ایسا خوبصورت جاندار پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ ناقابلِ یقین حد تک تیزاٹھان، تیورکڑے، دو ٹانگوں پہ سیدھا کھڑا، سوچتا ہوا جانور۔ کہا جاتا ہے کہ بنیادی اصولوں کو وہ سمجھنے لگا تھا۔ جب نہیں بھی سمجھتا تھا، تب بھی تجربات میں مشغول رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ کششِ ثقل اور طبیعات کے جدید اصول مرتب ہونے سے قبل ہی اس نے لکڑی کی ایک گول چیز بنائی تھی، جو اپنے ہی وزن پہ گھومتی رہتی۔ اس نے اسے پہیے کا نام دیا اور یوں وزن برداری کی مشقت سے جان چھڑائی۔
دو ٹانگوں والے کی سب سے منفرد خصوصیت ہر چیز کو ایک نام دینا تھا۔ ہر چیز کی مثبت اور منفی خصوصیات کا مشاہدہ کرکے وہ اسے ایک نام دیتا۔ اس کی دوسری سب سے بڑی صلاحیت ابلاغ تھا۔ جس چیز میں اسے فائدہ نظر آتا، اپنے خاندان اور قبیلے کو اس کے بارے میں تفصیل بتاتا۔ انسانی ابلاغ بھی ہر چیز کو نام دینے کا مرہونِ منّت تھا۔ اس کام میں وہ اتنا ماہر تھا کہ اپنی زبان سے نکلنے والی ہر آواز کو بھی اس نے ایک نام دیا اور یوں زبان ایجاد کی۔ مختلف قبیلے، بے شمار زبانیں۔ سالوں کے سفر میں اپنی ہر آواز کو ایک علامت کی صورت میں اس نے لکھنا سیکھا۔ یوں زبانی ہی نہیں، اس نے تحریری صورت میں بھی زبان مرتب کی۔
آہستہ آہستہ وہ اصول سیکھتا، خوف سے آزاد ہوتا گیا۔ اس نے زمین اور چاند کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے، چاند اور سورج کے تاریک ہوجانے کو گرہن کا نام دیا۔ پہلے پہل اس
نے زمین کے اوپر اپنی خوراک ڈھنڈی۔ پھر وہ گہرائی میں اترا۔ تھا وہ نازک اندام لیکن بڑا منصوبہ ساز۔ دوسرے جانور اپنی حسیات سے کام لے کر سامنے موجود خطرے سے جان بچانے کا ہنر جانتے تھے لیکن وہ لمبی منصوبہ بندی نہ کر سکتے تھے۔ اپنی نسلوں کو انسانی استحصال سے محفوظ رہنے کی سائنس وہ سکھانے سے قاصر تھے۔ ادھر یہ تھا کہ قدم قدم آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ پتھر کے اوزار ہی نہیں، اس نے لوہے اور آگ سے کھیلنا سیکھا، بارود سے کام لیا۔ اس نے جانور شکا رکیے، سمندر کی تہہ میں اپنی خوراک ڈھونڈی اور پودے اگائے۔
اس نے اپنے آپ کو ٹٹولنا سیکھا۔ نظر نہ آنے والے چھوٹے جانداروں کا مشاہدہ کرنے والے آلات بنائے۔ ہر جرثومے کو ایک نام دیا، اسے قتل کرنے کی تدبیر سوچی۔ بیماریاں کم ہوتی گئیں ، انسانی عمر بڑھتی چلی گئی۔ وہ روئے زمین کے چپّے چپّے پر پھیل گیا۔
انسان کئی منفی خصوصیات کا حامل تھا۔ وہ جانوروں ہی کو نہیں، اپنے جیسوں کو لوٹتا تھا۔ ان کی مفید اشیا چھین لیتا تھا۔ قبیلوں سے بڑھتے بڑھتے وہ شہروں اور ملکوں میں تقسیم ہوا۔ ملک ملکوں کو تباہ کر تے۔ شہر شہروں کو اجاڑ ڈالتے۔ منافعے کے لیے اس نے ایسی مضرِ صحت خوراک کو فروغ دیا جو خوش ذائقہ تھی۔ مفید گنّے اور شکر کو اس نے نقصان دہ چینی میں تبدیل کیا۔ ایک گلاس مشروب میں اس کے بائیس چمچ ڈالے۔ اس نے تیزی سے بڑے ہونے والے نیم مردہ، بیماری زدہ جانوروں کو فرو غ دیا۔ اس صورتِ حال میں ترقی یافتہ ممالک کی نصف آبادی اگر موٹاپے اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا شکار ہو ئی تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔
انسان دوسروں جیسا ہرگز نہیں تھا۔ وہ لباس پہنتا تھا۔ اس نے حکومت ، پولیس اور فوج جیسے ادارے قائم کیے تھے کہ ہر شہری کے حقوق کا تحفظ ہو۔ دوسرے جانوروں کے برعکس، اس کے ہاں نر اور مادہ میں تعلقات کچھ اصولوں اور ضابطوں کے پابند تھے۔ آہستہ آہستہ ان اصول اور ضابطوں سے وہ دستبردار ہونے لگا۔ ضابطوں کے بغیر ہی نر اور مادہ اکھٹے رہنے اور اصولوں کے بغیر ہی جدا ہونے لگے۔ اس صورتِ حال میں ترقی یافتہ ممالک میں بچّوں کی اکثریت اگر اپنی ولدیت سے لاعلم اور معاشرتی ڈھانچہ اگر لڑکھڑانے لگا تھا تو یہ حیرت کی بات نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ اپنی منفرد انسانی خصوصیات سے وہ دستبردار ہونے لگا۔ اس نے لباس اتار پھینکا۔ اس کا کہنا ہی تھا کہ اگر دو نر اور دو مادہ اکھٹے رہنا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ گرتے گرتے وہ جانوروں سے گر گیا۔ اس نے یہ استدلال پیش کیا کہ سگے رشتے دار اگر شادی کرنا چاہیں تو اس میں حر ج کیا ہے۔ آخر دوسرے جانوروں میں بھی تو ایسا ہوتاہے۔ معاشرہ تباہ ہو تا چلا گیا۔ جرائم پیشہ کھلے پھرنے لگے۔ نئی نسل والدین کی شفقت سے محروم ہوئی تو انسانی آبادیاں جرائم سے لبریز ہوتی چلی گئیں۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ایسے افراد برسرِ اقتدار آئے، جو دوسری قوموں کے خلاف نفرت کا شکار اور اس کے مبلغ تھے۔ ا س اثنا میں آدمی خطرناک حد تک اجاڑدینے والے ہتھیار بنا چکا تھا۔ اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد کوئلہ، تیل ، گیس تیزی سے جلائے گئے۔ کرّۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھتا چلا گیا۔ نازک ارضی توازن بگڑتے چلے گئے۔
اجتماعی طور پر انسان وقتی فائدے کی طرف متوجہ رہا۔ انسانوں کی اکثریت دولت کمانے، خوشحال زندگی کے حصول اور دوسروں کے استحصال تک محدود تھی۔ دولت کمانے والے دن رات دولت کماتے۔ اقتدار والے ہمیشہ مقتدر رہنے کی تگ و دو میں رہتے ۔ پھر و ہ اسے اپنی اولاد میں منتقل کرنا چاہتے۔ کرّۂ ارض کے وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے۔ تجسس کا مارا انسان دوسری زمینوں میں زندگی کا کھوج لگاتا رہا۔ خود اپنے اندر اتر کر وہ نہ دیکھ سکا کہ اس کے اندر کیسا ہلاکت خیز درندہ موجود ہے۔ اس کے اندر دوسروں کو تہ تیغ کرنے، اپنی سربلندی، نفسانی خواہشات کا ایک سمندر ہمہ وقت ابلتا رہتا تھا۔ اجتماعی طور پر انسانوں نے کبھی کوشش نہ کی کہ ان جبلّتوں کی تہہ تک پہنچا جائے۔ مجموعی طور پر انسان غصے، انتقام اور غلبے کی جبلتوں تلے دوسروں کو اجاڑتا رہا۔ وہ دوسرے قبیلوں اور آبادیوں کو تباہ کرنے میں لگا رہا۔
انسانیت کو بہت سے خطرے لاحق تھے۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ تین ارب برس پہلے ابتدا میں جو جاندار وجو دمیں آئے تھے، اب ان میں سے صرف ایک فیصد ہی باقی بچے تھے۔ ان گنت حیوانی نسلیں مٹ چکی تھیں۔ خواہ کتنا ہی ذہین ہو، آخر وہ جسمانی طور پر دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہی تو تھا۔ ایک چھوٹے سے سیارے کے محدود وسائل پر زندگی گزارتا انسان۔ اتنی قوت اس میں نہیں تھی کہ اپنے سورج سے دور، کسی اور ستارے کے گرد کسی نئی زمین میں آباد ہو سکتا۔ اس ساری صورتِ حال میں انسان کا ناپید ہو جانا کوئی عجیب با ت تو نہیں۔ انسان مر گیا، اب صرف اس کے کچھ آثار ہی باقی ہیں۔