تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-02-2016

انقلابی

انقلاب روس سے افغانستان کے انقلاب صور تک‘ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انقلابی لوگ پورے نہیں تو آدھے پاگل ضرور ہوتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے خطۂ ارض کو خدا ان پاگلوں سے محفوظ رکھے۔
کیا افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے؟ جی ہاں بالکل ممکن ہے‘ ہر وہ کام جو جائز اور طیب ہے‘ جس کا تعلق انسانوں کی بھلائی اور بہبود سے ہے‘ اس کا امکان ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ خلوص اور حکمت سے کام لیا جائے۔ قرآن کریم قرار دیتا ہے کہ اگر سچائی کا دامن تھاما جائے اور صبروحکمت سے کام لیا جائے بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کیا جائے‘ تو آدمی بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرسکتاہے۔ انسانی جان کی حرمت اٹل اور بنیادی اصول ہے۔محدود نقطہ نظر کے ساتھ محض اپنے مفادات کی نگہداشت کرنے کی بجائے اگر انسانی جانوں کی حرمت کا تہیہ کرلیا جائے تو اس قادر مطلق کی رحمت کا دروازہ چوپٹ کھل سکتا ہے‘ جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکتا۔
پہلی بار وہ بنیاد فراہم ہو گئی ہے‘ احتیاط کے ساتھ جس پر چلتے ہوئے اس خطۂ ارض میں امن کا حصول ممکن ہے۔ نہ صرف پاکستان اور افغانستان نے ادراک کرلیا ہے کہ چہار طرف پھیلے جنون کا انسداد صرف باہمی تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہے‘ بلکہ دو بڑی طاقتیں امریکہ اور چین بھی خوش دلی کے ساتھ مدد پر آمادہ ہیں۔ وسطی ایشیا میں قرار کے آرزو مند روسی بھی ان کاوشوں کی کامیابی کے خواہاں ہوں گے۔ اگلے مرحلے پر ایران کو اس عمل میں شریک کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کی خانہ جنگی اس کے مفاد میں بہرحال ہرگز نہیں۔ 68 برس سے افغانستان میں‘ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والا بھارت تو ایک ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ‘ جس میں خود اس کے ساتھ ''جنگ بندی‘‘ کا عنصر شامل ہو‘ ایک مسلسل اور مثبت دبائو کے سامنے ٹھہر نہ سکے گا؛ بشرطیکہ دانائی اور ہوشمندی کارفرما رہے۔ خوف اور مرعوبیت نہیں‘ جلد بازی اور دبائو نہیں بلکہ حقائق کے ادراک سے کام لیا جائے۔ صرف اس ایک نکتے پر غور کیجئے کہ دہلی کا مفاد وسطی ایشیا کے ممالک سے تجارت میں وابستہ ہے اور اس کی چابی پاکستان کی جیب میں ہے۔ اگر وہ سازشوں سے دستبرداری پر آمادہ ہو تو واہگہ سے تورخم تک کا راستہ اس پر کھولا جا سکتا ہے۔ ابھی یہ قبل از وقت ہے۔ بہت سے اذہان شاید اس طرح کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے ہی آمادہ نہ ہوں۔ مگر تازہ اور نئے تصورات کا دروازہ کبھی بند نہ کرنا چاہیے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے نجد کے مسلمان ہو جانے والے سردار کو اہل مکہ پر گیہوں کا راستہ بند کرنے سے روک دیا تھا‘ جو انہیں قحط میں مبتلا کر سکتا۔ پھر صلح حدیبیہ تک نوبت پہنچی اور اس کے بعد فتح مکہ تک۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم پر وہ غور نہیں کرتے اور سیرت میں جی نہیں لگاتے۔ فرمایا: اسلام خیرخواہی ہے۔ اور آپؐ کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ دانا وہ ہے‘ جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ سچا مسلمان وہی ہے جو کبھی جنگ‘ تباہی اور انتقام کا آرزو مند نہ ہو۔ امن ہی آخری منزل ہونا چاہیے۔ جنگ تو آخری چارہ کار ہوتا ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ 6 فروری کو چار ملکی مذاکرات سے پہلے جن میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ چین اور امریکہ شریک ہوں گے‘ پاکستان اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کی بات چیت ہوگی‘ باہمی تعاون کے لیے!
افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ این ڈی ایس کے سربراہ اسلام آباد آئیں گے۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر سے ملیں گے۔ چار ملکی مکالمے کے ساتھ اس ملاقات کا براہ راست تعلق نہیں‘ ایک اعتبار سے مگر وہ اسی کا حصہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہوتا تو دونوں ملکوں کی حریف ایجنسیوں میں مذاکرات بھی ممکن نہ ہوتے‘ ایک دوسرے کو جو تخریب کاری کا ذمہ دار قرار دیتے رہتے ہیں۔ اس قدر کہ سال گزشتہ جب دونوں ملکوں نے انٹیلی جنس کے میدان میں باہمی تعاون کا فیصلہ کیا تو این ڈی ایس کے سربراہ رحمت اللہ نبیل نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ نچلی سطح کے افسروں نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ رحمت اللہ نبیل بعدازاں مستعفی ہوگئے‘ جب تیزوتند بیانات کے بعد‘ صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر پاکستان کا دورہ کیا۔
دونوں ملکوں میں تعاون کا فیصلہ مئی 2015ء میں وزیراعظم نوازشریف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے دورہ کابل کے بعد ہوا تھا۔ صدر اشرف غنی کی پوری تائید اس پیش قدمی کی پشت پر تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تصور انہی کا پیش کردہ تھا لیکن پھر وہ سیاسی دبائو کا شکار ہوگئے۔ اڑسٹھ برس سے افغانستان کے بارے میں پاکستان کی حکمت عملی کے بنیادی نکات میں سے ایک یہ ہے کہ پشتونوں پر انحصار کیا جائے۔ اس بات کو اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ افغانستان ایک پشتون ملک نہیں۔ اڑھائی سو سال پہلے اس ملک کی بنیاد رکھنے والے احمد شاہ ابدالی کی قبر پہ جو کتبہ نصب ہے‘ اس پر انہیں شاہ افغانستان اور ترکمانستان کہا گیا ہے۔ شمال کے ازبک‘ تاجک‘ ترکمان اور وسطی افغانستان کے ہزارہ بھی ایسے ہی اہم ہیں۔ کابل ایک پشتون شہر نہیں ہے۔ رابطے کی زبان فارسی ہے‘ جس طرح کہ پاکستان میں اردو۔
1973ء میں عبدالولی خان مرحوم نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اجمل خٹک کابل چلے گئے اور پختون زلمے کے سینکڑوں نوجوان بھی‘ جنہیں دہشت گردی کی تربیت دی گئی۔تب سرحد کے وزیراعلیٰ شیرپائو قتل کر دیئے گئے تو سردار دائود کو صدمہ پہنچا۔ انہوں نے شکایت کی کہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر ایسا اقدام کیا گیا‘ جس کے نتائج سمیٹنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جنرل نصیراللہ بابر کے ایما اور ان کی قیادت میں جوابی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود پاکستان آئے۔ یہ اس کے بعد ہوا کہ بھٹو نے اے این پی کی قیادت کو گرفتار کرنے اور اس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو کے انتقامی رویے کی بنا پر‘ عبدالولی خان کے بدلتے ہوئے طرزعمل کا کبھی جائزہ نہ لیا گیا۔ جماعت اسلامی سمیت ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیاں ان کے لیے جواز تلاش کرتی رہیں۔ اگر کوئی تاریخ کے اس باب کا سنجیدگی اور بے تعصبی سے مطالعہ کرنا چاہے تو اسے جمعہ خان صوفی کی کتاب ''فریب ناتمام‘‘ کو غور سے پڑھنا چاہیے۔ وہ اے این پی کے ایک بہت ہی مخلص کارکن تھے اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ۔ پشاور سے فرار ہو کر‘ جہاں اسلامیہ کالج میں وہ انگریزی پڑھایا کرتے‘ وہ کابل پہنچے اور کئی برس اجمل خٹک کے ساتھ گزارے۔ برسوں بعد جب عظیم تر پختونستان کی تحریک ڈوب چکی اور تلخ حقائق ان پر کھلے تو یہ کتاب انہوں نے لکھی۔ 
جیسے کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ روس کی گود سے اچھل کر امریکہ کے پائوں میں جا بیٹھنے والے دانشوروں کا بس نہیں چلتا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کے تمام جرائم کا ذمہ دار قرار دے ڈالیں۔ پروپیگنڈے میں غیر معمولی درک رکھنے والے انہی افسانہ نویسوں کے طفیل باور کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان تھا جس نے افغانستان میں شورش کو ہوا دی۔ جمعہ خان صوفی کی تصنیف آشکار کرتی ہے کہ دراصل یہ سردار دائود خان اور عبدالولی خان تھے جنہوں نے عظیم تر پختونستان کا خواب دیکھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے اجمل خٹک کابل گئے اور تخریب کاری کے ایک عالم گیر منصوبے کی نگرانی کرتے رہے۔ افغانستان کے علاوہ اسے بھارت‘ عراق اور سوویت یونین کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ان سب ممالک کا خیال یہ تھا کہ پاکستان ایک مصنوعی ملک ہے ‘ مزید حصے بخرے اُس کے کیے جا سکتے ہیں۔ انہی دنوں خان عبدالولی خان نے ارشاد فرمایا تھا کہ طورخم کی زنجیر وہ اٹھا کر اٹک پر رکھ دیں گے۔ اپنے منصوبے کی کامیابی کا انہیں یقین تھا اورایسا یقین کہ عبدالغفار خان کے بقول ان کے فرزند ارجمند کو‘ افغانستان اور سرحد پر مشتمل نئے ملک یعنی پختونستان پر حکومت کرنا تھی۔ 
سردار دائود کے بعد روس کی مدد سے برسر اقتدار آنے والے ترکئی بھی پختونستان کے اسی خواب میں تھے۔ ایک آنکھیں کھول دینے والا واقعہ مصنف نے لکھا ہے: مفاہمت کی بے تاب تمنا کے ساتھ جنرل محمد ضیاء الحق کابل پہنچے تو ترکئی سے انہوں نے کہا: میری دو گزارشات مان لیجیے۔ شمشاد پہاڑی پر ٹی وی بوسٹر نہ لگائیے(تاکہ پاکستان کی قبائلی پٹی میں تخریبی جذبات پیدا نہ ہوں) ثانیاً ہمیں اجازت دیجیے کہ اجمل خٹک اور ان کے ساتھیوں کو احترام کے ساتھ ان کے وطن لے جائیں۔ ترکئی تکبر کے ساتھ ہنسا۔ جنرل ضیاء الحق کے کاندھے پر اُس نے ہاتھ رکھا ۔ جنرل کے منصب کی نشاندہی کرنے والے سٹار کی طرف اشارا کیا اور کہا: ''اس نے ملکہ وکٹوریہ کا کمر بند بھی پہن رکھا ہے‘‘۔ افغان سربراہ کو معلوم نہ تھا کہ ضیاء الحق پشتو جانتے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تکبر کا انجام کیا ہوتا ہے۔
انقلاب روس سے افغانستان کے انقلاب صور تک‘ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انقلابی لوگ پورے نہیں تو آدھے پاگل ضرور ہوتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے خطۂ ارض کو خدا ان پاگلوں سے محفوظ رکھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved