا
وفا سے بڑھ کے مزہ اس کی بے وفائی میں تھا