لاہور کی فیروز پور روڈ پرکلمہ چوک کو آنکھوں کی نعمت سے محروم کوئی دو سو کے قریب نابینا افراد نے دھرنا دے کر بند کیا ہوا تھا، جس سے ٹریفک بند ہوگئی اور عوام کو اس سے دو دن شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دھرنے کے دوران لاہور میں اچھی بھلی بارش ہوتی رہی۔ شدید سردی اور بارش میں چند نابینا افراد کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے، ہم کسی بس سٹاپ پر یا ٹرینوں میں بھیک مانگنے والے نہیں، ہم گلی گلی اور گھر گھر دروازوں پر روٹی مانگنے والے نہیں، ہم ملک کے اداروں میں اچھی بھلی تعلیم حاصل کر چکے ہیں، ہم میں سے بہت سوں نے مختلف مضامین میں ایم اے کیا ہوا ہے اور ہم میں بہت سے ایسے ہیں جو گریجوایٹ ہیں۔ پنجاب حکومت نے ہم سے ایک سال قبل وعدہ کیا تھا کہ ہمیں ملازمتیں دی جائیں گی۔ ہم اس جھانسے میں آ گئے اور ہم نے لاہور کی مال روڈ سے دھرنا اٹھا لیا۔ اس دھرنے کے دوران ہمیں مارا گیا، ہم پر لاٹھی چارج کیا گیا، ہمیں سڑکوں پرگھسیٹا گیا، ہمیں ٹھڈے مارے گئے، لیکن ہم وزیر اعلیٰ کی جانب سے بھیجے گئے وفد کی یقین دہانیوں کے جھانسوں میں آ گئے۔ ہم جس طرح انہیں ووٹ دینے کے بعد پچھتائے، اسی طرح ان کے وعدوں پراعتبار نے بھی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ کیا حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اﷲ نے ہمیں آنکھیں نہیں دیں تو کیا اس نے ہمارے ساتھ پیٹ بھی نہیں لگائے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھوک کا احساس نہیں ہوتا؟ کیا ہمیں اپنے جسم پر لباس کی ضرورت نہیں ہوتی؟ کیا حکمران سمجھتے ہیں کہ یہ اندھے اگر لباس نہ بھی پہنیں گے تو ان کو کونسا اپنے ننگے ہونے کا احساس ہوگا؟ شاید حکمرانوں کو علم نہیں کہ ہم آنکھوں سے اندھے ضرور ہیں مگر عقل کے اندھے نہیں ہیں۔
جنوری کے دوسرے ہفتے میں پنجاب حکومت کی جانب سے معذور افراد کو دی جانے والی درجنوں سہولیات اور دیکھ بھال کرنے کے اقدامات کی تفصیل ''ماضی میں پاکستان میں ایسا کب ہوا تھا؟‘‘ کے عنوان کے تحت نظر آئے گی۔ ابھی اس کو دس دن ہی ہوئے تھے کہ 30 جنوری کو گوجرانوالہ میں آنکھوں اور جسمانی طور پر معذور افراد کو محکمہ تعلیم میں مختلف ملازمتوں کے لئے انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ نوکریوں کے متلاشی یہ نابینا درخواست گزار صبح سے ہی دفتر کے باہر قطاروں میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرنے لگے، لیکن انٹرویو کے لیے آنے والے حاکموں کو نہ جانے کیا ہوا کہ وہ تین بجے تک بھی نہ آسکے۔ صبح سویرے تلاش معاش کے لیے گھروں سے نکلے ہوئے آنکھوں اور ٹانگوں سے معذور یہ افراد جب کئی گھنٹے کھڑے رہنے کے بعد تھک گئے اور ان کی ٹانگیں جواب دینے لگیں تو وہ وہیں سرد اور ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گئے۔ بھوک اور سردی سے پریشان یہ نابینا افراد کو دیکھ کر عام لوگ بھی حیران ہو رہے تھے کہ افسران کو کیا ہو گیا ہے کہ ابھی تک وہ ان کے انٹرویوز کے لیے نہیں آئے۔ اگر وہ اتنے ہی مصروف تھے تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ آج کی تاریخ ہی مقرر نہ کرتے اور اگر انہوں نے ان سب کو بلا ہی لیا تھا تو انہیں یہ سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ وزیر اعلیٰ پنجاب میں شہباز شریف سے یہ پوچھنے کی جسارت تو کی جا سکتی ہے کہ جناب اندھوں، گونگوں اور بہروں کو ان کے گھروں سے انٹرویو کے لیے بلانے کے بعد انہیں کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑا کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ''ماضی میں پاکستان میں ایسا کب ہوا تھا؟‘‘ کی تشہیری مہم کا مطلب یہی تھا؟ گزشتہ برس لاہور کی مال روڈ پر اسمبلی ہال کے سامنے اور پھر 90 شاہراہ قائد اعظم پر جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب کا دفتر ہے، اپنے مطا لبات کے لیے اکٹھے ہونے والے نابینا افراد پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے انہیں زخمی کیا گیا تھا، ان اندھے افراد کو دھکے دیتے ہوئے پختہ سڑکوں پر گھسیٹا گیا تھا تو دیکھنے والے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ''ماضی میں پاکستان میں ایسا کب ہوا تھا؟‘‘
حکومت پنجاب کی جانب سے پیش کئے جانے والے موقف کو ایک بار پھر دیکھیں تو اس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 26,000 ہزار نابینا افراد ہیں جبکہ2012 ء میں حکومت پاکستان کے محکمہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ اس وقت پاکستان بھر میں نابینا افراد کی کل تعداد413551 اور ان میں سے پنجاب کے نابینا افرادکی تعداد 245422 ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں نابینا افراد کی کل تعداد 216339 تھی۔ اب یہ کس سے پوچھا جائے کہ جناب ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کچھ اور ہوں لیکن میڈیا میں بہت ہی کم کر کے بتائے جائیں؟
بے نظیر انکم سپورٹ کا کل بجٹ 100 ارب روپے سے زیادہ ہے جسے حکمران اپنے سیاسی مقاصد اور ضمنی انتخابات میں غریب عوام کے ووٹ خریدنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے دور کو سامنے رکھیں تو وسیلہ حق کے نام پر ایک ایک من پسند کو تین سے پانچ لاکھ روپے مالِ مفت کی طرح بانٹے گئے اوراب بھی یہی کچھ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق صوبے میں نابینا افراد کی تعداد چھبیس ہزار ہے۔ اگر 100 ارب روپے میں سے ان نابینا افراد کو ملازمتیں دے کر انہیں فی کس اوسطاً 20,000 ہزار روپے ما ہانہ دیے جائیں تو ایک سال میں 6 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اور اگر ان کو تعلیم اور گریڈ کے حساب ملازمتیں دی جائیں تو یہ رقم چھ ارب روپے سے بھی کم ہونے کا امکان ہے۔ تو کیا یہ 100 ارب روپے سیاسی دکانداری چکمانے کے لیے من پسند لوگوں میں بانٹنے سے بہتر نہیں کہ اس کے اصل حق داروں میں تقسیم کر دیے جائیں؟ وہ بھی بھیک کی صورت میں نہیں بلکہ ان کی جانب سے مختلف پوزیشنوں میں سرکاری فرائض ادا کرتے ہوئے اپنے کام کی صورت میں۔
نابینا افراد کے دھرنے کے خلاف یہ شکوہ توکر دیا گیا کہ ''چند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے احتجاج کے نام پر مریضوں، طالب علموں اور عام شہریوں کے لیے دشواریاں پیدا کر رہے ہیں‘ حکومت پنجاب امید رکھتی ہے کہ معذور افراد ان مذموم عزائم کو ہرگز فروغ نہیں دیں گے اور کسی بھی طرح کی عوامی مشکلات پیدا کرنے کا سبب نہیں بنیں گے‘‘۔ لیکن جناب آپ کو تو اس صوبے میں حکومت کرتے ہوئے8 سال ہونے کو آئے ہیں اور اب بھی آپ یہی کہے جا رہے ہیں کہ نابینا اور معذور افراد کو نو کریاں دیںگے، ان کو فلاں سہولت دیں گے۔ جناب والا! آپ کو اب تک یہ سب کچھ کر دینا چاہیے تھا۔ اللہ سے ڈریں کہیں یہ اندھے، لولے، لنگڑے اور گونگے بہرے برفانی سردیوں، تپتی دوپہروں میں سڑکوں پر اپنے پیدا کرنے والے سے آپ کے لیے کوئی بد دعا ہی نہ کر دیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر بھی آپ کہہ دیں: ''ماضی میں پاکستان میں ایسا کب ہوا تھا؟‘‘